SOURCE :- BBC NEWS

القادر یونیورسٹی

  • مصنف, شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سوہاوہ
  • 17 جنوری 2025، 07:35 PKT

    اپ ڈیٹ کی گئی 17 جنوری 2025، 12:38 PKT

القادر ٹرسٹ کیس، القادر یونیورسٹی کیس، 190 ملین پاؤنڈ کیس، 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس۔۔۔

گذشتہ دو سال کے دوران اِن الفاظ کا تواتر سے استعمال آپ نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں نشر اور شائع ہونے والی خبروں میں دیکھا اور سُنا ہو گا۔

جمعے کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں سنائے گئے فیصلے میں جہاں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی وہیں القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔

بی بی سی اُردو نے اس فیصلے سے قبل القادر یونیورسٹی کا دورہ کیا اور جاننے کی کوشش کی یہ یونیورسٹی کیسے کام کر رہی ہے۔

القادر یونیورسٹی اسلام آباد سے تقریبا 85 کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں تعمیر کی گئی ہے۔ 458 کنال رقبے پر محیط یہ یونیورسٹی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور اس کے ارگرد کوئی باقاعدہ آبادی نہیں ہے۔

القادر

یہ یونیورسٹی القادر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتی ہے جس کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان ہیں جبکہ اُن کی بیوی بشری بی بی بورڈ اف ٹرسٹیز کی رُکن ہیں۔

القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد سنہ 2019 میں عمران خان نے ہی رکھا تھا جبکہ اس یونیورسٹی میں درس و تدریس کا کا باقاعدہ آغاز سنہ 2021 میں ہوا تھا اور ابتدا میں اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد 30 کے قریب تھی۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ اس یونیورسٹی میں کوئی بھی طالبعلم زیر تعلیم نہیں ہے۔ تاہم جب بی بی سی کی ٹیم القادر یونیورسٹی پہنچی تو وہاں کے حالات وفاقی وزیر اطلاعات کے دعوے سے کچھ مختلف تھے۔

یہاں پر موجود طلبا میں لڑکیاں بھی شامل تھیں جبکہ یونیورسٹی میں کافی چہل پہل تھی۔

القادر یونیورسٹی

اس یونیورسٹی میں مینجمنٹ سائنسز اور اسلامک سٹڈیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اس یونیورسٹی میں روحانیت اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جائے گی تاہم اس بارے میں اس یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ روحانیت اور فلسفہ بھی اسلامک سٹڈیز میں ہی آتے ہیں۔

انتظامیہ کے مطابق یونیورسٹی میں فی الحال طلبا کی تعداد 200 سے زائد ہے جن کی اکثریت ملک کے دور دراز علاقوں سے آئی ہے اور اُن میں سے 90 فیصد طلبا اور طالبات سکالر شپ پر یعنی مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

القادر یونیورسٹی

جب بی بی سی کی ٹیم یہاں پہنچی تو یہاں مختلف کلاسز ہو رہی تھیں جبکہ چند طلبا و طالبات کمپیوٹر لیب اور لائبریری میں مصروف تھے۔

اس یونیورسٹی کے چار بلاک ہیں، گراؤنڈ اور فرسٹ فلور پر کلاس رومز ہیں جبکہ سکینڈ فلور کی ایک حصے میں طلبا کا ہاسٹل جبکہ دوسری جانب طالبات کا ہاسٹل ہے۔ طالبعلموں کی سہولت کے لیے یہاں پر میس (کینٹین) بھی بنایا گیا ہے۔

طلبا کے خدشات

القادر یونیورسٹی
مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا اور طالبات سے بات ہوئی تو وہ یہاں کے تعلیمی معیار سے بڑی حد تک مطمئن نظر آئے۔ تاہم وہ 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے کو القادر یونیورسٹی کے ساتھ جوڑنے پر کافی پریشان دکھائی دیے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے طالبعلم شمس السلام نے بتایا کہ اُن کا ذاتی طور پر سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یونیورسٹی میں سیاست پڑھائی جاتی ہے۔

