SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, رابرٹ گرینال اور پال کربی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
ڈنمارک کی حکومت نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اہم جزیرے ’گرین لینڈ‘ کو خریدنے کی خواہش کی اظہار کے بعد، اس جزیرے کے دفاع پر اٹھنے والے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافے کا اعلان کیا ہے۔
ڈنمارک کے وزیرِ دفاع ٹرولز پولسن کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے دفاعی اخراجات میں ہونے والا حالیہ اضافہ 1.5 ارب ڈالر تک کا ہے۔
ڈنمارک کے وزیرِ دفاع نے گرین لینڈ کے دفاعی بجٹ میں اضافے کو مُلک کے لیے ایک مُشکل فیصلہ قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز پر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’اس بڑے جزیرے (گرین لینڈ) کی ملکیت اور کنٹرول کو حاصل کرنا امریکہ کے لیے ’وقت کی اہم ترین ضرورت‘ ہے۔‘
گرین لینڈ، ڈنمارک کا ایک خود مختار علاقہ ہے جہاں خلا پر ریسرچ کے حوالے سے امریکہ کی ایک بڑی تنصیب موجود ہے۔ ساتھ ساتھ یہ جزیرہ امریکہ کے لیے سٹریٹجک طور پر اہم ہے کیونکہ یہ شمالی امریکہ سے یورپ تک جانے کے مختصر ترین راستے پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس جزیرے میں معدنیات کے بڑے ذخائر بھی موجود ہیں۔
ڈنمارک کے وزیر دفاع پولسن نے کہا کہ اس اضافی دفاعی پیکیج سے دو ایسے نئے جہاز خریدے جائیں گے جو جزیرہ کے حالات پر نظر رکھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ دو نئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرون اور کتوں کی سلیج ٹیمیں خریدی جا سکیں گی۔ (کتوں کی سلیج: ایک چھوٹے سے لکڑی یا لوہے کی بنی ریڑھی جس پر سامان لاد کر آٹھ سے دس کتوں کی ٹیم کی مدد سے برفیلے علاقوں میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاتا ہے۔)
اس دفاعی پیکج کی مدد سے آرکٹک کمانڈ میں عملے میں اضافے اور گرین لینڈ کے تین اہم سویلین ہوائی اڈوں میں سے ایک کو ایف 35 سپرسونک لڑاکا طیاروں کو آپریٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کئی سالوں سے اس جزیرے پر نہ تو زیادہ توجہ دی اور نہ ہی اس پر سرمایہ کاری کی گئی، تاہم اب ہم اس جزیرے پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
ڈنمارک کے وزیر دفاع نے اس پیکج کے بارے میں درست اعداد و شمار تو ظاہر نہیں کیے ہیں لیکن ڈنمارک کے ذرائع ابلاغ کا اندازہ ہے کہ یہ 12 سے 15 ارب کرون کے لگ بھگ ہوگا۔ (کرون ڈینمارک کی کرنسی کا نام ہے۔)
اس اعلان سے ایک روز قبل ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کہا تھا کہ ’دنیا بھر میں قومی سلامتی اور آزادی کے مقاصد کے لیے امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ گرین لینڈ کی ملکیت اور کنٹرول وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔‘
گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم برائے فروخت نہیں ہیں۔‘
تاہم انھوں نے مزید کہا کہ گرین لینڈ کے باشندے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون اور تجارت کے لیے آزاد اور خودمختار ہیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے دفاع اخراجات میں اضافے کا منصوبہ طویل عرصے سے زیر بحث ہے اور اسے ٹرمپ کے بیانات کے براہ راست ردعمل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تک ڈنمارک گرین لینڈ میں اپنی فوجی صلاحیت بڑھانے میں بہت سست روی کا شکار رہا ہے لیکن اگر ڈنمارک چین اور روس کی جانب سے تجاوزات کے خلاف علاقے کے آس پاس کے پانیوں کی حفاظت نہیں کر پاتا ہے تو اس جزیرے کے زیادہ سے زیادہ کنٹرول کے امریکی مطالبات میں اضافے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ڈنمارک کی ڈیفنس اکیڈمی سے منسلک میجر سٹین کجرگارڈ کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کا ارادہ ڈنمارک پر اس طرح کے اقدام کے لیے دباؤ ڈالنا ہو گا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ امکان ہے کہ گرین لینڈ کے ارد گرد ہوائی اور سمندری کنٹرول کی ضرورت پر اور گرین لینڈ میں داخلی پیش رفت پر نئے سرے سے ٹرمپ کی توجہ مرکوز ہو جائے جہاں کچھ لوگ امریکہ کے حامی ہیں اور اُسی کی جانب دیکھ بھی رہے ہیں۔ تاہم اس سب کے بیچ گرین لینڈ کے دارلحکومت نوک میں ایک نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا ابھی افتتاح ہوا ہے۔‘
