SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہAmrit Artist Barnala/BBC
- مصنف, نودیپ کور گریوال
- عہدہ, بی بی سی پنجابی کے لیے
-
ایک گھنٹہ قبل
اوڑک خوف اتار نجومی بات کہی من بھانی
عاشق ہوگ کمال سسی جد ھوگ جوان سیانی
مست بیہوش تھلاں وچ مرسی درد فراق رنجانی
ہاشم داغ لگاؤگ کل نوں ہوگ جہاں کہانی
(یعنی آخر کار نجومیوں نے بے خوف سچی بات کہہ دی۔ کہنے لگے کہ جب سسی باشعور ہوگی تو شدید عشق میں گرفتار ہو جائے گی، وہ درد و فراق اور رنج و الم میں مست بیہوش تھلوں میں جان دے دے گی۔ اے ہاشم، وہ اپنے خاندان کو بدنامی کا داغ لگائے گی اور دنیا بھر میں اس کی کہانی کا چرچا ہوگا۔)
پنجابی زبان کے معروف صوفی شاعر ہاشم شاہ نے سسی پنوں کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے مذکورہ اشعار کے ذریعے قرون وسطی کے معاشرے کے ایک ایسے پہلو کو اجاگر کیا ہے جس کی جھلک آج کے جدید معاشرے میں بھی ہمیں کسی نہ کسی طور ملتی ہے۔
ان اشعار میں سسی کی پیدائش کے بارے میں نجومیوں کی پیشن گوئی کو بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ بچی جوان ہوگی تو وہ دام الفت میں گرفتار ہو جائے گی۔
یہ پیش گوئی نوزائیدہ سسی کو معاشرے کے ساتھ متصادم کر دیتی ہے اور وہ بچپن سے ہی ایک عجیب قسم کی کشمکش کا شکار ہو جاتی ہے۔
اس پیشن گوئی سے شروع ہونے والی سسی کی زندگی یہ بتاتی ہے کس طرح عشق کی داستانوں کی ہیروئنیں صرف اپنی محبت کی وجہ سے ہیروئن نہیں بنیں بلکہ انھوں نے جو فیصلے کیے انھوں نے انھیں ہیروئن بنایا جو کہ عہد وسطیٰ کی عام خواتین کے بس کی بات نہیں تھی۔

،تصویر کا ذریعہIMBd
چاند کے اسرار اور سسی پنوں کی کہانی کے درمیان تعلق

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
دوسری لوک کہانیوں کی طرح اس کہانی کے بارے میں بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں کہ آیا یہ تاریخی کہانی ہے یا محض افسانہ ہے۔
لوک کہانی کار ڈاکٹر ونجارا سنگھ بیدی کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر سکھ دیو سنگھ سرسا نے سسی پنوں کی کہانی کی ابتدا چاند کے افسانے سے منسوب کی ہے۔
پروفیسر سرسا کے مطابق سسی اور پنوں کی کہانی کا ماخذ ان افسانوں میں ہے جو ماقبل تاریخ کے انسانوں نے چاند کے اسرار کو سمجھنے کی کوششوں کے دوران تخلیق کیں۔
کہا جاتا ہے کہ چاند کا یہ افسانہ آریائی لوگوں نے تخلیق کیا تھا جو اس دور میں دریائے سوہان کے کنارے آباد تھے۔
انھوں نے کہا کہ سسی سنسکرت لفظ ششی کی پنجابی شکل ہے۔ سنسکرت میں ششی کا مطلب چاند ہوتا اور پنناس کو پنوں کہتے ہیں۔
چاند کی اساطیر کے بارے میں سرسا نے کہا: ’جب انسان کے پاس سائنسی نقطہ نظر، جدید مواصلات نہیں تھے تو انسان اس دنیا کو دیکھ کر حیران ہوتا تھا، ایسے میں اس نے سوچا ہوگا کہ کچھ دن چاند نظر آتا ہے اور کچھ دن نظر نہیں آتا۔‘
’تو اس نے چاند کے اس راز کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگی کہ چاند کہاں جاتا ہے اور کہاں سے آتا ہے۔‘
فطرت کو سمجھنے کی ابتدائی کوششوں سے ابھرنے والے تصورات کہانیوں، افسانوں اور اساطیر کی شکل میں سامنے آئے۔
پروفیسر سرسا بتاتے ہیں کہ دسم گرنتھ کے چرتر 108 میں سسی کی کہانی کے اصل ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
