SOURCE :- BBC NEWS

ایران، جوہری سائنسدان

،تصویر کا ذریعہSIMON&SCHUSTER

  • مصنف, ریحان فضل
  • عہدہ, بی بی سی ہندی
  • ایک گھنٹہ قبل

27 نومبر 2020 کو جو بائیڈن کے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے تین ہفتے بعد، موساد نے اپنی سب سے سنسنی خیز کارروائی کی۔

ایران کے عسکری جوہری پروگرام کے سربراہ محسن فخری زادہ تہران سے 40 میل مشرق میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ وہ سیاہ رنگ کی نسان ٹیانا کار میں سفر کر رہے تھے۔ فخری زادہ، بری طرح زخمی تھے اور ان کا خون بہہ رہا تھا۔

انھیں فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا لیکن شام 6.17 پر ایران کی وزارت دفاع نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’فخری زادہ اب نہیں رہے۔‘

انھیں ’شہید‘ قرار دیا گیا اور اگلے دن ان کے تابوت کو ایران کے سبز، سفید اور سرخ دھاری دار پرچم میں لپیٹ کر ایران کے اہم مقدس مقامات پر لے جایا گیا۔ قتل کے تین دن بعد انھیں تہران کی امام زادہ صالح مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کر سکے تاہم ان کے نمائندے نے ان کی جانب سے تعزیتی پیغام پڑھ کر سنایا۔ وزیر دفاع نے تابوت کو چومتے ہوئے اعلان کیا کہ ’اس کا بدلہ لیا جائے گا۔‘

ایران، جوہری سائنسدان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خفیہ زندگی

محسن فخری زادہ نے اپنی پوری زندگی پس منظر میں گزاری۔ 2023 میں شائع ہونے والی کتاب ’ٹارگٹ تہران‘ میں یونا جیریمی باب اور ایلان ایویٹر لکھتے ہیں کہ ’ان کے بارے میں اتنی رازداری رکھی گئی تھی کہ ان کی صرف الگ الگ تصویریں ہی دستیاب تھیں۔‘

’لوگوں کو ان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ 2011 میں جلاوطن حزب اختلاف کی تنظیم ’نیشنل کونسل آف ریزسٹنس آف ایران‘ نے ان کی ایک تصویر شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ سیاہ بالوں والا ایک ادھیڑ عمر کے آدمی تھے جن کے ہلکی خاکستری رنگ کی داڑھی تھی۔‘

اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ فخری زادہ 1958 میں قم میں پیدا ہوئے۔ وہ 1979 کے انقلاب کے بعد پاسداران انقلاب کے رکن بنے۔ انھوں نے شاہد بہشتی یونیورسٹی، تہران سے فزکس میں ڈگری اور اصفہان یونیورسٹی سے نیوکلیئر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

فخری زادہ نے ابتدا میں امام حسین یونیورسٹی میں پڑھایا لیکن وہ پاسداران انقلاب میں بریگیڈیئر جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ سی آئی اے کے مطابق ’ان کی تدریسی ذمہ داریاں ایک طرح کا پردہ تھیں۔ ان کا ایک اور نام ڈاکٹر حسن محسنی بھی تھا۔‘

ایران

،تصویر کا ذریعہSIMON&SCHUSTER

ایرانی جوہری پروگرام کے بانی

ان کی ہلاکت کے بعد ایران کے جوہری پروگرام میں ان کے تعاون پر کھل کر بات ہونے لگی۔ انھیں ایرانی انقلاب کی حفاظت کے لیے بعد از مرگ ’آرڈر آف نصر‘ سے نوازا گیا۔

ان کی تصویر پہلی بار شائع ہوئی تھی جس میں انھیں صدر حسن روحانی سے ایوارڈ لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ان کی ٹیم کے دیگر اراکین علی اکبر صالحی (ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ) اور وزیر دفاع حسین دہقانی کو عوامی سطح پر اعزاز سے نوازا گیا، جب کہ فخری زادہ کو یہ ایوارڈ خاموشی سے ایک علیحدہ کمرے میں دیا گیا جس میں کوئی موجود نہیں تھا۔

