SOURCE :- BBC NEWS

رضا اللہ نظامانی

،تصویر کا ذریعہPMML

  • مصنف, روحان احمد
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
  • 51 منٹ قبل

اتوار کا دن تھا اور تقریباً دوپہر دو بجے کا وقت تھا۔ پاکستان میں سندھ کے ضلع بدین کی تحصیل ماتلی میں ایک شخص حجام کی دُکان سے بال کٹوا کر نکل رہا تھا تاکہ باہر کھڑی اپنی آلٹو گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو سکے۔

ابھی وہ گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہے تھے کہ وہاں ایک ون ٹو فائیو موٹرسائیکل پر تین مسلح افراد آئے جنھوں نے چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے۔ اِن افراد میں سے دو نے اپنی پستولیں نکالیں اور حجام کی دُکان سے باہر آنے والے شخص کو گولیاں مار کر وہاں سے فرار ہو گئے۔

تھوڑی ہی دیر میں جائے وقوعہ پر ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور جلد ہی اس شخص کی شناخت ’معروف سیاسی و سماجی شخصیت‘ رضا اللہ نظامانی کے طور پر ہو گئی۔ اس وقوعے کے بعد مقامی افراد کی جانب سے چند ویڈیوز بھی بنائی گئیں جن میں گولیاں لگے ایک شخص کو زمین پر بے حس و حرکت پڑے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم بی بی سی آزادانہ ذرائع سے ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکتا ہے۔

ماتلی کے رہائشیوں کو محض اتنا معلوم تھا کہ مارے جانے والا شخص سیاسی جماعت پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا مقامی عہدیدار ہے۔ بی بی سی اردو کو یہ تفصیلات مقامی پولیس اہلکار نے بتائیں جو واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔

تاہم اس واقعے کے کچھ ہی دیر بعد انڈین میڈیا پر یہ خبریں چلنا شروع ہوئیں جن میں الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان میں کالعدم لشکرِ طیبہ کے ایک بڑے کمانڈر کو قتل کر دیا گیا ہے۔

رضا اللہ نظامانی کے بڑے بھائی قادر بخش نے بی بی سی کو بتایا کہ یکم مئی کو بھی کچھ نامعلوم نقاب پوش افراد ان کے بھائی کے پیچھے گئے تھے جس کے بعد پولیس میں شکایت بھی درج کروائی گئی تھی۔

قادر بخش کے مطابق ’اسی وجہ سے بھائی کو پولیس نے گارڈ بھی مہیا کیے تھے جو کہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تب بھی وہ گارڈز کہیں اطراف میں ہی موجود تھے۔‘

قادر بخش کے مطابق ان کے بھائی کا اصل نام عبدالرحمان تھا اور انھیں پیار سے رضا اللہ پکارا جاتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کے بھائی کا تعلق کسی کالعدم جماعت سے نہیں تھا۔

’مجھے خبر ملی تھی کہ اُن پر حملہ ہوا ہے اور جب میں ہسپتال پہنچا تو اُن کی وفات ہو چکی تھی، ہم آنے جانے والے مہمانوں کا خیال رکھ رہے ہیں، مصروفیت ختم ہوتے ہی مقدمہ درج کروائیں گے۔‘

مرکزی مسلم لیگ

ضلع بدین کے سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) قمر رضا جسکانی نے بی بی سی اردو کو تصدیق کی کہ تین نامعلوم افراد نے رضا اللہ نظامانی کو فائرنگ کر کے قتل کیا ہے۔

جب انڈین ذرائع ابلاغ پر چلنے والی خبروں سے متعلق، جن میں الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ رضا اللہ نظامانی مبینہ طور پر کالعدم لشکرِ طیبہ کے کمانڈر تھے، ایس ایس پی قمر رضا سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اِس قتل کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مقتول ماضی میں کس گروہ یا تنظیم سے منسلک تھے۔

ایس ایس پی قمر رضا جسکانی کے مطابق ابتدائی تفیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ مقتول زراعت کے شعبے سے منسلک تھے۔

بدین پولیس میں ڈی ایس پی آفس کے اہلکار محمد ریاض کہتے ہیں کہ اس واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انھیں اہلخانہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مقتول کے بھائی جلد ہی مقدمے کے انداراج کے لیے پولیس کے پاس آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس پورے علاقے میں سی سی ٹی وی فوٹیج کا معائنہ کر رہی ہے اور بہت جلد ملزمان تک پہنچ جائے گی۔ مقامی پولیس کے مطابق مقتول کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی میت لواحقین کے حوالے کر دی گئی جس کے بعد اسی رات ان کی تدفین کر دی گئی تھی۔

دوسری جانب پاکستان مرکزی مسلم لیگ (پی ایم ایم ایل) کا کہنا ہے کہ رضا اللہ نظامانی اُن کی جماعت سے منسلک تھے اور تحصیل ماتلی کے نائب صدر تھے۔

یاد رہے کہ پی ایم ایم ایل نے گذشتہ برس پاکستان میں عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے مختلف شہروں سے جن امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا ان میں سے چند افراد یا تو ماضی میں حافظ سعید کی کالعدم جماعتوں جماعت الدعوہ یا لشکر طیبہ کا حصہ رہے تھے یا پھر حافظ سعید کے رشتہ دار تھے۔

ماضی میں پی ایم ایم ایل جماعت الدعوہ یا لشکرِ طیبہ سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کر چکی ہے۔

