SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عمر دراز ننگیانہ
- عہدہ, بی بی سی اردو، لاہور
-
15 منٹ قبل
یہ گذشتہ برس جولائی کی بات ہے جب لاہور کے علاقے راجہ بولا ہیر سے نورین شہزادی نامی ایک بیوہ خاتون غائب ہو جاتی ہیں۔
رات کے ایک پہر اس خاتون کو اپنے موبائل فون پر ایک کال موصول ہوتی ہے۔ وہ گھر والوں کو خاندان کی باہم پہچان کے ایک شخص کا نام بتا کر نکلتی ہیں کہ اس سے مل کر وہ واپس آ جائیں گی لیکن وہ واپس نہیں آتیں۔
ان کی والدہ 58 سالہ کوثر پروین اور بہن بھائی ان کو تلاش کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
ان کی والدہ کوثر پروین پولیس کو اطلاع کرتی ہیں، پولیس کہتی ہے کہ اپنے طور پر تلاش کریں۔ وہ اس شخص کے خلاف پولیس کو درخواست دینے کی کوشش کرتی ہیں جن سے ان کی بیٹی آخری مرتبہ ملنے کا کہہ کر گئیں تھیں لیکن پولیس عدام شواہد کی بنا پر کارروائی نہیں کرتی۔
کوثر پروین اپنی کوشش جاری رکھتی ہیں۔ وہ پولیس کے اعلیٰ افسران کے دفتروں میں جاتی ہیں۔ لگ بھگ تین ماہ کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ پھر ایک رات بالکل اسی طرح جیسے نورین شہزادی غائب ہوئی تھیں، کوثر پروین بھی غائب ہو جاتی ہیں۔
ان کے موبائل فون پر کال آتی ہے اور پھر رات گئے وہ گھر میں کہیں نہیں ملتیں۔ ان کی دوسری بیٹی جو ان کے پاس آ کر رہ رہی تھیں وہ انھیں تلاش کرنے کی کوشش کے بعد پولیس کو اطلاع دیتی ہیں۔
پولیس مقدمہ درج کر کے تحقیقات کرتی ہے تاہم بیٹی نورین شہزادی کی طرح والدہ کوثر پروین کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان مقدمات کی فائلوں پر دھول جمنا شروع ہو جاتی ہے۔
تاہم حال ہی میں پنجاب پولیس میں منظم اور خطرناک جرائم کی روک تھام کے لیے قائم ہونے والے ادارے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی پنجاب کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس فاروق اصغر اعوان کو مخبر کے ذریعے ایک سراغ ملتا ہے کہ ’یہ ماں بیٹی دونوں قتل ہو چکی ہیں۔‘
مخبر دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا شک لاہور کے علاقے فیض آباد کے ایک رہائشی محمد یوسف پر ہے لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ ماں بیٹی کی لاشیں کہاں گئیں۔
ڈی ایس پی فاروق اصغر اعوان ہی نے اس کیس پر کام کا آغاز کیا۔
سی سی ڈی کے سپرانٹنڈنٹ آف پولیس آفتاب احمد پھلروان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے جب ابتدائی تحقیقات کے بعد شواہد جمع کر کے محمد یوسف سے پوچھ گچھ کی تو ’اس نے اعتراف کر لیا کہ اس نے دونوں ماں بیٹی کو قتل کیا، ٹوکے اور لکڑی کی مڈھی کی مدد سے ان کی لاشوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور ایک ایک کر کے نہر میں بہا دیے۔‘
پولیس کے خیال میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد دونوں ماں بیٹی کی لاشوں کے باقیات ملنا لگ بھگ ناممکن ہو چکا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ملزم نے نورین شہزادی کو کیسے قتل کیا؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ایس پی سی سی ڈی آفتاب احمد پھلروان نے بی بی سی کو بتایا کہ دوران تفتیش ملزم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے بہانے سے نورین شہزادی کو فیض آباد میں واقع اپنے ڈیرے پر بلایا۔
’یہاں اس نے خاتون کو کوئی نشہ آور چیز پلائی جس سے وہ بے ہوش ہو گئیں۔ اسی بے ہوشی کی حالت میں ملزم نے خاتون کے ساتھ ریپ کیا۔ اس کے بعد اس نے بے ہوشی ہی میں خاتون کی گردن کاٹ دی۔‘
ملزم نے اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے خاتون کی لاش کو بوری میں بند کیا اور دوست ہی کی گاڑی میں ڈال کر وہ اسے پل بلوچاں ننکانہ صاحب کے قریب کالونی نہر پر لے گئے۔
ایس پی سی سی ڈی آفتاب احمد پھلروان کے مطابق ملزم نے پولیس کو بتایا کہ نہر پر پہنچ کر ملزم نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ’چھری، ٹوکے اور قصائیوں والی لکڑی کی مڈھی کی مدد سے لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے۔‘
اس کے بعد وہ ایک ایک کر کے ان ٹکڑوں کو نہر میں بہاتے رہے۔ رات ہی میں انھوں نے تمام لاش کو اسی طرح ٹھکانے لگایا اور وہاں سے چلے گئے۔
لیکن ملزم نے خاتون کو اس قدر سفاکی سے کیوں قتل کیا؟
پولیس نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے اس کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی اور اس نے اپنے اعترافی بیان میں پولیس کو بتایا کہ نورین شہزادی کی ملزم کی دوسری بیوی کے ساتھ دوستی تھی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے بتایا کہ ’اسے خاتون کے کردار پر شک تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کی بیوی کو بھی خراب کر رہی تھیں۔‘