لیکن اتنی رازداری برقرار رکھنے کے باوجود، فخری زادہ کو ایران سے باہر کے ماہرین بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے کی کئی رپورٹوں میں ان کا نام آیا۔

سنہ 2010 میں جرمن میگزین ’سپیگل‘ میں ’اے ہسٹری آف ایرانز نیوکلیئر ایمبیشنز‘ کی تحقیقاتی رپورٹ میں انھیں ’ایران کا اوپن ہائیمر‘ کہا گیا تھا۔ امریکہ نے اپنا پہلا ایٹم بم اوپن ہائیمر کی نگرانی میں بنایا۔

2014 میں، روئٹرز نے فریڈرک ڈاہل کے ایک مضمون میں جس کا عنوان تھا ’انگیمیٹک ایران ملٹری، مین ایٹ دی سنٹر آف یو این ملٹری انویسٹی گیشن‘، میں ایک مغربی سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’اگر ایران کبھی جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے، تو فخری زادہ کو اس کا باپ سمجھا جائے گا۔‘

اوپن ہائمر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شمالی کوریا، پاکستان، چین اور روس کے ایٹمی سائنسدانوں سے رابطہ

یونا جیریمی باب اور ایلان ایویٹر لکھتے ہیں، ‘فخری زادہ نے کئی بار شمالی کوریا کا دورہ کیا، جہاں اس نے اپنی آنکھوں سے جوہری تجربات کا مشاہدہ کیا۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کے سربراہ عبدالقدیر خان سے بھی ملاقات کی۔‘

یہی نہیں جیریمی باب اور ایویٹر لکھتے ہیں کہ ’فخری زادہ نے روسی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر بوشہر میں ایک جوہری پلانٹ بنایا تھا۔ اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ میجر جنرل ہارون فرکاش نے ہمیں بتایا کہ فخری زادہ نے چینی جوہری سائنسدانوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے تھے جس کی مدد سے اس نے اصفہان نیوکلیئر پلانٹ بنایا۔‘

عبدالقدیر خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ریموٹ کنٹرول مشین گن سے قتل

فخری زادہ کے قاتل ان کے حفاظتی انتظامات اور ان راستوں سے پوری طرح واقف تھے جن سے انھیں گزرنا تھا۔

رونن برگمین اور فرناز فشیحی نے 18 ستمبر 2021 کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا، ’فخری زادہ کے بیٹوں میں سے ایک، حامد، نے دعویٰ کیا کہ ایرانی انٹیلی جنس کو انتباہ موصول ہوا تھا کہ اس دن ان کے والد کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن فخری زادہ نے اپنی سکیورٹی ٹیم کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔‘

ایران کی سپریم سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری جنرل علی شمخانی نے 30 نومبر 2020 کو فخری زادہ کے جنازے کے موقع پر کہا کہ ان کو ’ریموٹ کنٹرول سیٹلائٹ سے منسلک مشین گن سے مارا گیا۔‘

اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع نے ’ٹارگٹ تہران‘ کے مصنفین کو تصدیق کی ہے کہ یہ سائنسی فکشن نہیں اور واقعی قتل میں ریموٹ کنٹرول گن کا استعمال کیا گیا تھا۔

ایران، جوہری سائنسدان

،تصویر کا ذریعہSIMON&SCHUSTER

’مشین گن پک اپ پر رکھی ہوئی تھی‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ اسلحہ ٹکڑوں میں ایران لایا گیا اور خفیہ طور پر جوڑا گیا۔ یہ کام تقریباً 20 افراد کی ٹیم نے آٹھ ماہ میں سر انجام دیا۔ وہ فخری زادہ کے ہر قدم پر نظر رکھتے تھے۔