پنجابی ادب میں مذکور کہانیوں کے علاوہ بھائی گرداس نے سسی کا بھی ذکر کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہAmrit Artist Barnala/BBC
چاند کا افسانہ سسی پنوں کی کہانی کیسے بن گیا؟
اس بارے میں پروفیسر سکھ دیو سنگھ سرسا نے کہا کہ ’مقبول افسانے غائب نہیں ہو جاتے۔ ہر دور کے لوگ اپنے دور کے حساب سے ان افسانوں اور کہانیوں میں تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔‘
اور اس طرح یہ اساطیر رفتہ رفتہ کہانیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہاشم شاہ یا قرون وسطیٰ کے دوسرے کہانی کار جب سسی پنوں کی کہانی تخلیق کرتے ہیں تو وہ اس وقت کے سماج کے مسائل کو ان کہانیوں میں سمیٹتے ہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ سسی پنوں کی کہانی کو کئی شاعروں اور ادیبوں نے بیان کیا ہے جن میں احمد یار، قادری یار اور فضل شاہ وغیرہ شامل ہیں لیکن ہاشم شاہ کی کہانی کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
اگرچہ اس کہانی کو لوک کہانیوں پر مبنی سمجھا جاتا ہے یا بہت سے لوگ اس کی غیر تاریخی نوعیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں، لیکن یہ کہانیاں معاشرے کی شبیہہ اور انسانیت کے وجود کے بارے میں جو سوالات اٹھاتی ہیں وہ انھیں اس مباحثے سے بہت آگے لے جاتی ہیں کہ آیا وہ تاریخی ہیں یا افسانوی۔

،تصویر کا ذریعہPunjab Digital Library
کہانی کے مطابق نومولود سسی کو دریا میں بہا دینا
سسی پنوں کی کہانی بھمبور شہر کی ہے۔
بادشاہ آدم جام کے خاندان میں طویل عرصے تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بہت دعا اور کوششوں کے بعد ان کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوتی ہے۔
پیدائش کے وقت، نجومی پیشن گوئی کرتے ہیں کہ یہ لڑکی بڑی ہو کر محبت میں گرفتار ہو جائے گی اور خاندان کی بدنامی کا باعث بنے گی۔
اس لیے بادشاہ نے بچی کے گلے میں ایک تعویذ ڈال کر اسے صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا۔
لڑکی دریا میں بہتی ہوئی ایک بے اولاد دھوبی اور اس کی اہلیہ کو ملی، جسے انھوں نے اپنے بچے کی طرح پالا۔
جب سسی جوان ہونے لگتی ہے تو اس کی خوبصورتی کا شہرہ چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ وہی بادشاہ ’دھوبی کی خوبصورت بیٹی‘ سسی کو شادی کا پیغام بھیجتا ہے۔
سسی کے گلے میں جو تعویذ تھا اس کے ساتھ وہ بادشاہ کو پیغام بھیجتی ہے کہ ’میں آپ کی بیٹی ہوں۔‘
جب بادشاہ کو علم ہوا کہ اس کی بیٹی کی پرورش ایک دھوبی کر رہا ہے تو اس نے سسی کو محل واپس آنے کی دعوت دی۔ لیکن سسی نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنے رضاعی والدین کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا۔
سسی کو کیچم کے بادشاہ کے بیٹے پنوں سے پیار ہو جاتا ہے۔
وہ اپنے دھوبی والدین کو اس رشتے کے لیے راضی کرتی ہے، لیکن چونکہ پنوں بھی ایک بادشاہ کا بیٹا تھا، اس لیے اس کے بھائی اس رشتے کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
تاہم سسی اور پنوں کی شادی ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن جب سسی سو رہی ہوتی ہے تو پنوں کے بھائی اسے سسی سے دور لے جاتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAmrit Artist Barnala/BBC