’اس یونیورسٹی میں میرے ڈھائی سال مکمل ہو چکے ہیں اور اب میں پانچویں سمسٹر میں زیر تعلیم ہوں۔ اگر خدانخواستہ اس کیس کا یونیورسٹی پر کوئی اثر ہوتا ہے یا اسے بند کر دیا جاتا ہے، تو میرا یہ سوال ہے کہ ہم بلوچستان سے آئے ہوئے طلبا کہاں جائیں گے؟‘

کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار گجرخان سے تعلق رکھنے والی مہرین تبسم نے کیا۔ مہرین القادر یونیورسٹی میں بی ایس منیجمنٹ کے پانچویں سمسٹر کی سٹوڈنٹ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم یہاں اس یونیورسٹی میں اپنا بہت زیادہ وقت انویسٹ کر چکے ہیں، مگر غیریقینی کی اس صورتحال میں اگر کل کلاں کچھ ہو جاتا ہے تو اس کا ہماری تعلیم پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔‘

میانوالی سے تعلق رکھنے والی علینہ خانزادی اسلامک سٹڈیز میں تیسرے سمسٹر میں زیر تعلیم ہیں۔ علینہ کے مطابق ’کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ لینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ایک سال کا وقت تو لگ ہی جاتا ہے، اگر کچھ ہوتا ہے اور یونیورسٹی بند ہوتی ہے تو اس کے بہت بُرے اثرات ہوں گے۔‘

اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبعلموں کا کہنا تھا کہ تعلیم کو سیاست سے الگ رکھا جائے کیونکہ اس مقدمے کو لے کر انھیں اپنے مستقبل کے حوالے سے کافی فکر ہے۔

چند طلبا کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی اس مقدمے کے تناظر میں اپنی یونیورسٹی سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹس دیکھتے ہیں تو وہ ذہنی طور پر پریشان ہو جاتے ہیں۔

مالی مشکلات سے دوچار القادر یونیورسٹی

القادر یونیورسٹی

القادر یونیورسٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد الرحمن اس یونیوسٹی کو درپیش مالی مشکلات کے باوجود کافی مطمئن دکھائی دیے۔

اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہ ہونے کے باعث فی الحال کوئی فنڈز موصول نہیں ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اُن کے پاس ابھی تک وہی فنڈز موجود ہیں جو عمران خان کے بحثیت وزیر اعظم دور میں اکھٹے ہوئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ القادر یونیورسٹی کا ماہانہ خرچ 40 سے 50 لاکھ کے درمیان ہے۔ انھوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی انتظامیہ نے تمام تر لوازمات پورے کر لیے تھے تا کہ مستحق لوگ اس ادارے کو عطیات دے سکیں اور اس ضمن میں جہلم میں انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو بھی درخواست دی گئی تھی لیکن متعلقہ حکام نے ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ متعقلہ اداروں کے اس رویے کے خلاف معاملہ ابھی تک عدالتوں میں ہے جس پر جلد فیصلہ ہونے کی امید ہے۔

انھوں نے کہا کہ فنڈنگ کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جب بھی کوئی شخصیت اس یونیورسٹی کے دورے پر آتی ہے تو انھیں کچھ سٹوڈنٹس کی کفالت یا ان کے اخراجات اپنے ذمہ لینے کی درخواست کی جاتی ہے جس پر عمومی طور پر عمل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر امجد الرحمن کا کہنا تھا کہ اس یونیورسٹی میں زیادہ تر زیر تعلیم طالب علموں کا تعلق ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے ہے لیکن اُن کی سلیکشن میرٹ پر ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ’بعض اوقات کسی طالب علم کو کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کا کھانے کا خرچہ اٹھایا جانا ہوتا ہے، تو محتلف شخصیات جب بھی اس یونیورسٹی کے دورے پر آتی ہیں تو ان کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا جاتا ہے۔‘

اس یونیورسٹی میں یا اس کے قریب پولیس کی کوئی چیک پوسٹ نہیں ہے جبکہ یونیورسٹی کے احاطے میں پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

SOURCE : BBC