SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
- مصنف, سمونا فولٹن
- عہدہ, بی بی سی اردو
-
ایک گھنٹہ قبل
سرگل کا خوبصورت گاؤں عراقی کردستان کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ شیروان سرگل جیسے اس گاؤں کے باسی کئی نسلوں سے اپنی روزی روٹی کے لیے انار، بادام اور آڑو کے باغات پر انحصار کرتے چلے آئے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ وہ آس پاس کے دیگر جنگلات سے جنگلی پھل اور مسالوں کے طور پر استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں جمع کرتے رہے ہیں۔
لیکن ترکی کی سرحد سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سرگل نامی یہ گاؤں متعدد فوجی اڈوں سے گھرا ہوا ہے۔
ان میں سے ایک اڈہ، جو مغربی پہاڑی کے وسط میں واقع ہے، ایک بلند مقام سے گاؤں کی نگرانی کرتا ہے جبکہ دوسرا اڈہ مشرق کی جانب نگرانی کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔
گذشتہ دو سال کے دوران یہاں کم از کم سات مزید اڈے تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک چھوٹے سے ڈیم کے قریب ہے جو سرگل گاؤں کو پانی کی فراہمی میں مدد کرتا رہا ہے تاہم اب یہ علاقہ مکینوں کے لیے ناقابل رسائی ہو چُکا ہے۔
50 سالہ شیروان کہتے ہیں کہ ’یہ یقینی طور پر کرد علاقے (عراقی کردستان) پر قبضے کی ہی ایک شکل ہے، جو اپنی زمین کے کچھ حصوں تک اب رسائی کھو چکے ہیں۔‘
’اسے ترکوں نے تباہ کر دیا تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
سرگل گاؤں جسے اب مقامی طور پر ’نو گو زون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کو اس شورش میں زبردستی گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف ترکی کی جنگ سے متاثر ہونے والے اس علاقے میں بھی اب حالات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ یہ وہی وسیع پٹی ہے جس میں پی کے کے نے سنہ 1984 میں جنوبی ترکی میں اپنی بغاوت کا آغاز کیا تھا۔
یہ ’نو گو زون‘ ترکی اور عراق کی تقریباً مکمل سرحد پر واقع ہے، کچھ علاقوں میں تو اس کی گہرائی تقریباً 40 کلومیٹر تک پہنچ جاتی ہے۔
عراقی کردستان میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم پیس میکرز ٹیمز کا کہنا ہے کہ ‘نو گو زون’ اور اس کے ارد گرد فضائی حملوں اور ڈرون حملوں میں سینکڑوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
کردستان پارلیمنٹ کی سنہ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہزاروں افراد اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور پورے گاؤں تنازعے کی وجہ سے خالی ہو گئے ہیں۔
سرگل گاؤں اب پی کے کے کے خلاف ترکی کی جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے۔
جب بی بی سی آئی گلوبل سروس کی تحقیقاتی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا تو ترک طیارے گاؤں کے آس پاس کے پہاڑوں پر شدید بمباری کر رہے تھے، پی کے کے، کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہے تھے جو طویل عرصے سے شمالی عراق میں غاروں اور سرنگوں میں سرگرم ہیں۔
گولہ باری کے نتیجے میں سرگل کے آس پاس کی زمین کا ایک بڑا حصہ جل گیا۔
شیروان کہتے ہیں کہ ’وہ جتنا زیادہ نئے قوانین وضع کریں گے، ہمارے لیے حالات اتنے ہی خراب ہوں گے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ترکی نے حالیہ برسوں میں ‘نو گو زون’ کے اندر اپنی فوج کی موجودگی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے لیکن اب تک اس اضافے کے بارے میں عوامی سطح پر معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بی بی سی نے سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کی جانے والی تصاویر کا تجزیہ کرنے کے بعد فیلڈ رپورٹس اور آزاد ذرائع کی مدد سے یہ جاننے میں کامیابی حاصل کی کہ ترک فوج نے دسمبر سنہ 2024 تک شمالی عراق میں کم از کم 136 مستقل فوجی تنصیبات تعمیر کی تھیں۔
بی بی سی کے تجزیے کے مطابق اپنے فوجی اڈوں کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے ترکی 2,000 مربع کلومیٹر سے زیادہ عراقی علاقے کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے۔
سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ترک فوج نے اپنی فوجی تنصیبات کو جوڑنے کے لئے کم از کم 660 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ ان سڑکوں کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی ہوئی اور اس نے خطے کے پہاڑوں کی جغرافیائی صورت حال پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔
اگرچہ ان میں سے کچھ اڈے نوے کی دہائی کے ہیں لیکن ان میں سے 89 فیصد سنہ 2018 کے بعد قائم کیے گئے تھے جس سال ترکی نے عراقی کردستان میں اپنی فوجی موجودگی کو نمایاں طور پر بڑھانا شروع کیا۔