سسی کا پنوں کی تلاش میں نکلنا
جب سسی کو معلوم ہوتا ہے پنوں وہاں نہیں ہے تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے صحرا کی طرف بھاگتی ہے۔ کہانی کے مطابق سسی کے نرم پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ گرم ریت پر ننگے پاؤں دوڑتی ہیں۔
راستے میں اسے ایک چرواہا ملتا ہے جو اس پر بری نظر ڈالتا ہے تو وہ خدا سے دعا کرتی ہے کہ وہ اس کی خالص محبت کی وجہ سے اپنی پناہ میں جگہ دے۔ کہا جاتا ہے کہ زمین پھٹ جاتی ہے اور سسی اسی سما جاتی ہے۔ ہوش میں آنے پر پنوں بھی ان وادیوں سے گزر کر گھر لوٹتا ہے۔ جب اسے چرواہے سے سسی کے انجام کا علم ہوتا ہے تو وہ بھی اسی صحرا میں سما جاتا ہے۔
پروفیسر سرسا نے سسی پنوں کی قسمت کے بارے میں ہاشم کی سطریں سنائیں۔
سن کے ہوت زمیں پر ڈگیا لگی کلیجے کانی
کھلی گور پیا وچ قبرے ہوت علی دل جانی
خاطر عشق گئے رل ماٹی اک تھی خاک سمانی
ہاشم، عشق بلوچ سسی دا جگ جگ ریہگ کہانی
(یہ سنتے ہیں پنوں زمین پر گرا اس کے کلیجے میں (عشق) کا تیر لگا تھا، اتنے میں قبر کھل گئی اور ہوت علی کا دل جانی پنوں بھی قبر میں چلا گيا، عشق کی خاطر خوبصورتی، حسن اور جوانی مٹی میں مل گئے۔ اے ہاشم، پنوں بلوچ اور سسی کے عشق کی کہانی سدا زندہ رہے گی)

،تصویر کا ذریعہPublic Domain
کون سے فیصلے سسی کو ہیروئن بناتے ہیں؟
چندی گڑھ کے سیکٹر 32 میں واقع جی جی ڈی ایس ڈی کالج کی اسسٹنٹ پروفیسر ہرپریت کور کہتی ہیں کہ سسی بے باک اور دنیا سے بے پروا تھی کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں جو فیصلے کیے وہ اس معاشرے کی کوئی اور عورت نہیں لے سکتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سسی خاص اور انقلابی خاتون تھی کیونکہ انھوں نے اپنا راستہ خود منتخب کیا تھا۔
بادشاہ پہلے تو اپنی نوزائیدہ بیٹی کو دریا میں بہا دیتا ہے اور جب دھوبیوں کے ہاں اس کی پرورش کے بارے میں اسے علم ہوتا ہے توجھوٹی شان کی خاطر وہ اسے واپس محل بلاتا ہے۔
لیکن سسی اس پیشکش کو ٹھکرا کر اپنی مضبوط شخصیت کا ثبوت دیتی ہے۔
ہرپریت کور نے کہا کہ جب ہم سسی کو معاشرے کی ہیروئن یا کہانیوں کی ہیروئن کے طور پر دیکھتے ہیں تو اس میں ہیروئین کی خوبیاں نظر آتی ہیں وہ بادشاہ سے بھی بالاتر نظر آتی ہیں۔
پنوں سے محبت ہونے کے بعد وہ اپنے رضاعی دھوبی والدین کو پنوں کے ساتھ اپنی شادی کے لیے راضی کرتی ہے۔
اس رضامندی کے بارے میں ہرپریت کور کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں خواتین اپنے حقوق کے لیے بات نہیں کر سکتیں وہاں اپنی مرضی سے شادی کرنے کا فیصلہ کرنا بڑی بات تھی۔
اگرچہ سسی کے رضاعی والدین اس رشتے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن پنوں کے بھائی اور خاندان سماجی فرق کی وجہ سے اس رشتے کو منظور نہیں کرتے۔
جب پنوں کے بھائی اسے لے جاتے ہیں تو سسی کی ماں اس کے سامنے ذات پات کی حقیقت پیش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ’دھوبی کی بیٹی‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اور پنوں کا ساتھ نہیں تھا۔

کڑے فیصلے
