SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, میانی جونز
- عہدہ, بی بی سی نیوز، جوہانسبرگ
-
ایک گھنٹہ قبل
انتباہ: اس تحریر میں کچھ تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں
جوناتھن جنھوں نے جنوبی افریقہ کی ایک غیر قانونی سونے کی کان میں زیرِ زمین چھ ماہ تک کام کیا اور زندگی گزاری کے لیے سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ انھوں نے وہاں بچوں کے جنسی استحصال کا مشاہدہ کیا تھا۔
اس بارے میں آواز اٹھانے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہاں (غیر قانونی سونے کی کان میں) کچھ بچوں کو کم اجرت پر رکھا گیا تھا مگر دیگر کو صرف سیکس کے لیے لایا گیا تھا۔
جوناتھن جو اپنی عمر کی 20 کی دہائی کے اواخر میں ہیں، جنوبی افریقہ آسان پیسہ کمانے کے وعدے پر ہجرت کر کے آئے تھے۔ انھیں ان ایسی درجنوں غیر استعمال شدہ کانوں جنھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تجارتی طور پر قابل عمل نہ رہنے کے بعد بند کر دیا تھا، میں کام کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔
ہم ان کی اصل شناخت ظاہر نہیں کر رہے کیونکہ انھیں میڈیا سے بات کرنے پر غیر قانونی کان کنی کرنے والے خطرناک جرائم پیشہ گروہوں سے کسی ممکنہ انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔
ان غیر قانونی کانوں میں کمسن افراد کے ساتھ کیسا سلوک برتا جا رہا ہے، اس کی تفصیلات گذشتہ سال کے آخر میں سٹیلفونٹین قصبے کے قریب درجنوں غیر قانونی کان کنوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آئیں تھیں۔ اس کے بعد پولیس نے اس کان کی ناکہ بندی کر دی تھی۔
پرسکون اور مستحکم آواز میں جوناتھن ان کانوں میں کام کرنے کے حالات کے متعلق بات کرتے ہوئے وہاں گرمی کی شدت، کام کے طویل اوقات اور محدود خوراک اور نیند کے کم وقت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان مشکل حالات کا اثر ان کی جسمانی حالت پر واضح ہے۔
لیکن اس سب میں انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ جس شافٹ (کان) میں وہ کام کرتے تھے وہاں کم عمر کان کنوں کے ساتھ کیا ہوتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ان بچوں، اصل میں 15 یا 17 سال کے کم عمر لڑکوں کو دیکھتا تھا۔ کچھ لوگ بعض اوقات ان کا فائدہ اٹھاتے تھے، یہ کچھ خوفناک تھا اور میں ایسے میں اچھا محسوس نہیں کرتا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بالغ کان کن، کان کنی کے دوران ملنے والا کچھ سونا دینے کے وعدے پر ان کا ریپ کرتے تھے۔
’اگر وہ بچہ پیسوں کے لیے ضرورت مند ہوتا تو وہ یہ خطرہ مول لے لیتا تھا۔‘
جوناتھن بتاتے ہیں کہ کیسے بچے ان کان کنی کی ٹیموں سے تحفظ کے لیے رابطہ کرتے تھے مگر ’اس ٹیم کی بھی کچھ شرائط ہوتی تھیں۔‘
اگر کوئی کمسن اپنی ٹیم کی جانب سے دیا گیا کوئی کام کرنے میں ناکام رہتا تھا تو سیکس کو بطور سزا بھی استعمال کیا جاتا۔

،تصویر کا ذریعہAFP
جوناتھن کہتے ہیں کہ جس کان میں وہ کام کرتے تھے وہاں کام کرنے والے تمام بچے ہی غیر ملکی تھے اور انھیں احساس ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
کان کنی کے محقق اور کارکن مخوتلا سیفولی بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد جنوبی افریقہ بھر میں غیر قانونی کانوں میں کام کرنے کے لیے خاص طور پر بچوں کو ہدف بناتے ہیں۔
ان میں سے بہت سوں کو ہمسایہ ممالک سے اغوا کر کے یہاں لایا جاتا تھا اور ان سے قانونی کان کنی کی صنعت میں روزگار دلانے کے وعدے کیے جاتے۔
سیفولی کہتے ہیں کہ ’جب وہ جنوبی افریقہ آ جاتے تو ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے۔۔۔ اس کا سب کو علم ہے کہ ان کمسن بچوں کا یہاں استحصال کیا جارہا ہے۔‘
بی بی سی نے دیگر کان کنوں سے بھی بات کی، جو کم از کم دیگر دو غیر قانونی کانوں میں کام کرتے تھے اور انھوں نے بھی بتایا کہ وہ جس کان میں کام کرتے تھے وہاں انھوں نے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد ہوتے دیکھا۔
شیپو (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ بڑے مرد زیر زمین زبردستی ان بچوں کو سیکس کرنے پر مجبور کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’بعض اوقات انھوں (بچوں) نے یہ پیسے کے لیے کیا جبکہ کچھ کو صرف اس مقصد کے لیے ہی بھرتی کیا جاتا، کیونکہ انھیں مالی مراعات شاید زیر زمین سیکس کے بدلے ہی دی جاتی تھیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سب نے ان بچوں کو بری طرح متاثر کیا۔ ’ان (بچوں) کے رویے میں تبدیلیاں آئیں اور ان میں اعتبار کے مسائل پیدا ہوئے، وہ آپ کے قریب نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ وہ کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے۔‘
جنوبی افریقہ کی غیر قانونی کان کنی کی صنعت سے گذشتہ سال شمال مغربی صوبے کے شہر سٹیلفونٹین کے قریب سونے کی کان میں پولیس اور کان کنوں کے درمیان کشیدگی کی خبریں عالمی سطح پر آئی تھیں۔
