Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سٹیج ڈراموں میں ’فحاشی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن: ’خاتون ڈانس کرے گی...

سٹیج ڈراموں میں ’فحاشی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن: ’خاتون ڈانس کرے گی تو اس کا جسم ہلے گا، اسے غلط نہ بنایا جائے‘

6
0

SOURCE :- BBC NEWS

سٹیج ڈرامے

  • مصنف, فرقان الہی
  • عہدہ, بی بی سی اردو، لاہور
  • 48 منٹ قبل

’اگر سٹیج ڈراموں میں گانا نہیں ہو گا، تو پھر کچھ نہیں اس فیلڈ میں۔ ایک خاتون جب ڈانس کرے گی تو اُس کا جسم ہلے گا۔ اِس چیز کو غلط نہ بنایا جائے کہ یہ جسم کیوں ہلا رہی ہے۔‘

’ہمارے ہر ڈانس کو فحش سمجھ لیں، یہ غلط ہے۔ ہاں، اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو اُسے ضرور چیک کریں، یہ بالکل صحیح ہے۔‘

فرح خان صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک سٹیج ڈانسر ہیں۔ بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے وہ پنجاب حکومت کی جانب سے تھیٹر میں مبینہ فحاشی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور اقدامات پر اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔

یوں تو پنجاب کے تھیٹرز میں مبینہ فحاشی کے خلاف شکایات اور کارروائیوں کا سلسلہ لگ بھگ ہر دورِ حکومت میں ہی جاری رہا مگر مسلم لیگ نون کے پنجاب میں موجودہ دور حکومت کے دوران تھیٹرز کو مزید کڑی نگرانی کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے صوبے میں کئی تھیٹرز اور سٹیج فنکاروں کو پہلے وارننگز دی گئیں جس کے بعد پابندیاں لگانے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔

اب پنجاب آرٹس کونسل کی جانب سے تھیٹرز میں ڈراموں کی فل ڈریس ریہرسل کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے پر مختلف فنکاروں اور تھیٹرز کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ اس صورتحال میں تھیٹر میں پرفارم کرنے والے فنکار اور پنجاب کا محکمہ ثقافت ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔

بی بی سی نے مختلف فنکاروں اور تھیٹر سے جڑے افراد سمیت پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات سے اسی معاملے پر بات چیت کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ تنازع کیا ہے؟

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

’ڈریس اور ڈانس سینسر بورڈ ہی پاس کرتا ہے‘

سٹیج پر پرفارم کرنے والی اداکارہ فرح خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سٹیج ڈرامے کا سکرپٹ سینسر بورڈ پاس کرتا ہے جس کے بعد ہی فنکار اس ڈرامے میں پرفارم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ڈریس بھی وہ پاس کرتے ہیں، گانا بھی وہی پاس کرتے ہیں، جس کے بعد ہم پرفارم کرتے ہیں۔ یہ سب چیک اینڈ بیلنس اچھی بات ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو معاملہ خراب ہو گا لیکن اس بنیاد پر کسی کو زیادہ تنگ کرنا غلط ہے۔‘

فرح خان کا دعویٰ ہے کہ ’فحاشی کے خلاف اقدامات کی بنیاد پر پرفارم کرنے والوں کو ضرورت سے زیادہ تنگ کیا جا رہا ہے۔‘

فرح خان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس سے مطمئن ہیں مگر اگر متعلقہ محکمے سٹیج پر گانے بند کرنے کی طرف جاتے ہیں تو ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

’اگر سٹیج ڈراموں میں گانے نہیں ہوں گے تو پھر کچھ نہیں اس فیلڈ میں۔‘

فرح خان

پنجاب میں تھیٹر پر فحاشی کے الزامات کیوں؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

تھیٹر میں ’فحاشی‘ کسے قرار دیا جاتا ہے اور یہ کون طے کرتا ہے کہ کون سا عمل یا لباس اس زمرے میں آتا ہے؟ یہ ایک معروضی سوال ہے جس پر مختلف افراد کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔

اسی لیے ہم نے یہ سوال تھیٹر کے سینیئر فنکار نسیم وکی کے سامنے رکھا، جن کا کہنا تھا کہ آج کل تھیٹر میں پرفارمنس کے نام پر کچھ ایسے کام ہوتے ہیں جو الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔

نسیم وکی کے مطابق ’فحاشی تو ایسی ہو رہی تھی کہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ نہ دکھائی جا سکتی ہے اور نہ بتائی جا سکتی ہے۔ جن چیزوں کی اب حکومت کی جانب سے نشاندہی کی گئی، وہ واقعی شرم والی باتیں ہیں جنھیں تھیٹر سے بہت پہلے ختم ہونا چاہیے تھا۔‘

نسیم وکی کے مطابق تھیٹر کو اس کی اصل شکل میں واپس لانے میں وقت لگے گا اور اس کے لیے اچھے رائٹرز، ڈائریکٹرز اور ایکٹرز کی ضرورت ہے۔

نسیم وکی کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت جو کر رہی ہے اس سے وہ خوش ہیں لیکن انھوں نے لفظ ’چھاپے‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ ٹکٹ لے کر دیکھنے آتے ہیں، ہمارے ساتھ محبت کرتے ہیں، ہمارے مداح ہوتے ہیں۔‘

تاہم سٹیج آرٹسٹ قیصر پیا کہتے ہیں کہ ماضی میں بہت کچھ ہوتا تھا مگر اب ایسا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بہت سے فنکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئیں اور جرمانے بھی ہوئے مگر اب ’جو بھی کرنا ہے، محبت سے کرنا ہو گا کیونکہ اگر سختی زیادہ ہو گی تو کاروبار خراب ہو گا اور پھر تھیٹر وغیرہ بند ہو جائیں گے۔‘

سٹیج ڈرامے

انھوں نے کہا کہ اب کہا جا رہا ہے کہ سٹیج ڈانسر فحاشی کرتی ہیں تو وہ جن گانوں پر ڈانس کرتی ہیں ان کے الفاظ واہیات ہوتے ہیں۔ ’متعلقہ محکموں سے گانے کی اجازت ملتی ہے تو بھی ان گانوں پر پرفارم کیا جاتا ہے۔‘

قیصر پیا کے مطابق ’جب گانوں کے الفاظ اچھے ہوں گے، شاعری اچھی ہو گی تو سٹیج ڈانس میں فحاشی بھی نہیں ہو گی۔‘

چیئرمین تماثیل تھیٹر قیصر ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’اب معاملہ ایسا ہو چکا ہے کہ ہاتھ کھڑا ہو گیا، تو نوٹس۔ ہاتھ نیچے ہو گیا، تو نوٹس۔ لڑکی نیچے بیٹھ گئی، تب نوٹس۔ کھڑی ہو گئی، تب نوٹس۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر نوٹس ملنے کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو تباہی ہو جائے گی، ہزاروں لوگوں کا روزگار بند ہو جائے گا۔

’حکومت فحاشی کے خلاف کام کرے مگر فنکاروں کے خاتمے کی طرف نہ جائے، تھیٹر کے خاتمے کی طرف نہ جائے۔‘

’یہ پنجاب کا کلچر نہیں‘

نسیم وکی

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری کہتی ہیں کہ برسوں سے یہ شکایت ہو رہی تھی کہ پنجاب کا تھیٹر اب فیملی تھیٹر نہیں رہا اور وہاں جس قسم کا کلچر دکھایا جا ربا ہے، وہ پنجاب کا کلچر نہیں۔

انھوں نے کہا کہ برسوں سے لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ تھیٹر ایک مخصوص کلاس کے لیے محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

عظمی بخاری نے بتایا کہ اس روش کو بدلنے کے لیے حکومت ایک نیا ایکٹ لا رہی ہے جس میں نئے حالات کے مطابق کلچر اور ڈرامہ کی تعریف واضح کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’شوکاز نوٹس کے باوجود جو باز نہ آیا، اُن پر پابندی عائد کرنا آپشن ہو گا اور یہ اختیار سیکریٹری ثقافتی امور کو دیا جا رہا ہے۔‘

عظمی بخاری نے کہا کہ انھوں نے فنکاروں، پروڈیوسرز اور تھیٹر مالکان سے ملاقاتیں کی ہیں اور اُن کے مطابق ’وہ سب مانتے ہیں کہ فی الحال تھیٹر میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو پنجاب کی روایت رہی، وہ پرائم ٹائم کے اندر کا تھیٹر ہوتا تھا جس میں بڑے بڑے آرٹسٹ پرفارم کرتے تھے اور خواتین کی عزت ہوتی تھی۔ پوری پوری فیملیز آ کر تھیٹر دیکھتی تھیں۔ اس طرح کا بامقصد تھیٹر ہم کرنے جا رہے ہیں مگر یہ ایک لمبی جنگ ہو گی۔‘

SOURCE : BBC