ایسے میں سسی اپنے شاہی باپ کی ذات میں پناہ نہیں لیتی بلکہ اپنے دھوبی ماں باپ کی ذات کو قبول کرتی ہے جنھوں نے اس کی پرورش کی اور چاہتی ہے کہ اسے بھی اسی طرح قبول کیا جائے۔
ہرپریت کور کہتی ہیں: ’کہانی میں کسی بھی پہلو سے یہ نہیں دیکھا گیا کہ سسی نے اپنی ذات کا رونا رویا ہو۔ یا اس نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہو کہ وہ اونچی ذات کی ہے اس لیے اسے پنوں کے ساتھ رہنے دیا جائے۔‘
اس مقام پر، سسی ایک ایسے معاشرے میں ذات پات کو مسترد کرتی ہے جہاں یہ تقسیم بہت گہری تھی۔
اس کے بعد جب سسی پنوں کی جدائی کے بعد صحرا کی جانب بھاگنے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اپنی شخصیت کو بے مثال بلندیوں پر لے جاتی ہے۔
پروفیسر ہرپریت کور کے مطابق: ’جب سسی گھر سے بھاگتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس دقیانوسی تصور کو توڑتی ہے کہ خواتین صرف چار دیواری میں بند رہ کر ہی روتی بلکتی رہ سکتی ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جب اس کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے، ایک عورت کو لگتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے لڑ نہیں سکتی، لیکن سسی کی جیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہ معاشرے کے خلاف لڑتی ہے۔‘
جب سسی کے لیے سب کچھ غلط ہو رہا تھا تو وہ جانتی تھی کہ وہ ایک بادشاہ کی بیٹی ہے اور دھوبی ماں باپ کے ساتھ پلی بڑھی ہے۔
اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ہرپریت کور کہتی ہیں کہ سب کچھ جاننے کے بعد سسی کی ذہنی حالت کیسی رہی ہوگی۔
ہرپریت کور کے مطابق سسی بیک وقت اپنی ذہنی حالت سے لڑ رہی ہے، سماج سے لڑ رہی ہے، اور پنوں کے خاندان سے لڑ رہی ہے۔
پروفیسر سکھدیو سنگھ سرسا کہتے ہیں: ’جب سسی اپنی محبت کے لیے مرنے کا انتخاب کرتی ہے، تو اسے کوئی خوف نہیں ہوتا، تب سسی ہیروئن بن جاتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAmrit Artist Barnala/BBC
ایک جدید عورت سسی سے کیا سبق لے سکتی ہے؟
بہت سے لوگ اکثر اساطیری اور لوک کہانیوں کے بارے میں موجودہ بحث کو نوجوانوں کے لیے غیر ضروری اور بگاڑ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پریوں کی کہانیاں محبت کی کہانیوں کے ساتھ معاشرے کے بہت سے پہلوؤں کو بھی پیش کرتی ہیں۔
ان کہانیوں سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس وقت کا معاشرہ کیسا تھا، انسانی وجود کے اہم مسائل کیا تھے، اس وقت خواتین کی حیثیت کیا تھی، وغیرہ۔
ہم آج کے معاشرے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی سو سال بعد معاشرہ کتنا بدل چکا ہے۔
چونکہ ہم سسی کے متعلق بات کر رہے ہیں جو کہ عہد وسطیٰ میں خواتین کی حالت کی نمائندگی کرتی ہے، اس لیے عصری معاشرے میں عورت کے وجود کا ذکر ضروری ہے۔
ہرپریت کور کے مطابق خواتین اب بھی اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ معاشرے اور مذہب کو ایک طرف رکھ کر آج خواتین خاندانی جنگ لڑ رہی ہیں۔
پروفیسر سرسا کا کہنا ہے کہ ‘خواتین اب اس غلامی کی حالت میں نہیں ہیں جیسی وہ قرون وسطیٰ میں تھیں۔
