SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, سید معزز امام
- عہدہ, بی بی سی ہندی، لکھنؤ
-
43 منٹ قبل
ایک مثل مشہور ہے کہ ’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ یعنی اگر گھر میں ہی مخبر ہو تو پھر راون کی لنکا جیسی بے پناہ قوت والی سلطنت بھی برباد ہو جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش میں پیش آيا جب رشتہ داروں کی شکایت پر پولیس نے اپنی شناخت چھپا کر 34 سال سے ریاست میں ہوم گارڈ کے طور پر کام کرنے والے نند لال کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کے مطابق نندلال کا نام سنہ 1988 سے اعظم گڑھ ضلع کے رانی کی سرائے پولیس سٹیشن کے ریکارڈ میں ہسٹری شیٹر کے طور پر درج ہے۔
دراصل نند لال کی اپنے رشتہ داروں سے لڑائی ہوئی جس کے بعد ان کا اپنی شناخت کو چھپانے اور دھوکے سے نوکری حاصل کرنے کا معاملہ سامنے آیا۔
پولیس نے کیا بتایا؟
نند لال کا سابقہ نام نکدو تھا۔ ان کا نام 1988 سے ضلع کے رانی کی سرائے پولیس سٹیشن کے ریکارڈ میں ہسٹری شیٹر کے طور پر درج تھا۔ وہ نہ صرف جیل سے باہر ایک نئے نام سے زندگی گزار رہے تھے بلکہ وہ ہوم گارڈ کی نوکری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔
اعظم گڑھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ہیمراج مینا نے بتایا کہ نند لال عرف نکدو اصل میں تھانہ رانی کی سرائے کے رہنے والے ہیں۔ ’وہ سنہ 1990 سے میہنگر پولیس سٹیشن میں ہوم گارڈ کے طور پر تعینات تھے اور ڈیوٹی کر رہے تھے۔‘
پولیس کو اطلاع ملی کہ ان کے خلاف سنہ 1984 سے 1989 کے درمیان کئی مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم اس معاملے میں پولس پر سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ میہنگر پولیس سٹیشن اور رانی کی سرائے پولیس اسٹیشن کے درمیان صرف 15 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
پولیس کے مطابق نند لال عرف نکدو کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کی گئی تھی۔
رشتہ داروں سے جھگڑے کی وجہ سے راز فاش ہوا
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ملزم نند لال کی شناخت ظاہر ہونے اور ان کی گرفتاری کی کہانی اتنی ہی دلچسپ ہے جتنی کہ ان کا اتنے سال تک اپنی شناخت چھپا کر اس کا جینا۔
34 سال تک یہ انکشاف نہیں ہو سکا کہ نند لال ہی ہسٹری شیٹر نکدو ہیں لیکن یہ معاملہ کچھ عرصہ قبل مار پیٹ کے ایک واقعے کے بعد سامنے آیا تھا۔
دراصل اکتوبر میں اسی گاؤں میں نکدو عرف نند لال کی اپنے رشتہ داروں سے لڑائی ہوئی تھی۔ نکدو کے بھتیجے نے پولیس میں اس کی شکایت کی جس کے بعد دیگر رشتہ داروں نے بھی شکایت کی۔
شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ نکدو نامی شخص اپنا نام بدل کر 34 سال سے ہوم گارڈ کے طور پر کام کر رہا ہے اور اس طرح پولیس کو گمراہ کر رہا ہے۔
ڈی آئی جی کے حکم پر کی گئی تفتیش میں پولیس نے ان الزامات کو درست پایا جس کے بعد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی تفتیش سے معلوم ہوا کہ ملزم نے اپنا نام تبدیل کیا تھا، بعد میں وہ دستاویزات میں بھی اپنا نام تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سنہ 1990 میں وہ ہوم گارڈ کے طور پر بھرتی ہونے میں بھی کامیاب ہوئے اور تب سے وہ مسلسل ہوم گارڈ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہیمراج مینا کے مطابق ملزم نے فرضی دستاویزات کی بنیاد پر ہی تقرری حاصل کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم حراست میں ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔ پولیس اس پہلو سے بھی تفتیش کر رہی ہے کہ اتنے عرصے تک ڈیوٹی پر رہتے ہوئے وہ کہاں کہاں تعینات تھے اور اپنی شناخت چھپانے میں کیسے کامیاب ہوئے۔
پولیس اب ان افسران سے بھی تفتیش کر رہی ہے جنھوں نے کریکٹر سرٹیفکیٹ دینے میں ان کی مدد کی یا جنھوں نے اس کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ کے مطابق ان تمام چیزوں کی جانچ کی جا رہی ہے، اگر اس معاملے میں محکمہ پولیس یا ہوم گارڈ کی جانب سے کسی قسم کی غفلت پائی جاتی ہے تو ذمہ داروں کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
ہیمراج مینا نے کہا کہ تحقیقات کے دوران جو بھی حقائق سامنے آئیں گے اس کے مطابق مزید کارروائی کی جائے گی، فی الحال انھیں (ملزم) کو معطل کر دیا گیا ہے۔
1990 سے ہوم گارڈ کی نوکری
پولیس سپرنٹنڈنٹ ہیمراج مینا کے مطابق ملزم نے 1984 میں ذاتی دشمنی کی بنا پر ایک شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد ملزم کا نام ڈکیتی سمیت کئی دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی سامنے آیا۔
ملزم 1988-89 میں پولیس کے ریڈار سے غائب ہوا اور بعد میں جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ہوم گارڈ کی نوکری حاصل کر لی۔
ریکارڈ کے مطابق ملزم نے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی، اس نے نوکری کے لیے آٹھویں جماعت کی مارک شیٹ جمع کرائی، جس میں اس کا نام نند لال اور ان کے والد کا نام لوکائی یادو کے طور پر درج ہے۔
ملزم کی عمر اب 57 سال ہے اور وہ جلد ہی ریٹائر ہونے والا تھا لیکن اس کا پردہ فاش ہو گيا۔
SOURCE : BBC