SOURCE :- BBC NEWS

fire

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, برینڈن ڈرینن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 13 منٹ قبل

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی آگ کو بھجانے کی کوششوں میں صرف امریکی سرکاری ادارے ہی نہیں بلکہ غیر ملکی فائر فائٹرز اور ہزاروں مرد اور خواتین قیدی بھی حصہ لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ پینٹاگون کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آگ بھجانے کی کوششوں میں خصوصی طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں فائر فائٹنگ کے لیے خصوصی نظام نصب کیے گئے ہیں۔

لاس اینجلس میں آگ بھجانے کی کوشش میں حصہ لینے والے قیدیوں کی تعداد 939 اور وہ کیلیفورنیا کے ڈپارٹمنٹ آف کریکشنز اینڈ ریہیبلیٹیشن کے رضاکار پروگرام کا حصہ ہیں۔

رضاکار پروگرام میں قیدیوں کی تعداد منگل کو اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب لاس اینجلس میں لگی آگ قابو سے باہر ہوئی۔

اب تک یہ آگ ہزاروں مکانات کو تباہ اور 37 ہزار ایکڑ زمین کو جلا کر راکھ کر چکی ہے۔ اس آگ کو بھجانے کی کوشش کرنے میں ہزاروں ایمرجنسی کارکنان مصروف ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس آگ کے سبب گیارہ افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

fire fighter

،تصویر کا ذریعہEPA

امریکی ریاست میں 35 ایسے فائر کیمپس ہیں جہاں قیدی اپنی قید بھی کاٹتے ہیں اور تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان میں دو کیمپس ایسے ہیں جو کہ صرف خواتین کے لیے مختص ہیں۔

اس رضاکار پروگرام میں رجسٹرڈ قیدیوں کی تعداد ایک ہزار 870 ہے جس میں سے 900 سے زیادہ قیدی سرکاری فائر فائٹرز کے ساتھ مل کر جنوبی کیلیفورنیا میں لگی آگ کو بھجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لاس اینجلس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لاس اینجلس میں موجود ہمارے نامہ نگار جان سڈورتھ کے مطابق سنیچر کو دن کے وقت وہ ایک بعد ایک ہیلی کاپٹر ایک وقت میں درختوں پر تین ہزار گیلن پانی گراتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر دوبارہ اپنی ٹینکیاں بھر کر واپس آتے ہیں اور ایک بار پھر اس بے قابو آگ کو روکنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

خصوصی طیارے آس پاس کی پہاڑیوں کے اوپر گہرے سرخ رنگ کا مائع پھینک رہے ہیں جس سے آگ بھجانے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ہو رہی ہے۔

یہ ایک مخصوص فائر ریٹارڈنٹ ہے جس کے ذریعے آگ کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔

پینٹاگون کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ آگ بھجانے کے عمل میں سی 130 ہرکولیز نامی دو طیارے حصہ لے رہے ہیں جن میں فائر فائٹنگ نظام بھی نصب ہیں۔

لاس اینجلس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

پینٹاگون کی ترجمان سبرینا سنگھ نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ اس آپریشن میں نیوی کے 10 ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں پانی پھینکنے والے نظام بھی نصب ہیں جبکہ دیگر سی 130 طیارے بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

مقامی میڈیا کے مطابق پینٹاگون حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ کیونکہ یہ آگ عام طور فائر فائٹنگ سیزن کے دوران نہیں لگی، اس لیے کچھ سی 130 طیاروں میں دوبارہ موڈیلر ایئر بورن فائر فائٹنگ سسٹم کے یونٹس فٹ کیے گئے ہیں تاکہ ان کارگو طیاروں کو فائر فائٹنگ کے قابل بنایا جا سکے۔

دوسری جانب ہمسایہ ملک میکسیکو کی جانب سے امریکہ میں اس آگ سے نمٹنے کے لیے 70 فائر فائٹرز اور ریلیف ورکرز بھیجے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمسایہ ملک کینیڈا کی جانب سے فائر فائٹرز بھیجے گئے ہیں جبکہ امریکہ کی دیگر ریاستوں کے فائر فائٹنگ محکموں سے بھی اہلکاروں کو لاس اینجلس بھیجا گیا ہے۔

گورنر نیوسم کی جانب سے سنیچر کو کہا گیا ہے کہ انھوں نے لاس اینجلس میں کیلی فورنیا نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا کر 1700 کر دی ہے۔

انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ‘ہم اس آگ کے خلاف ردِ عمل دینے کے لیے وسائل جمع کر رہے ہیں۔ کیلی فورنیا نیشنل گارڈ کے مرد و خواتین دن رات کام کر کے لاس اینجلس کے رہائشیوں کی اس ضرورت کے وقت میں مدد کر رہے ہیں۔’

fire

،تصویر کا ذریعہReuters

اس وقت جیل سے باہر ان قیدیوں کو نارنجی یونیفارم میں کیلیفورنیا ڈپارٹمنٹ آف فوریسٹری اینڈ پروٹیکشن (سی ڈی سی آر) کے فائر فائٹرز کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں سی ڈی سی آر کا کہنا تھا کہ یہ قیدی ’آگ بھجانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہاں موجود ہر قسم کی آتش گیر چیز کو آگ کی راہ سے ہٹا رہے ہیں۔‘

قیدیوں کا یہ رضاکار پروگرام 1946 میں شروع کیا گیا تھا اور اس معاملے ہر لوگ تنقید بھی کرتے ہیں اور اس کی حمایت بھی کرتے ہیں۔

fire

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیلیفورنیا کی حکومت ان قیدیوں کو روزانہ پانچ سے 10 ڈالر اُجرت دیتی ہے اور انھیں کسی بھی ہنگامی حالت میں کام کرنے کے لیے اضافی ایک ڈالر دیا جاتا ہے لیکن انھیں ملنے والے اُجرت حکومتی فائر فائٹرز کو ملنے والی تنخواہ سے بہت کم ہے جو کہ سالانہ لاکھوں ڈالرز کماتے ہیں۔

رائل رامی نامی ایک سابق قیدی کہتے ہیں کہ ’آپ لوگوں (قیدیوں) کو اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں چند کوڑیاں ملتی ہیں۔‘

‘اگر آپ آگ بھجانے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں تو آپ کو کوئی فوائد نہیں ملتے۔ آپ کو کوئی انعام نہیں ملے گا اور نہ ہی آپ کو ایک فائر فائٹر تسلیم کیا جائے گا۔’

تاہم رامی کہتے ہیں کہ یہ کم اُجرت بھی باقی ریاستی جیلوں میں مشقت کے ذریعے ملنے والی رقم سے زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان فائر کیمپس میں ‘پِکنک جیسا ماحول’ ہوتا ہے اور یہاں کیلیفورنیا میں دیگر جیلوں کے مقابلے میں کھانا بھی بہتر ملتا ہے۔

سی ڈی آر سی کا کہنا ہے کہ ان کیمپس میں شرکت کرنے والے قیدی کچھ خدمات کے ذریعے اپنی قید کا دورانیہ بھی کم کروا سکتے ہیں۔

تاہم سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو اس پروگرام کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔

رامی کہتے ہیں کہ جیل سے رہائی کے بعد ریاستی کیمپس میں تربیت حاصل کرنے والے قیدی اکثر فائر فائٹنگ کی ملازمت کے لیے اپلائی کرتے ہیں لیکن انھیں ملازمت پر نہیں رکھا جاتا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہاں توہین یا ہتک کا عنصر موجود ہے۔ جب لوگ فائر فائٹر کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے دماغ میں ایک ہیرو کی تصویر آتی ہے نہ کہ کسی ایسی شخص کی جو جیل میں بند رہا ہو۔’

لاس اینجلس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رامی نے اسی سب کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک ادارے کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد قیدی فائر فائٹرز کے مسائل کو حل کرنا اور کیلیفورنیا میں فائر فائٹرز کی کمی کو پورا کرنا تھا۔

اس وقت لاس اینجلس میں پانچ مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے مِیں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

ریاستی حکام نے وسائل کی کمی کے سبب سات ہزار 500 ایمرجنسی ورکرز کو دور دراز علاقوں سے بھی بُلوا لیا ہے، جن میں نیشنل گارڈ اور کینیڈا سے بلوائے گئے فائر فائٹرز بھی شامل ہیں۔

وہاں لگی آگ پر قابو پانا اس وقت بھی مشکل ہو رہا ہے اور پیلیسیڈز اور ایٹون نامی آگ نے 35 ہزار ایکڑ زمین کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔

SOURCE : BBC