‘ایک طویل جدوجہد کے بعد آج خواتین کو قانونی اور سماجی طور پر مردوں کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی، بعض جگہوں پر، اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘آج عورتیں عہد وسطیٰ یا قدیم دور کی طرح غلام نہیں ہیں، لیکن آج بھی عورتوں کو مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کو جائیداد کا حق ہے، لیکن انھیں جائیداد کون دیتا ہے؟’
ہرپریت کور کا ماننا ہے کہ آج بھی کوئی لڑکی اپنے والد کے سامنے اپنی پسند کی محبت کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر سکتی۔
ان کے مطابق، ‘چند فیصد لوگوں کی سوچ میں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن مکمل طور پر نہیں آئی ہے۔ آج بھی بہت سی جگہوں پر سماجی طبقے اور ذات پات کو لڑکیوں کے رشتہ کے لیے ان کی پسند کی بجائے معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’
ہرپریت کور نے کہا کہ ذات پات کے خلاف جنگ صدیوں سے لڑی جا رہی ہے اور مذہبی پیشواؤں اور پیروں کے لکھے ہوئے منقولات کو پڑھنے کے بعد بھی ہم ذات پات کے مسئلے سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہSassi Punnu
مردوں کی برتری کا تصور جاری
انھوں نے کہا: ‘آج بھی ہم معاشرے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں جو ہمارے پیاروں کے لیے مشکل ہو جاتے ہیں۔ آج بھی بہت سے خاندانوں، معاشرے میں ‘لوگ کیا کہیں گے’ بچوں کی خوشی سے زیادہ اہم ہے۔’
موجودہ دور میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں پروفیسر سرسا کا کہنا ہے کہ خواتین پر برتری رکھنے کا تصور آج بھی مردوں کے لاشعوری ذہن میں سرایت ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘آج بھی جاگیردارانہ معاشرے کی باقیات ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ان باقیات کی وجہ سے خواتین آج بھی کسی نہ کسی شکل میں غلام ہیں۔
‘لیکن یہ باقیات بہت جلد ہٹا دی جائیں گی کیونکہ آنے والے وقت میں جب خواتین بااختیار ہو چکی ہوں گی، علم حاصل کر رہی ہوں گی، جب خواتین کام کر کے یکساں طور پر کمانے لگیں گی، اور خواتین سماجی طور پر باشعور ہوں گی، قانونی حقوق حاصل ہوں گے تو آنے والے وقت میں یہ چیزیں یقینی طور پر کم ہوں گی۔’
ہرپریت کور کا ماننا ہے کہ ایک عورت کو اپنی پوری صلاحیت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سب سے پہلے اپنے دونوں پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘اگر ہم آزادی، خود اعتمادی اور دیگر تمام چیزوں کو ایک طرف رکھ کر عورت کی ذہنی کیفیت کے بارے میں بات کریں تو وہ اپنا راستہ خود تلاش اور تیار کرتی ہے۔
‘تاہم، مرد کے تسلط والا معاشرہ ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے کوئی راستہ چن رہی ہے تو وہ معاشرے کو چیلنج یا اس کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔’
پروفیسر سرسا کہتے ہیں: ‘آج خواتین سسی سے دو ترغیب لے سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ان کے لیے لڑے بغیر انھیں اپنے حقوق نہیں ملیں گے۔
‘دوسری یہ کہ اس مادیت کے دور میں خواتین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ (سسی) ماں کی طرح آپ کو بھی ایسا گھر چھوڑ دینا چاہیے جہاں آپ کی قدر انسان کے طور پر نہیں ہوتی، جہاں آپ کو پیسے کا لالچ دے کر محل کا لالچ دیا جاتا ہے۔’
SOURCE : BBC