SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہIDF
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے حماس کے رہنما محمد سنوار کی لاش کی شناخت کر لی ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ ان کی فوج نے حماس کے غزہ چیف محمد سنوار کو ’ہلاک کر دیا ہے‘، جو اسرائیل کے سب سے مطلوب افراد میں سے ایک اور حماس کے سابق رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی تھے۔
اسرائیلی فوج نے اتوار کو کہا ہے کہ ان کی لاش خان یونس میں یورپین ہسپتال کے نیچے ٹنل سے ملی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ ان کی لاش کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ سے کیا گیا ہے۔ حماس نے ابھی تک محمد سنوار کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
49 برس کے محمد سنوار 13 مئی کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں واقع یورپی ہسپتال کے صحن اور اطراف میں کیے گئے ایک بڑے اسرائیلی فضائی حملے کا ہدف تھے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں حماس کا ’زیرِ زمین انفراسٹرکچر‘ تباہ کر دیا گیا۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام سول ڈیفنس ادارے کے مطابق اس حملے میں 28 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم، حماس نے محمد سنوار کی ہلاکت کی نہ تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔

،تصویر کا ذریعہIDF
محمد سنوار کون ہیں؟
جب سے حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت اور تحریک کی عسکری شاخ، القسام بریگیڈز کے چیف آف سٹاف محمد الضیف ہلاک ہوئے ہیں، تب سے یہ قیاس آرائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں کہ محمد سنوار غزہ میں تحریک کے فیصلوں پر کس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ میں جنگ کو تقریباً ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں، قیدیوں اور زیر حراست افراد کے تبادلے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
محمد سنوار کو القسام بریگیڈ کے نمایاں عسکری کمانڈروں میں شمار کیا جاتا ہے اور وہ غزہ میں تنظیمی ڈھانچے کے اندر وسیع اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ ماضی میں سکیورٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اپنے بھائی یحییٰ کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے، جس کے باعث اُن کا نام ممکنہ جانشین کے طور پر سامنے آنے کے امکانات کو تقویت ملی۔
گذشتہ برسوں کے دوران اسرائیل نے محمد سنوار کو کم از کم پانچ مرتبہ نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر دستیاب رپورٹس کے مطابق یہ تمام حملے ناکام رہے۔ ان کا نام نہ صرف اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے اغوا کی کارروائی سے جوڑا جاتا ہے بلکہ غزہ میں جاری حالیہ جنگ میں بھی ان کا مبینہ عسکری کردار ہے۔

،تصویر کا ذریعہIDF
اگرچہ محمد سنوار کی شخصیت سے متعلق عرب اور فلسطینی ذرائع میں معلومات نہایت محدود ہیں، لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بعض فلسطینی صحافیوں نے بتایا کہ معلومات کی کمی اُن کی خالصتاً عسکری سرگرمیوں اور پس منظر میں رہ کر کام کرنے کے طرزِ عمل کا نتیجہ ہے۔
تاہم، دستیاب معلومات کی روشنی میں ان کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے، وہ درج ذیل ہے۔
پیدائش اور پرورش
محمد سنوار 1975 میں خان یونس میں پیدا ہوئے، اُس وقت ان کے بڑے بھائی یحییٰ سنوار کی عمر 13 برس تھی۔ ان کا خاندان 1948 میں اسرائیلی قبضے کے دوران اشکلون کے قریب ایک گاؤں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد وہ جنوبی غزہ میں آ کر آباد ہوئے۔
محمد سنوار نے حماس کے قیام کے فوراً بعد تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اس کی عسکری شاخ ’عزالدین القسام بریگیڈز‘ کا حصہ بن گئے۔
انھوں نے تنظیم کے اندر تیزی سے ترقی کی اور 2005 تک خان یونس بریگیڈ کے کمانڈر کے عہدے تک پہنچ گئے۔
سنہ 1991 میں محمد سنوار کو ’دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شبہ‘ میں گرفتار کر کے اسرائیل کی کیتسیوت جیل میں نو ماہ تک قید رکھا گیا۔
2000 کے بعد جب حماس کے اسرائیل پر حملے مزید منظم اور مؤثر ہونے لگے تو محمد سنوار کی حماس کے اندر حیثیت اور اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔ اس میں ایک اہم کردار ان کی ’یحییٰ کے بھائی‘ کے طور پر شناخت نے ادا کیا، جو اس وقت مزید مستحکم ہوئی جب یحییٰ اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔
رپورٹس کے مطابق محمد سنوار حماس کے سابق عسکری سربراہ محمد الضیف کے قریبی ساتھی تھے اور 7 اکتوبر 2023 کے حملے کی منصوبہ بندی میں بھی ان کا کردار بتایا جاتا ہے۔
’دی یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق محمد سنوار نے حماس کے ان کمانڈروں سے قریبی تعلقات قائم کیے جو بعد ازاں تنظیم کی عسکری قوت کا مرکزی حصہ بنے، جیسے محمد ضیف، سعد العربید اور دیگر۔۔۔ جن کے ساتھ وہ شانہ بشانہ کام کرتے رہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ محمد سنوار ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے اغوا کی منصوبہ بندی کی۔ اسی واقعے کے نتیجے میں بعد ازاں سارجنٹ شالیت کو 1027 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا، جن میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔
محمد سنوار کئی دہائیوں سے روپوش زندگی گزار رہے تھے تاکہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری یا ٹارگٹ کلنگ سے بچ سکیں۔
SOURCE : BBC