اس نے پولیس کو بتایا کہ اس کے خیال میں ’نورین شہزادی ملزم کی بیوی کے کان بھرتی تھیں جس کی وجہ سے ان میاں بیوی کا جھگڑا ہوا اور بات اس قدر آگے چلی گئی کہ ان کی بیوی ان سے خلع لینے عدالت چلی گئیں۔‘
ایس پی سی سی ڈی آفتاب احمد پھلروان نے دعویٰ کیا کہ ’ملزم کا کہنا تھا کہ اسے اس بات پر نورین شہزادی پر شدید غصہ تھا۔ پھر ایک روز اس نے خاتون کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے بہانے سے نورین کو اپنے ڈیرے پر بلایا اور انتہائی سفاکانہ طریقے سے قتل کر دیا۔‘
ملزم نے خاتون کی والدہ کو کیوں قتل کیا؟
لگ بھگ سات برس قبل راجہ بولا میں آ کر کرائے کے گھر میں رہنے سے پہلے کوثر پروین اور ان کا خاندان بھی فیض آباد کے علاقے میں قیام پذیر تھا۔ وہیں سے نورین شہزادی کے خاندان اور ملزم محمد یوسف کے خاندان کی جان پہچان ہوئی تھی۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ تفتیش کے دوران ملزم نے بتایا کہ نورین شہزادی کی والدہ انھیں تلاش کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی تھیں اور ’آرام سے نہیں بیٹھ رہی تھیں۔‘ خاتون کی والدہ کوثر پروین پولیس کے سامنے یوسف پر شک کا اظہار بھی کر چکی تھیں۔
ایس پی سی سی ڈی آفتاب پھلروان کے دعوے کے مطابق ملزم کو خوف محسوس ہوا کہ ان کے ہاتھوں قتل ہونے والی نورین شہزادی کی والدہ پولیس کی مدد سے قتل کا سراغ لگانے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔
’اس نے والدہ یعنی کوثر پروین سے فون پر بات کی اور انھیں جھانسہ دے کر اپنے ڈیرے پر بلایا کہ وہ نورین شہزادی کو تلاش کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے انھیں بتایا کہ اس نے کوثر پروین کو بھی بے ہوش کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر دیا۔ پہلے ہی کی طرح اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان کی بھی لاش کے ٹکڑے کر کے اسے نہر میں بہا دیا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’اگر لاش نہ ملے تو سزا نہیں ہو سکتی‘
ایس پی سی سی ڈی آفتاب احمد پھلروان کے مطابق پولیس نے ملزم کی نشاندہی پر اس کے باقی دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ملزمان کے بتانے پر پولیس نے آلۂ قتل یعنی وہ چھری، ٹوکہ اور مڈھی بھی مرکزی ملزم کے ڈیرے پر ایک سٹور سے برآمد کر لیے ہیں۔
ایس پی سی سی ڈی پنجاب آفتاب احمد پھلروان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جب ملزم سے پوچھا گیا کہ اس نے اس قدر سفاکانہ طریقے سے قتل اور اس کے بعد لاشوں کی بے حرمتی کیوں کی تو اس نے پولیس کو بتایا کہ اس معلوم تھا کہ ’اگر لاش نہ ملے تو سزا نہیں ہو سکتی۔‘
ان کے خیال میں پولیس کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ لاشوں کے کسی بھی حصے کو تلاش کیا جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے تمام تر فرانزک شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔ پولیس نے جیو فینسنگ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تمام تر ریکارڈ حاصل کیا۔
اس کی مدد سے محمد یوسف کا نورین شہزادی سے آخری رابطہ اور پھر تین ماہ بعد اسی طرح ان کی والدہ سے آخری رابطے کی تصدیق ہوئی۔
پولیس کے مطابق گاؤں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے خواتین کو ملزم کے ڈیرے پر جاتے دیکھا اور پھر وہاں سے وہ واپس نہیں آئیں۔
’لیکن پولیس کی مشکل یہ ہے کہ لوگ گواہ بننے کے لیے سامنے نہیں آتے۔ انھیں خوف ہوتا ہے کہ اس طرح ان کی دشمنی پڑ جائے گی۔‘
ایس پی سی سی ڈی آفتاب پھلروان کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے نظام عدل میں قتل ثابت کرنے کے لیے لاش کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ عدالتیں ملزم کو سزا نہیں سناتیں۔
ملزم کی ’پولیس مقابلے‘ میں ہلاکت
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کیس کے مرکزی ملزم محمد یوسف پولیس کے زیر تفتیش تھا جب حال ہی میں اس نے ایک کانسٹیبل کو دھکا دے کر خود کو آزاد کروایا اور فرار ہو گیا۔
ایس پی سی سی ڈی پنجاب آفتاب احمد پھلروان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کی دوبارہ گرفتاری کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔
’تین روز بعد تھانہ صدر ننکانہ صاحب کے علاقے میں اس کا پولیس سے سامنا ہو گیا۔ اس کو پکڑنے کی کوشش پر پولیس اور مرکزی ملزم اور اس کے ایک ساتھی کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جب فائرنگ ختم ہوئی تو ملزم محمد یوسف زخمی حالت میں پولیس کا ملا جبکہ اس کا ساتھی فرار ہو گیا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ زخمی محمد یوسف کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا جب اس کی موت ہو گئی جس کی تصدیق ہسپتال جا کر ہوئی۔
ایس پی سی سی ڈی آفتاب پھلروان نے بتایا کہ مرکزی ملزم کے باقی دو ساتھی جن کو اس کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا وہ تاحال جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں جن سے مزید تفتیش جاری ہے۔
خیال رہے کہ یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم کے باوجود پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے ہوں بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا متعدد مرتبہ رپورٹ ہو چکا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا واقعی لاش نہ ملے تو سزا نہیں ہوتی؟
فوجداری معاملات کے قانونی ماہر اور وکیل مستنصر نذر گھگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لگ بھگ تمام ایسے مواقع ہر جہاں لاش موجود نہ ہو، عدالت سے ملزم کو سزا دلوانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
’اس کو عدالتیں ایک نادیدہ واقعے یعنی ایک ایسے واقعے کے طور پر دیکھتی ہیں جس میں سرکم سٹینشل ایویڈینس یا قرائنی شہادت موجود ہی نہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق عدالت کے لیے یہ ضروری ہے کہ لاش کا کوئی ایسا حصہ موجود ہو جس کے ڈی این اے معائنے سے اس شخص کی موت کی تصدیق کی جا سکے۔
’اب تو عدالتیں زیادہ تر اقبال جرم یا کنفیشن کو بھی ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتیں چاہے وہ عدالت کے سامنے ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔‘
وکیل مستنصر نذر گھگھ کے مطابق عدالتیں چاہتی ہیں کہ استغاثہ تمام تر شواہد کے ساتھ اپنا مقدمہ ثابت کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت کم لیکن ایسے واقعات موجود ہیں جہاں قاتل نے لاش کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔ اس کی ایک مثال لاہور ہی میں اپنے دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے وکیل شہباز تتلا کا کیس ہے۔
اس میں قاتل نے ان کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر پگھلا کر مکمل طور پر ختم کر کے تیزاب کو بھی ضائع کر دیا تھا تاہم اس میں فرانزک کی بنیاد پر عدالت نے قاتل کو عمر قید کی سزا سنائی۔
’کوئی بھی چیز ماورائے عدالت ہلاکت کا جواز نہیں بن سکتی‘
وکیل مستنصر نذر گھگھ کہتے ہیں کہ ماضی میں بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ایسے بہت سے ملزمان جن کے بارے میں یہ امکان ہوتا تھا کہ ان کو عدالت سے سزا نہیں مل پائے گی وہ پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں۔
’زیادہ تر ہم نے دیکھا ہے کہ بچوں کے ساتھ ریپ یا زیادتی، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور قتل کی ایسی وارداتیں جہاں ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی ہوں ان میں زیر حراست ملزمان پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔‘
عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح رواں سال سرائے عالمگیر میں چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل میں ملوث ملزم 16 جنوری 2025 کی رات پراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا تھا۔
وکیل مستنصر نذر کے مطابق لگ بھگ ایسے تمام واقعات میں پولیس کا طریقہ کار ایک جیسا ہوتا ہے جس میں ملزمان ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ‘ سے مارے گئے۔
ان کے خیال میں کوئی بھی چیز ’چاہے ثبوت کا ناکافی ہونا یا جرم کی نوعیت کسی بھی قسم کے کسٹوڈیئل ٹارچر یا ماورائے عدالت قتل کا جواز نہیں بن سکتی۔‘
وہ کہتے مقامی اور اقوام متحدہ کے قوانین پولیس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تاہم وہ کہتے ہیں کہ حال ہی میں بہت سے ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں حقیقی پولیس مقابلوں میں لوگ مارے گئے اور ان کو بھی ماورائے عدالت ہلاکت کا رنگ دیا گیا۔ ان کے خیال میں ایسے واقعات کی تحقیقات ہونا ضروری ہوتا ہے۔
بی بی سی نے چند روز قبل اس حوالے سے متعدد پولیس افسران سے بات چیت کی جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس مقابلے کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور ٹھوس شواہد کے باوجود ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟
SOURCE : BBC