ان پر کس حد تک نظر رکھی جا رہی تھی اس کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک ایجنٹ نے کہا کہ ’ہم اس آدمی کے ساتھ سانس لیتے تھے، اس کے ساتھ جاگتے تھے، اس کے ساتھ سوتے تھے۔‘ (ہدف تہران صفحہ 193)

فخری زادہ کی تدفین کے ایک ہفتے بعد پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر ریئر ایڈمرل علی فدوی نے کہا کہ ’فخری زادہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ ان کی اہلیہ ان کے ساتھ بیٹھی تھیں اور ان کے محافظ ان کے سامنے دوسری گاڑیوں میں تھے۔‘

ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم نیوز میں شائع ہونے والے ‘AI Powered Weapon of Assassination of Irani Scientist’ کے عنوان سے ایک مضمون میں علی فدوی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’موساد کے لیے کام کرنے والے ایرانی ایجنٹوں نے نیلے رنگ کی نسان پک اپ کو ایک چوک پر کھڑا کیا۔‘

’پک اپ کے عقب میں چھپی ہوئی ایک 7.62 ملی میٹر امریکی ساختہ M240C مشین گن تھی جسے ہزاروں میل دور سے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا سکتا ہے۔‘

’وہاں ایک اور گاڑی کھڑی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ٹوٹ گئی ہے لیکن اس میں کیمرے بھی لگے ہوئے تھے اور فخری زادہ کے موقع پر پہنچنے سے تین چوتھائی میل پہلے تصویر لینے سے تصدیق ہوئی کہ کار میں صرف فخری زادہ بیٹھے ہیں۔‘

مشین گن نے 13 راؤنڈ فائر کرنے کے بعد خود کو بھی تباہ کر لیا۔

ریئر ایڈمرل علی فدوی

،تصویر کا ذریعہTEHRAN TIMES

ریئر ایڈمرل علی فدوی کا مزید کہنا تھا کہ ’جیسے ہی گاڑی شہر کی طرف بڑھی تو فخری زادہ کی گاڑی دور سے دکھائی دینے لگی، کمانڈ ملتے ہی مشین گن سے کل 13 راؤنڈ فائر کیے گئے، جس کے بعد مشین گن خود بخود پھٹ گئی اور اس پک اپ کو بھی دھماکے سے اڑا دیا گیا جس میں اسے رکھا گیا تھا۔‘

’اس مشین گن نے فخری زادہ کے چہرے کو نشانہ بنایا۔ نشانہ اتنا درست تھا کہ ان کی بیوی، جو ان سے صرف 25 سینٹی میٹر دور بیٹھی تھیں، انھیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔‘

مشہور صحافی جیک والس سیمنز نے ’جیوش کرانیکل‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’ٹروتھ بی ہائنڈ کلنگ آف ایران سائنٹسٹ‘ میں اس تفصیل کی تصدیق کی ہے۔ فخری زادہ کے ذاتی محافظ کو بھی چار گولیاں لگیں جب وہ ان پر کود پڑے۔ اس محافظ کا نام حامد اصغری تھا۔

ان کے قتل کے تقریباً ایک ماہ بعد رونن برگمین نے اسرائیلی اخبار ’یدتھ احرونتھ‘ میں 4 دسمبر 2020 کے شمارے میں لکھا ’12 سال قبل امریکی صدر جارج بش کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے ایک ٹیپ چلائی جس میں وہ ایران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں پر بات کر رہے تھے۔‘

اولمرٹ نے کہا، ’میں آپ کو ایک ٹیپ سنانے جا رہا ہوں، لیکن آپ اس پر کسی سے بات نہیں کریں گے، حتیٰ کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے بھی نہیں۔‘

انھوں نے ایک ڈیجیٹل میڈیا پلیئر پر فخری زادہ کے فارسی میں بولنے کی ریکارڈنگ چلائی، جس میں فخری زادہ نے کہا کہ ’ہمارا باس ہم سے پانچ جوہری ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