میجر سٹین کجرگارڈ نے گرین لینڈ کی جانب سے کوپن ہیگن سے ملنے والی سبسڈیز پر بھاری انحصار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں ٹرمپ خاصے ہوشیار ہیں، وہ ڈنمارک کو گرین لینڈ خریدنے کی خواہش کا اظہار کر کے ڈنمارک کو اس جزیرے پر اپنی فوجی صلاحیتوں کو ترجیح دینے اور اس پر توجہ دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘
سنہ 2019 میں ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کو حاصل کرنے کی تجویز پہلی مرتبہ سامنے آئی تھی جس پر ڈنمارک کے رہنماؤں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
اس وقت ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن نے اس خیال کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا تھا جس کے بعد ٹرمپ نے ڈنمارک کا اپنا سرکاری دورہ منسوخ کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ گرین لینڈ خریدنے کا مشورہ دینے والے پہلے امریکی صدر نہیں۔ یہ خیال سب سے پہلے 1860 کی دہائی میں اینڈریو جانسن کے دورِ صدارت میں پیش کیا گیا تھا۔
امریکہ گرین لینڈ کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈنمارک پر انحصار کرتا ہے۔
ان معدنیات میں کوئلہ، تانبا اور زنک وغیرہ شامل ہیں۔
سنہ 2019 میں امریکہ میں گرین لینڈ کی خریداری کے بارے میں اعلیٰ سطحی مشاورت میں شامل دو افراد نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ گرین لینڈ کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے بھی اس اہم جزیرے کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یورپ اور شمالی امریکہ کے راستے میں واقع گرین لینڈ پر امریکہ کی اس جزیرے کے اہم دفاعی محل وقوع کی وجہ سے نظر تھی۔
امریکہ نے سرد جنگ کے آغاز پر اس جزیرے پر ایک فضائی اور ریڈار اڈہ قائم کیا تھا جو اب خلا پر نظر رکھنے کے لیے اور اس کے علاوہ امریکہ کے انتہائی شمالی حصوں پر ممکنہ بلاسٹک میزائلوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسی دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی حدت میں اضافے سے قطب شمالی کا منجمد سمندر جہاز رانی کے لیے قابل ہوتا جا رہا ہے اور یہ سمندری راستہ بھی کھل رہا ہے۔
سنہ 2019 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کو خریدنے کی یہ تجویز ایک ایسے وقت سامنے آئی کہ جب چین بھی اس خطے میں بہت دلچسپی لے رہا تھا۔ سنہ 2018 میں چین سے تعلق رکھنے والی ایک سرکاری کمپنی نے گرین لینڈ میں نئے ہوائی اڈے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پھر سنہ 2019 میں یہ اعلان واپس لے لیا گیا۔
سنہ 2019 میں رپبلکن جماعت کے رکن مائیک گلاگر نے صدر ٹرمپ کی اس تجویز کو دفاعی اعتبار سے ایک بہت ہی دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا۔
انھوں نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’دفاعی لحاظ سے گرین لینڈ امریکہ کے لیے بہت اہم ہے۔ گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ یہ ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے جو شمالی بحیرہ اوقیانوس اور قطب شمالی کے درمیان واقع ہے۔‘
اس کی آبادی 56 ہزار کے قریب ہے جس کی اکثریت ساحلِ سمندر پر آباد ہے۔ گرین لینڈ کی نوے فیصد آبادی مقامی گرین لینڈک انیوٹ لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس کی اپنی پارلیمان ہے اور اس کی حکومت کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔
اس جزیرے کا اسی فیصد حصہ سال کے بارہ مہینے برف کی دبیز تہہ سے ڈھکا رہتا ہے۔ یہ برف اب عالمی حدت کی وجہ سے پگھل رہی ہے۔ اس سے ایک ِخطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہاں کئی امریکی فوجی علاقوں میں سرد جنگ کے درمیان دفن کیے گئے جوہری فضلے کو آشکار نہ کر دے۔
اس جزیرے کو خریدنے کی امریکہ خواہش بہت پرانی ہے اور سنہ 1860 میں پہلی بار یہ بات زیر غور آئی تھی۔
سنہ1867 میں امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ تھا گرین لینڈ کی معدنیات اور اس کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے اس کو حاصل کرنا انتہائی اہم ہے۔
لیکن اس بارے میں سرکاری طور پر سنہ 1946 تک کچھ نہیں کیا گیا جب ہینری ٹرومن کی صدرات کے دوران ڈنمارک کو دس کروڑ ڈالر کی پیش کش کی گئی۔ اس سے قبل وہ گرین لینڈ کے بدلے میں ڈنمارک کو الاسکا کے کچھ علاقے دینے کو بھی تیار تھے۔
SOURCE : BBC