حکام غیر قانونی کان کنی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ غیرقانونی کان کنی کے نتیجے میں گذشتہ سال ملکی معیشت کو 3.2 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
جنوبی افریقہ کی حکومت نے دسمبر 2023 میں ’والا امگودی‘ (سوراخ کو بند کرنا) کے نام سے ایک آپریشن شروع کیا اور اس کے تحت غیر قانونی کان کنی کرنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا وعدہ تھا۔
اس آپریشن کے تحت پولیس نے سٹیلفونٹین کی کان میں خوراک اور پانی کی ترسیل کو محدود کر دیا تھا اور اس بارے میں ایک وزیر کا کہنا تھا کہ اس سے غیر قانونی کان کن ’باہر نکلیں گے۔‘
حکام کا کہنا تھا کہ یہ افراد گرفتار ہونے کے خوف سے باہر نکلنے سے انکاری ہیں۔
مگر پھر جلد ہی اس کان کے اندر سے فوٹیج سامنے آنا شروع ہو گئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ درجنوں کمزور مرد بچانے کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی لاشیوں کے بیگ بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ بالآخر ایک عدالت نے حکام کو حکم دیا کہ وہ ان کان کنوں کو بچائیں۔
ان بچائے جانے والوں میں بہت سے ایسے کان کن بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ کم عمر ہیں لیکن ان میں سے متعدد تارکین وطن تھے اور ان کے پاس کوئی شناختی دستاویزات نہیں تھیں۔ اس لیے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان کی عمریں کیا تھیں۔ حکام نے ان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کیے تھے۔
ان میڈیکل ٹیسٹوں کی بنیاد پر جنوبی افریقہ کے محکمہ سماجی بہبود نے تصدیق کی تھی کہ سٹیلفونٹین کی کان سے بچائے جانے والے کم از کم 31 کان کن کم عمر تھے۔ یہ تمام موزمبیک شہری تھے اور گذشتہ برس نومبر میں ان میں سے 27 کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے جنوبی افریقہ کے دفتر نے چند کم عمر بچوں اور ریسکیو ورکرز کے انٹرویوز کا ترجمہ کرنے میں مدد کی۔
جنوبی افریقہ میں اس تنظیم کی سربراہ گوگو سابا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ شدید ٹراما کا شکار ہوئے تھے کیونکہ ان میں سے چند نے دوسروں کو جنسی استحصال کا شکار بنتے دیکھا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’بس اس احساس نے کہ شاید وہ وہاں سے کبھی باہر نہ آ پائیں گے، ان بچوں کو ذہنی طور پر تباہ کر دیا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کانوں میں موجود بڑی عمر کے کان کنوں نے ان بچوں کو لبھایا اور ان سے ایسا برتاؤ کیا جیسے وہ انھیں پسند کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد بچوں کو بڑی عمر کے کان کنوں نے اپنے ساتھ جنسی عمل کرنے پر مجبور کیا اور پھر آئے دن ان کا ریپ کیا۔ ’بڑی عمر کے کان کنوں کے پاس ایسے تین سے چار بچے ہوتے تھے اور وہ سب کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
گوگو سابا کہتی ہیں کہ کان کنی کرنے والے گینگز ان بچوں کو اس لیے رکھتے ہیں کیونکہ انھیں بہلانا بھی آسان ہے اور وہ کم اجرت پر مل جاتے ہیں۔
’بچے اس وقت نہیں سمجھتے جب آپ انھیں کہتے ہیں کہ میں آپ کو 20 رینڈز (ایک ڈالر) یومیہ اجرت دوں گا جبکہ بڑی عمر کے کان کن کبھی اس اجرت پر کام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن بچوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا، اس لیے کسی بچے کو کام پر لگانا آسان ہوتا ہے اور اسے وہاں لانا آسان ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کا مالی استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ گینگ انھیں محض سیکس کرنے کے لیے بھی رکھتے ہیں۔
بہت سے غیر قانونی کان کن کئی ماہ زیر زمین کانوں میں وقت گزارتے ہیں اور اس دوران وہ شاذ و نادر ہی کانوں سے باہر زمین پر آتے ہیں۔ ان کی ضرورت کی ہر چیز فراہم کرنے کے لیے دکانیں بھی ان کانوں میں زیر زمین ہی بنتی ہیں۔
’زیادہ تر بچوں کو جنسی غلاموں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے سمگل کیا جاتا ہے اور یہاں ایک دلال بھی ہوتا ہے جو اس کام کے پیسے لیتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہر روز اس بچے کو سیکس ورکر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘
بی بی سی نے پولیس اور محکمہ سماجی بہبود سے پوچھا کہ کیا جنسی استحصال کے الزامات پر کسی پر فرد جرم عائد کی جائے گی لیکن انھوں نے ہماری درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
سٹیلفونٹین کے کان کنوں کے مقدمات پر کام کرنے والے ایک ذرائع نے بتایا کہ بہت سے بچے اس بارے میں گواہی نہیں دینا چاہتے تھے۔
ایک طرف ملک میں غیر قانونی کان کنی کی صنعت فروغ پا رہی ہے اور دوسری جانب ایک اندازے کے مطابق 6,000 ممکنہ کانیں کان کنی کے لیے خالی پڑی ہیں۔ غیر قانونی کان کنی ایک ایسا کاروبار ہے جس کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں اور اس سے ہزاروں بچوں کو خطرہ لاحق ہے۔
SOURCE : BBC