آخری رسومات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فخری زادہ کے بارے میں موساد کے اندر بحث

اولمرٹ نے بش کو بتایا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے فخری زادہ کے قریب ایک ایرانی ایجنٹ کو تعینات کیا تھا جو ’کئی سال سے ہمیں ان کے بارے میں خبریں دے رہا تھا۔‘

اسی ایجنٹ نے اولمرٹ کو فخری زادہ کی وہ ریکارڈنگ پہنچائی تھی جو انھوں نے بش کے سامنے چلائی تھی۔

10 جون 2021 کو ایک اسرائیلی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے انٹرویو میں، موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن نے الانا دیان کو بتایا، ’موساد فخری زادہ کے بارے میں اس حد تک جانتا تھا کہ اسے ان کا پتہ، ان کا فون نمبر اور حتیٰ کہ ان کا پاسپورٹ نمبر بھی معلوم تھا۔‘

موساد کے اندرونی حلقوں میں اس بات پر بھی کافی بحث ہوئی کہ فخری زادہ کو فوری طور پر راستے سے ہٹایا جائے یا نہیں۔

اسرائیلی آئی ڈی ایف کے سابق سربراہ شاول موفاز کے مطابق جب وزیر اعظم ایریل شیرون نے میر ڈیگن کو موساد کا سربراہ مقرر کیا تو انھوں نے ان سے کہا کہ وہ ان پر نظر رکھیں۔

فخری زادہ کو اس سے قبل بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

ڈیگن 2009 میں ہی فخری زادہ کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن موساد کی اعلیٰ کمان اور ملٹری انٹیلیجنس کے درمیان اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا۔

جیریمی بوب اور ایویٹر لکھتے ہیں، ’اس وقت ڈیگن کے نمبر دو، تیمر پارڈو کا خیال تھا کہ جب تک موساد فخری زادہ کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے، اس وقت تک انھیں زندہ رکھنا بہتر ہوگا۔‘

2009 میں ہی ایک منصوبہ بنا لیکن ایرانی اس منصوبے سے واقف تھے۔ اس خطرے کے باوجود ڈیگن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے لیکن آخری وقت میں وزیراعظم اولمرٹ کی مداخلت کے بعد انھوں نے اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

باب اور ایویٹر نے لکھا ہے کہ ایسا اس سے پہلے بھی دو بار ہو چکا تھا جب آخری وقت پر حملے کا فیصلہ موخر کر دیا گیا تھا۔

موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فخری زادہ نے ایرانی جوہری پروگرام کو نئی سمت دی

ایرانی جوہری پروگرام پر فخری زادہ کا اثر 2001 سے 2010 تک 2020 کے مقابلے میں زیادہ تھا۔

سنہ 2020 میں ان کے قتل سے ایران کی ساکھ کو شدید ٹھیس پہنچی۔ ایران نے ایک باصلاحیت سائنسدان کو کھو دیا جس کے پاس بے مثال تجربہ اور تنظیمی علم تھا اور جو شروع سے ہی ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ تھا۔

سنہ 2018 میں جب بینامن نتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’فخری زادہ، یہ نام ہمیشہ یاد رکھنا۔‘

فخری زادہ کے قتل کی وجہ سے ایران کا جوہری پروگرام رک گیا۔

جیکل ولیم سائمنز نے لکھا ہے کہ ’ایرانی انتظامیہ کے اندرونی جائزے کے مطابق، ایران کو فخری زادہ کے متبادل کو تلاش کرنے اور اسے فعال کرنے میں کم از کم چھ سال لگیں گے۔‘

اسرائیلی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ان کی ہلاکت کے نتیجے میں ایران کی بم تیار کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہو گی اور سینئر اسرائیلی انٹیلی جنس حکام کا خیال ہے کہ یہ انتظار پانچ سال تک بھی بڑھ سکتا ہے۔

SOURCE : BBC