SOURCE :- BBC NEWS

شام

  • مصنف, عامر ندیر
  • عہدہ, بی بی سی آئی انویسٹیگیشنز
  • 40 منٹ قبل

جب باغی رہنما احمد الشرع اپنے گروہ کے ہمراہ شام کے متعدد حصوں پر برق رفتاری سے قبضہ کرتے ہوئے دمشق پہنچے تو ان کی جانب سے اپنی فتح کے موقع پر کی گئی تقریر میں ایک اہم بات نظرانداز کر دی گئی۔

یہ اُس غیرقانونی نشہ آور مواد سے متعلق بات تھی جو گذشتہ 10 برسوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے پھیلا ہے۔

انھیں نے اس روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’شام دنیا بھر کیپٹاگون کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور آج خدا کے فضل سے شام اس سے پاک ہونے جا رہا ہے۔‘

کیپٹاگون کے بارے میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے باہر کے لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ یہ ایک عادی کرنے والا نشہ ہے جو ایمفیٹامین کی گولی جیسا ہوتا ہے اور اسے ’غریب آدمی کی کوکین‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس نشے کی پیداوار وقت کے ساتھ شام میں بہت تیزی سے بڑھی ہے کیونکہ شام کی معیشت جنگ، عالمی پابندیوں اور بڑے پیمانے پر شامی باشندوں کی بیرونِ ملک نقل مکانی کے باعث تباہ ہو چکی تھی۔ شام کے ہمسایہ ممالک کیپٹاگون کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ کو روکنے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں۔

تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں شام ہی کیپٹاگون کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے اور ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس کی غیرقانونی تجارت کا سالانہ حجم 5.6 ارب ڈالر ہے۔

جس بڑے پیمانے پر یہ نشہ آور گولیاں بنائی اور سمگل کی جا رہی تھیں اس سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ کسی ایک مخصوص جرائم پیشہ گینگ کا کام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی صنعت ہے جسے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔

باغی رہنما احمد الشرع، جنھیں پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے جانا جاتا تھا، کی ابتدائی تقریر کے چند ہفتوں بعد ایسے حیران کن مناظر منظرِ عام پر آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندیشہ درست تھا (یعنی شامی حکومت کا اس کام میں ملوث ہونا)۔

شام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں شامی شہری چند ایسے گھروں میں داخل ہوئے جو مبینہ طور پر ملک کے معزول ہونے والے صدر بشار الاسد کے رشتہ داروں کی ملکیت تھے۔ ویڈیوز میں ان نشہ آور گولیوں سے بھرے ہوئے کمرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان گولیوں یا منشیات کے بڑے کھیپ کو جعلی مصنوعات میں چھپایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ویڈیوز میں بظاہر شامی فوج کے فضائی اڈے پر نشہ آور گولیاں کے انبار دیکھے جا سکتے ہیں جنھیں شامی باغی گروہ کے اراکین نذرِ آتش کر رہے ہیں۔

میں نے بی بی سی کے لیے ایک دستاویزی فلم میں کیپٹاگون پر تحقیق کرنے میں ایک سال صرف کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ سعودی عرب کے امیر نوجوانوں سے لے کر اُردن میں نوکری پیشہ افراد تک، یہ نشہ اتنا مقبول کیسے ہوا؟

اُردن کے دارالحکومت عمان میں ایک (نشے کا) بحالی مرکز میں موجود کیپٹاگون کے عادی ایک نوجوان یاسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں 19 سال کا تھا جب میں نے کیپٹاگون استعمال کرنا شروع کی اور پھر میری زندگی بکھر گئی۔‘

’میں ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا جو یہ نشہ کرتے تھے۔ آپ کام کرتے ہیں اور کھانے کے بغیر زندہ رہتے ہیں اس لیے آپ کا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔‘

تو الشرع اور ان کا باغی گروہ شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ایسے بےتحاشہ افراد کا کیا کرے گا جو کیپٹاگون نامی اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں اور اب اچانک اس نشے کی سپلائی ختم ہو جائے گی؟