ترک حکومت نے بی بی سی کی جانب سے انٹرویو کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن اپنے موقف پر قائم رہی کہ اس کے فوجی اڈے پی کے خطرے کو پس پشت ڈالنے کے لیے ضروری ہیں، جسے انقرہ اور برطانیہ سمیت متعدد مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
عراق اور ترکی کی سرحد سے صرف 4 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبہ کانی ماسی ہے جس کے کچھ حصے اسی نو گو زون میں آتا ہے اور یہ اس بات کی ایک جھلک پیش کر سکتا ہے کہ مستقبل میں سرگل کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کانی ماسی نامی یہ قصبہ کبھی اپنی سیب کی پیداوار کے لئے مشہور تھا لیکن اب صرف چند رہائشی باقی رہ گئے ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔
اسی علاقے کے ایک کاشتکار سلام سعید جن کی زمین ترکی کے ایک بڑے اڈے کے انتہائی قریب ہے تین سال سے اپنے انگور کے باغات کی جانب توجہ نہیں دے سکے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جیسے ہی آپ یہاں پہنچتے ہیں ایک ڈرون آپ کے اوپر سے پرواز کرتا ہے اور اگر آپ یہاں کُچھ وقت رکتے ہیں تو وہ آپ کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
ترک فوج نے سنہ 1990 کی دہائی میں یہاں اپنا پہلا اڈہ قائم کیا تھا اور تب سے وہ وہاں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔
ترکی کا اہم فوجی اڈہ جس میں کسی بھی دہشت گردی کے واقع کے خلاف مزاحمت کرنے والی کنکریٹ کی دیواریں، مشاہدے اور مواصلاتی ٹاورز اور بکتر بند گاڑیاں اور اہلکار سرگل کے ارد گرد بکھری ہوئی چھوٹی فوجی چوکیوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
سلام سعید کچھ دیگر مقامی باشندوں کی طرح اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ترکی آخر کار ان زمینوں کو ضم کرنا چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان علاقوں کو چھوڑ دیں۔’

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
محدود اثر و رسوخ
ضلع کانی ماسی کے قریب بی بی سی آئی کی ٹیم نے براہ راست اس بات کا مشاہدہ کیا کہ کس طرح ترک افواج نے عراق کی بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کے ذمہ دار عراقی سرحدی محافظوں کو اُن کی ذمہ داری ادا کرنے سے روکتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔
متعدد مقامات پر سرحدی محافظوں کو عراقی علاقے کے اندر تعینات کیا گیا تھا جو ترک افواج کے بالکل سامنے تھے اور کسی بھی ممکنہ جھڑپ کی صورت میں سرحد تک پہنچنے سے قاصر تھے۔
میجر جنرل فرہاد محمود عراقی علاقے کے اندر تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی کے دوسری جانب ایک پہاڑی سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘آپ جو مقامات اور تنصیبات دیکھ رہے ہیں وہ ترکی کی ہیں۔’
وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘ہم تو یہ جاننے کے لیے بھی سرحد تک نہیں جا سکتے کہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ ان تنصیبات کی تعداد کتنی ہے۔’
عوامی سطح پر عراقی حکومت نے ملک میں ترک فوج کی موجودگی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ لیکن بند دروازوں کے پیچھے اس نے انقرہ کے کچھ مطالبات تسلیم بھی کر لیے ہیں۔
سنہ 2024 میں فریقوں نے کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف لڑائی میں تعاون کے لئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے۔
تاہم بی بی سی کو ملنے والی دستاویز میں عراق کے اندر ترک افواج کی موجودگی پر کوئی پابندی شامل نہیں ہے۔
عراق تجارت، سرمایہ کاری اور آبی وسائل کی حفاظت کے لیے ترکی پر انحصار کرتا ہے جبکہ داخلی سیاسی تقسیم نے عراقی حکومت کی مضبوط موقف اختیار کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔
عراق کی قومی حکومت نے بی بی سی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ عراق کے نیم خود مختار کردستان خطے کے حکمرانوں کے انقرہ کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر قریبی تعلقات ہیں اور انھوں نے اکثر ترک فوجی کارروائیوں سے عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو نظر انداز کیا ہے۔
کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (کے ڈی پی) جو پی کے کے کی روایتی دشمن ہے کردستان علاقائی حکومت (کے آر جی) پر غالب ہے۔ اس نے باضابطہ طور پر سنہ 2005 سے اقتدار سنبھال رکھا ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سے عراقی آئین نے خطے کو نیم خود مختار حیثیت دی تھی۔
ترکی کے ساتھ کے ڈی پی کے قریبی تعلقات نے کردستان خطے کی اقتصادی اہمیت کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور خطے میں اپنے سیاسی مخالفین کے سامنے اور بغداد میں عراقی حکومت کے ساتھ اس کے معاملات میں اس کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے جس کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ خودمختاری کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔
کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے پولٹ بیورو کے ایک اہم رکن ہوشیار زبری نے عراقی کردستان کے اندر ترکی کی موجودگی کے لئے پی کے کے کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ وہ (ترک فوج) ہمارے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے وہ انھیں گرفتار نہیں کرتے وہ ان کے معاملات یا ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ ہوشیار زیبری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی توجہ اور ان کا واحد ہدف پی کے کے ہے۔’

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے طویل عرصے سے قید رہنما عبداللہ اوکلان نے فروری میں اپنے جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس کے باوجود یہ تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
ترکی نے عراقی کردستان میں اہداف پر بمباری جاری رکھی جبکہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے گزشتہ ماہ ترکی کے ایک ڈرون کو مار گرانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اگرچہ ترکی میں سنہ 2016 کے بعد سے پرتشدد واقعات میں کمی آئی ہے لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک سروے کے مطابق عراق میں ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جہاں سرحدی علاقے میں شہریوں کی جان کے جانے اور نقل مکانی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں کینسر کے 24 سالہ مریض ایلن اسماعیل بھی شامل تھے کہ جو اگست 2023 میں اپنے ایک رشتہ دار ہاشم شاکر کے ساتھ پہاڑی سفر کے دوران ایک فضائی حملے کا نشانہ بنے۔
ترک افواج نے اس روز حملے کی تردید کی تھی لیکن بی بی سی کی ایک پولیس رپورٹ میں اس واقعے کی ذمہ داری ترک ڈرون سے منسوب کی گئی ہے۔
جب ہاشم نے حملے کے بارے میں ایک مقامی عدالت میں شکایت درج کرائی تو کرد سکیورٹی فورسز نے انھیں پی کے کے کی حمایت کے شبے میں گرفتار کر لیا اور آٹھ ماہ تک حراست میں رکھا۔
ایلن کے والد اسماعیل چیچو نے کہا کہ ‘یہ پورے خاندان کو قتل کرنے جیسا ہے، ہمارا کُچھ بھی باقی نہیں رہا ہم تباہ ہو گئے۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘انھیں (ترکوں کو) ہمارے مُلک میں ہمارے ہی لوگوں کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔’
ترکی کی وزارت دفاع نے بی بی سی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم اس سے قبل میڈیا کو بتایا گیا تھا کہ ترکی کی مسلح افواج بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتی ہیں اور اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد صرف دہشت گردوں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہPhil Caller
بی بی سی نے ایسی دستاویزات دیکھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرد حکام نے ترکی کو شہری ہلاکتوں کے احتساب سے بچنے میں مدد دینے کے لیے کام کیا ہے۔
بی بی سی کو ملنے والی خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کرد عدالت نے ایلن کے قتل کی تحقیقات بند کر دیں اور یہ کہہ دیا گیا کہ ’مجرم نامعلوم‘ ہے۔
کرد حکام کی جانب سے جاری کردہ اور بی بی سی کی جانب سے دیکھے گئے ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی موت ’دھماکہ خیز مواد‘ کے پھٹنے کے نتیجے میں ہوئی۔
شہری ہلاکتوں پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کمیونٹی پیس ٹیمز کے کامران عثمان کا کہنا ہے کہ ‘زیادہ تر ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر وہ صرف موت کی وجہ ’دھماکے‘ کے طور پر لکھتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں کردستان کی علاقائی حکومت ترکی کو یہاں جو کچھ کر رہی ہے اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہتی۔‘
کردستان کی علاقائی حکومت نے کہا ہے کہ ’ترکی اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے درمیان تنازع میں ہلاک ہونے والے ‘بہت سے متاثرین’ کو ‘سویلین شہید’ کے طور پر درج کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ غیر منصفانہ طور پر مارے گئے تھے اور معاوضے کے حقدار ہیں۔
ایلن کے قتل کے تقریباً دو سال بعد بھی ان کے اہل خانہ معاوضے کے لیے نہیں تو کم از کم کردستان کی علاقائی حکومت کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اسماعیل نے کہا کہ ‘وہ کم از کم اپنی تعزیت بھیج سکتے تھے ہمیں ان کے معاوضے کی ضرورت نہیں ہے۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘جب کسی گھر کا کوئی فرد چلا جاتا ہے تو سب ختم ہو جاتا ہے۔’
SOURCE : BBC