رضا اللہ نظامانی کون تھے؟

رضا اللہ نظامانی

،تصویر کا ذریعہ@taahaa_/x

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

پی ایم ایم ایل کے سندھ میں ترجمان طحہٰ منیب رضا اللہ نظامانی کی کشمیر میں عسکریت پسندی میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ رضا اللہ تحصیل ماتلی میں ان کی جماعت کے نائب صدر تھے اور ان کا آبائی گاؤں ماتلی شہر سے پانچ یا چھ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’رضا اللہ نظامانی کا تعلق عسکریت پسندی یا دہشتگردی سے جوڑنا انڈین میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔‘

ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رضا اللہ نظامانی کی جان کو خطرات لاحق تھے اور انھیں کچھ عرصے قبل سکیورٹی بھِی فراہم کی گئی تھی۔

طحہٰ منیب نے متقول کو سکیورٹی فراہم کی جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’پورا پاکستان انڈیا کی ہِٹ لسٹ پر ہے اور ہماری جماعت سے ویسے ہی انڈیا کو زیادہ مسئلہ ہے۔‘

تاہم کشمیر میں ماضی میں متحرک رہنے والے عسکریت پسندوں کے گروہوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ رضا اللہ نظامانی ماضی میں حافظ سعید کی جماعتوں سے منسلک رہے ہیں۔

ماجد نظامی کا شمار ایسے ہی محققین میں ہوتا ہے جو برسوں سے کشمیر میں متحرک عسکریت پسند تنظیموں پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’رضا اللہ نظامانی ایک اہم شخصیت تھے لیکن وہ پچھلے کئی برسوں سے غیر متحرک تھے۔‘

عسکریت پسند گروہوں پر نظر رکھنے والے دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈین میڈیا رضا اللہ نظامانی کو ایک بڑا عسکریت پسند کمانڈر بنا کر پیش کر رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔

کتاب ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘ کے مصنف فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ ’رضا اللہ نظامانی کا لشکرِ طیبہ یا جماعت الدعوہ سے تعلق ضرور تھا لیکن وہ زیادہ تر درس و تدریس سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہ کہنا کہ وہ کوئی بہت بڑے کمانڈر تھے شاید بات درست نہ ہو۔‘

پی ایم ایم ایل کے ترجمان طحہٰ منیب بھی کہتے ہیں کہ رضا اللہ نظامانی ماتلی میں ہی پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے تمام زندگی یہیں گزاری ہے۔

’یہاں ہمارا اسلامک لیڈرز سکول ہے اور رضا اللہ نظامانی اس کے بانیان میں سے ایک تھے۔ وہ اس سکول کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے ہیں اور پرنسپل بھی اور ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہو گی۔‘

محقق ماجد نظامی کہتے ہیں کہ رضا اللہ نظامانی کے بارے میں کہنا درست ہو گا کہ ’وہ ان افراد میں شامل تھے جو اپنے ماضی سے غیر متعلق ہو چکے تھے۔‘

ماضی میں کشمیر میں عسکریت پسندی سے مبینہ طور پر منسلک افراد کی پُراسرار اموات

ٹارگٹ کلنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگرچہ رضا اللہ نظامانی کے قتل سے متعلق تفصیلات آنا باقی ہیں مگر حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ماضی میں جماعت الدعوہ یا لشکرِ طیبہ سے مبینہ طور پر منسلک ہونے والی شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہو۔

ایسے واقعات حالیہ برسوں میں صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور پنجاب کے مختلف شہروں میں بھِی پیش آتے رہے ہیں۔

فروری 2023 میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک ایسے ہی واقعے میں 55 سالہ خالد رضا بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کا تعلق 90 کی دہائی میں البدر مجاہدین نامی تنظیم سے رہا تھا مگر نائن الیون کے حملوں کے بعد بیشتر کشمیری عسکریت پسند تنظیموں پر پابندیوں کے بعد انھوں نے عسکریت پسندی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔

ان پر حملے کی ذمہ داری قوم پرست علیحدگی پسند سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی تھی۔

مارچ 2022 میں کراچی کے علاقہ اختر کالونی میں ’جہادی تنظیم‘ جیش محمد کے رکن مستری زاہد ابراہیم کا قتل ہوا تھا۔ دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان کو فرنیچر سٹور میں نشانہ بنا کر قتل کیا۔

مستری زاہد ابراہیم دسمبر 1999 میں نیپال سے ایک انڈین مسافر ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے جو قندھار لے جایا گیا تھا۔ ہائی جیکرز نے انڈین جیل میں برسوں سے قید جیش محمد کے بانی سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دو دیگر اہم کمانڈروں مشتاق زرگر اور عمر سعید شیخ سمیت رہا کروا لیا تھا۔

پاکستان نے متعدد مرتبہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں ہونے والے ایسے حملوں میں انڈیا ملوث ہے۔

جون 2021 میں لاہور کے علاقہ جوہر ٹاؤن میں ایک کار بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں لشکر طیبہ یا جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کے گھر کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں حافظ سعید اور ان کے اہلخانہ محفوظ رہے مگر چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دسمبر 2021 میں پاکستانی کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی اداروں کے رپورٹ کے مطابق اس حملے میں انڈیا ملوث تھا۔

حنا ربانی کھر نے اس واقعہ کے ردعمل میں اقوام متحدہ سے انڈیا کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی تھی۔

گذشتہ برس جنوری میں پاکستان کے اس وقت کے سیکریٹری خارجہ سجاد قاضی نے بھی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ برس پاکستان میں دو پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں دو انڈین ایجنٹس ملوث تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس ڈاکیومینٹری، فنانشل اور فارنزک ثبوت موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ دو انڈین ایجنٹس ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے۔‘

SOURCE : BBC