SOURCE :- BBC NEWS

بشار الاسد اور ان کی اہلیہ اسما الاسد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک گھنٹہ قبل

روسی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ شام کے معزول صدر بشار الاسد کی اہلیہ اُن سے طلاق نہیں لے رہی ہیں۔

ترک میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق اسما الاسد اپنی شادی ختم کر کے روس سے جانا چاہتی ہیں۔ یاد رہے کہ شام میں باغیوں کی جانب سے حکومت گرائے جانے کے بعد سے بشار الاسد نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ روس میں پناہ لے رکھی ہے۔

ایک نیوز کانفرنس کے دوران جب روس کے پریس سیکریٹری دمتری پیسکوف سے بشار الاسد اور اُن کی اہلیہ اسما الاسد کے درمیان طلاق کی خبروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’نہیں اِن (خبروں) میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘

انھوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ بشارالاسد کو روس کے اندر صرف ماسکو تک محدود رکھا گیا ہے اور یہ کہ اُن کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران روس بشار الاسد حکومت کا اتحادی رہا اور اس کی فوجی مدد بھی کی۔ اتوار کے روز ترک میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق بشارالاسد اور ان کا خاندان روس کے دارالحکومت ماسکو میں سخت پابندیوں میں زندگی گزار رہا ہے جبکہ شام کی سابق خاتون اول نے طلاق کی ایک درخواست بھی دائر کی ہے کیونکہ وہ لندن جانا چاہتی ہیں۔

اسما الاسد شام کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی بھی شہریت رکھتی ہیں لیکن برطانوی سیکریٹری داخلہ پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ انھیں ملک واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

رواں ماہ کے آغاز میں پارلیمان میں بات کرتے ہوئے برطانوی سیکریٹری داخلہ ڈیوڈ لامے نے کہا تھا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان (اسما الاسد) پر پابندیاں عائد ہیں اور ان کا برطانیہ میں استقبال نہیں کیا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام تر اختیارات کا استعمال کریں گے کہ اسد خاندان کے کسی فرد کو برطانیہ میں جگہ نہ ملے۔

گذشتہ ہفتے بشار الاسد سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ شام نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن روسی فوج نے اُنھیں وہاں سے نکال کر ماسکو منتقل کر دیا۔

اسما الاسد کی بشار الاسد سے لندن میں ملاقات اور پھر شادی

سنہ 2002 میں بشار الاسد اور ان کی اہلیہ اسما الاسد نے لندن میں ملکہ سے ملاقات کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب شام کے کسی رہنما کو بکنگھم پیلس میں دعوت دی گئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اسما الاسد لندن میں شامی نژاد خاندان میں پیدا ہوئیں جہاں اُن کا نام اسما الاخرس رکھا گیا۔

اُن کے والد فواز الاخرا، ماہر امراض قلب تھے اور ایک پرائیویٹ کلینک چلاتے تھے۔ اُن کی والدہ سحر ایک سفارتکار تھیں اور لندن میں شامی سفارتخانے میں فرسٹ سیکریٹری کے طور پر کام کر چکی تھیں۔

سنی مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والی اسما نے ایک پرائیویٹ گرلز سکول سے تعلیم حاصل کی، بعد میں معروف کنگز کالج سے کمپیوٹنگ میں گریجویشن کی اور پھر لندن میں ایک بینکر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا۔

وہاں اُن کی ملاقات بشار الاسد سے ہوئی جنھوں نے طب میں گریجویشن کیا تھا اور امراض چشم میں مہارت حاصل کر رہے تھے۔

بشار کے والد حافظ اسد کی وفات جون 2000 میں ہوئی۔ ان کی موت کے فوری بعد 34 سالہ بشار الاسد کو فوری طور پر شام کا صدر مقرر کر دیا گیا تھا۔ بشار الاسد نے حلف اٹھانے کے بعد ایک نیا سیاسی لہجہ اختیار کرتے ہوئے شفافیت، جمہوریت، ترقی، جدت، احتساب اور ادارہ جاتی سوچ کو اپنانے کی بات کی۔

اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما الاخرس سے شادی کر لی جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔

بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایک سابق نامہ نگار کم غطاس بتاتے ہیں کہ اُس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک برطانوی خاتون اور ایک سنی فرقے کی مسلمان لڑکی سے شادی ترقی اور انضمام کی علامت ہو سکتی ہے اور یہ ایک سنی اکثریتی ملک میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

لیکن برسوں کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ بشار بالکل اپنے والد کی طرح تھے، ایک سخت گیر رہنما جو بظاہر اصلاح پسند نظر آتے تھے۔

کم غطاس کے مطابق ’ایک گمنام خاندانی ذریعہ نے کہا تھا کہ بشارالاسد نے اسما سے شادی یہ جانتے ہوئے کی کہ وہ شام کا جدید چہرہ دکھانے میں انمول ثابت ہوں گی۔‘

تاہم کم غطاس کا کہنا ہے کہ ’خاتون اول کے طور پر اسما کا نقطہ نظر اسد خاندان کے اندر کشیدگی کا باعث بنا، خاص طور پر صدر کی بہن بورشرا اور ان کی والدہ انیسہ کو عوامی رابطے زیادہ نہیں بھاتے تھے۔‘

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے سنہ 2005 میں بشار الاسد اور ان کی اہلیہ کا ماسکو میں استقبال کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’صحرا میں گلاب‘

فروری 2011 میں فیشن میگزین ’ووگ‘ نے شام کی خاتون اول کا 3,200 الفاظ پر مشتمل پروفائل شائع کیا جس کا عنوان تھا ’صحرا میں گلاب۔‘

اس مضمون میں انھوں نے اسما کو گلیمرس قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ شام مشرق وسطیٰ کا سب سے محفوظ ملک ہے۔

لیکن صرف ایک ماہ بعد پولیس نے درعا شہر میں پرامن، جمہوریت نواز مظاہرین پر تشدد کیا جس سے ایک تنازع شروع ہوا جس میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کی جانیں گئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔

اس سال بین الاقوامی سطح پر شام کی خاتون اول کو ایک مختلف روپ میں دیکھا گیا۔

’ووگ‘ پروفائل سامنے آنے کے فوراً بعد نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ یہ مضمون بشار الاسد حکومت کی مہم کا حصہ تھا، جس میں ایک امریکی پبلک ریلیشن فرم کو ماہانہ 5,000 ڈالر ادا کرنا بھی شامل تھا جس نے ووگ اور اسما الاسد کے درمیان ثالث کے طور پر کام کیا تھا۔

اس مضمون کو جلد ہی ووگ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا اور اشاعت کی ڈائریکٹر اینا ونٹور نے اسد حکومت کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔

بیماری کو شکست

سنہ 2012 میں یورپی یونین نے اسما پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے سفر پر پابندی لگا دی اور ان کے اثاثے منجمد کر دیے لیکن اسما نے اپنے شوہر کی حمایت میں بیانات جاری کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ’تشدد کے متاثرین‘ کو تسلی دینے کے لیے وقف ہیں۔

روسی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے سنہ 2016 کے انٹرویو میں اسما نے کہا کہ وہ بے گھر اور زخمیوں، شامی فوجیوں اور جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے مدد کا انتظام کرنے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کر رہی ہیں۔

سنہ 2018 میں شامی حکام نے آگاہ کیا کہ اسما الاسد چھاتی کے کینسر کا علاج کروا رہی ہیں۔ سنہ 2019 میں شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کینسر کی جلد تشخیص کی وجہ سے وہ صحتیاب ہو گئی ہیں۔

مئی 2024 میں شام کے صدارتی دفتر نے اطلاع دی تھی کہ اسما الاسد میں لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی ہے۔

روئٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ’بیان کے مطابق 48 سالہ اسما کو علاج کے خصوصی پروٹوکول سے گزرنا پڑے گا جس کے تحت انھیں خود کو الگ تھلگ کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں وہ عوامی مصروفیات سے دور رہیں گی۔‘

SOURCE : BBC