نیو لائنز انسٹیٹیوٹ میں اس شامی نشے کی سمگلنگ پر تحقیق کرنے والی کیرولین روز کو اس حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ وہ اس کی طلب کم کرنے کی بجائے اس کی سپلائی پر کریک ڈاؤن کریں گے۔‘

تاہم اس حوالے سے یہ سوالات بھی موجود ہیں کہ اتنی منافع بخش تجارت کے خاتمے کا شامی معیشت پر کیا اثر ہو گا؟ اور اب جب اس کی پشت پناہی کرنے والے نہیں رہے تو الشرع ایسے جرائم پیشہ گروہوں کو اُن کی جگہ لینے سے کیسے روکیں گے؟

مشرقِ وسطیٰ میں منشیات کی جنگ

مشرقِ وسطیٰ میں کیپٹاگون کے پھیلاؤ نے خطے کو منشیات کی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ جب ہم اُردن کی فوج کے ساتھ صحرا میں شامی سرحد پر فلمنگ کر رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ کیسے اب فوجیوں نے سرحد پر سکیورٹی بڑھا دی تھی اور انھوں نے ہمیں اپنے ان ساتھیوں کے بارے میں بھی بتایا جو کیپٹاگون کے سمگلرز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔

انھوں نے سرحد کے اس پار موجود شامی فوجیوں پر سمگلرز کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا۔ خطے میں دیگر ممالک بھی اس تجارت سے اتنے ہی پریشان ہیں۔

کچھ عرصہ تک سعودی عرب نے لبنان سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد معطل کر دی تھی کیونکہ حکام کو اکثر اناروں سے بھرے شپنگ کنٹینرز میں ایسے انار ملتے تھے جنھیں خالی کر کے ان کے اندر یہ گولیاں بھری گئی تھیں۔ ہم نے اس ڈاکیومینٹری کے لیے پانچ ممالک میں فلمنگ کی اور اس وقت بشار الاسد کے زیرِ انتظام اور باغیوں کے زیرِ انتظام شام میں بھی مناظر فلمائے۔ اس دوران ہم نے انتہائی اہم پوزیشنز پر موجود ذرائع سے بات کی اور جرمنی اور لبنان میں اس حوالے سے چلنے والے مقدمات کے خفیہ ریکارڈز تک رسائی حاصل کی۔

ہم اس دوران دو اہم فریقوں کے نام لینے میں کامیاب ہوئے جن کا اس تجارت میں ہاتھ تھا۔ ان میں بشار الاسد کا ایک دور پرے کے رشتہ دار اور شامی فوج: خاص طور پر اس کی فورتھ ڈویژن جس کی سربراہی بشارالاسد کے بھائی ماہر کر رہے تھے۔

A treated image shows a dirty hand holding a pile of white pills, being poured from a bag

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بشار الاسد کے بھائی سے متعلق سوالات

ماہر الاسد شاید اپنے بھائی کے بعد شام کا سب سے طاقتور شخص تھا۔ ان پر سنہ 2011 میں جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے پر متعدد مغربی طاقتوں کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

فرانس میں عدلیہ کی جانب سے ماہر الاسد اور بشارالاسد پر مبینہ طور پر شام میں سنہ 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے بین الاقوامی وارنٹس جاری کیے گئے تھے۔

ہمیں لبنان میں قید ایک کیپٹاگون کے تاجر کی واٹس ایپ چیٹ تک رسائی ملی جس کی وجہ سے ہمیں ماہر الاسد کی فورتھ ڈویژن اور ان کے نائب جنرل غسان بلال کے اس نیٹ ورک میں کردار کے بارے میں معلوم ہوا۔

یہ انکشاف اس بات کی تصدیق کرنے میں ایک اہم سنگ میل تھا کہ شام کی فوج اور بشار الاسد کے قریبی حلقوں کا نشے کی اس تجارت میں اہم کردار ہے۔

جب میں نے باغیوں کی پیش قدمی کے باعث شامی فوجیوں کے لڑے بغیر اپنی پوسٹس سے بھاگنے کے مناظر دیکھے تو مجھے وہ انٹرویو یاد آ گیا جو میں نے گذشتہ برس ایک شامی فوجی سے کیا تھا۔

انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کی 30 ڈالر کی ماہانہ آمدن گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہے چنانچہ اُن کی یونٹ جرائم اور کیپٹاگون کی تجارت میں ملوث ہو گئی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہی اب ہمیں سب سے زیادہ آمدن فراہم کرتی ہے۔‘

مئی 2023 میں عرب لیگ نے شام کو 12 سال بعد دوبارہ لیگ کے رکن کے طور پر شامل کیا تھا۔ اسے سنہ 2011 میں مظاہرین کو تشدد کا سہارا لے کر دبانے کے باعث عرب لیگ سے نکالا گیا تھا۔ عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کے فیصلے کو بشارالاسد کی سفارتی فتح قرار دیا گیا تھا اور اس وقت بتایا گیا تھا کہ عرب لیگ نے ایسا بشار الاسد کی جانب سے کیپٹاگون کی تجارت کو روکنے کے ضمن میں کیے گئے وعدوں کو بنیاد بنا کر کیا ہے۔

بشارالاسد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا باغی رہنما کریک ڈاؤن کر پائیں گے؟

شام کے ریاستی اداروں پر کنٹرول بڑھانے والے باغی رہنماؤں کو بظاہر معلوم ہے کہ کیپٹاگون کی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ پڑوسی ملکوں کے لیے مثبت پیغام ہے۔

لیکن مالی طور پر فائدہ مند اس مجرمانہ کاروبار سے نجات ملک کے لیے بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ کئی برسوں تک خود ریاست نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

عصام الرئیس شامی فوج میں ایک میجر انجینیئر تھے۔ لیکن انھوں نے اسد حکومت کے خلاف بغاوت کی ابتدا میں فوج چھوڑ دی تھی۔ انھوں نے طویل عرصے تک کیپٹاگون کی تجارت پر تحقیق کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ ہیئت تحریر الشام کو یہ تجارت روکنے کے لیے آغاز میں شاید زیادہ کچھ نہ کرنا پڑے ’کیونکہ بڑے کھلاڑی میدان چھوڑ چکے ہیں۔‘ کیپٹاگون کی برآمد میں ایک ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن وہ متنبہ کرتے ہیں کہ ممکن ہے ’نئے لوگ‘ اس کی باگ ڈور سنبھالنے کے منتظر ہوں۔

مشکلات اس وقت بھی جنم لے سکتی ہیں اگر اس کی طلب سے نہ نمٹا گیا۔ روز کے مطابق جب سے ہیئت تحریر الشام نے شمال مغربی صوبے ادلب کا کنٹرول سنبھالا ہے تب سے حالات میں بحالی کے لیے سرمایہ کاری کے بہت کم شواہد ملے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کیپٹاگون کی کھپت کو روکنے کی کوششیں مایوس کن ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ شام کے ذریعے ایک اور منشیات سمگل کی جا رہی ہے جس میں اضافہ ہوا ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کئی لوگ کرسٹل میتھ کو متبادل کے طور استعمال کریں گے، خاص کر وہ لوگ جن پر کیپٹاگون اب بے اثر ہے اور انھیں نشے کے لیے مزید کوئی ٹھوس چیز درکار ہے۔‘

الرئیس کا کہنا ہے کہ دوسرا مسئلہ مالیاتی نوعیت کا ہے کیونکہ فی الوقت ’شامیوں کو پیسے چاہییں۔‘

شام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھیں امید ہے کہ عالمی برداری انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد اور پابندیوں کے خاتمے کے ذریعے لوگوں کو منشیات کی سمگلنگ میں جانے سے روکے گی۔

روز کا خیال ہے کہ شام کی نئی قیادت ایسے متبادل معاشی منصوبے تلاش کرے جس میں شہری قانونی طریقوں سے اپنی شراکت بڑھا سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ منشیات کے بڑے سمگلر فرار ہو چکے ہیں تاہم ملک میں پیداوار اور سمگلنگ کا نیٹ ورک اب بھی موجود ہے۔ ’پرانی عادتیں مشکل سے ختم ہوتی ہیں۔‘

جارج رائٹ کی اضافی رپورٹنگ

SOURCE : BBC