SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, زنارا رتھنائیکے
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
-
35 منٹ قبل
سری لنکا میں ہمارے بچپن کے دوران وہاں کرسمس ویسی نہیں ہوتی تھی جیسے یورپی ممالک میں ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی یہ بھرپور لطف کا وقت ہوتا تھا۔ یہ ایسا وقت تھا جب سپر مارکیٹس میں کرسمس ٹری لگائے جاتے تھے اور گھروں کو ’سنو مین‘ کی تصاویر کے ساتھ سجایا جاتا تھا۔ بچے کرسمس کے گیت گاتے تھے اور راتوں کو برقی قمقمے جگمگاتے تھے۔
لیکن میرے لیے کرسمس کی بہترین چیز وہ روایتی سری لنکن مٹھائی تھی جس کا نام ’لوو کیک‘ ہے۔ پھل، خشک میووں کے ساتھ ہلکا ترش ذائقہ۔ یہ مزے دار کیک محبت اور اُنسیت کی علامت ہے۔
کرسمس سے جڑی میری سب سے پرانی یادداشتیں اسی ’لوو کیک‘ کے ساتھ جڑی ہیں، جب میری والدہ تحفے میں ملے کیک کے ٹکڑے کے گرد لپٹے کاغذ کو اُتارتی تھیں۔
پہلے پہل یہ کیک براؤن اور بورنگ لگتا ہے لیکن پھر آپ اس کی خوشبو کے جھونکے سے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس کی مہک پھول، مسالے اور کھٹاس کا ملاپ لگتی ہے۔
اس کیک کو سوجی، کاجو اور کدو کے مربے سے بنایا جاتا ہے اور اس میں الائچی، دارچینی، لونگ، جائفل، لیموں کا چھلکا، عرق گلاب اور شہد شامل کیے جاتے ہیں۔
یہ باہر سے خستہ جبکہ اندر سے نرم ہوتا ہے۔ یہ کیک کھا کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ گھر پر گرم جوشی کے ساتھ کسی سے بغل گیر ہو رہے ہوں۔
سری لنکن شیف دھنائے ولیمز کا کہنا ہے کہ لوو کیک کی کہانی کئی صدیوں پرانی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسے نوآبادیاتی دور میں 16ویں صدی کے سری لنکا یعنی سیلون میں پہلی بار بنایا گیا تھا۔ اس کی ترکیب پرتگالی اور ڈچ کھانوں سے متاثرہ ہے۔ یہ ملک اُس دور میں سری لنکن ساحلوں پر مسالوں کی تجارت کنٹرول کرتے تھے۔ یوں اس کیک کی پیدائش مقامی ذائقوں اور روایتوں کے ملاپ سے ہوئی۔
ولیمز نے بتایا کہ یہ کیک بیکنگ سے متعلق پرتگالی روایات سے متاثرہ ہے اور اسے محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس میں اتنا سارے اجزا ہیں جو اسے اس کی منفرد خوشبو اور ذائقہ دیتے ہیں۔
دراصل کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سری لنکن لوو کیک کی ابتدا پرتگالی کیک بولو ڈی ایمور (لوو کیک) سے ہوئی جو دیکھنے میں اسی کی طرح کا ہے۔ ولیمز کہتی ہیں کہ پرتگال سے آئے لوگوں اور تاجروں نے نئے اجزا، طریقے اور تراکیب متعارف کرائیں جو مقامی لوگوں نے اپنا لیں۔ مثلاً مقامی لوگوں نے کدو کے مربے کو متبادل اجزا کے طور پر استعمال کیا اور انھوں نے کاجو اور جائفل جیسی چیزیں شامل کر کے اسے سری لنکن لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول بنا لیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کیک میں تمام اجزا اسے خوشبو دار بناتے ہیں جبکہ عرق گلاب کی مہک اسے رومانوی بنا دیتی ہے۔
برطانوی فوڈ رائٹر اور فوٹوگرافر رنجی تھنگیا کا خاندان سری لنکا سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عرق گلاب کا اضافہ عرب ملکوں سے متاثرہ لگتا ہے۔ ’جب پرتگال اور سپین پر اندلس کے مسلمانوں کا قبضہ تھا تو اس وقت کے کیکس میں اسے شامل کیا جانے لگا۔‘
مگر اس کیک کو ’لوو کیک‘ کا نام ہی کیوں ملا؟ اس بارے میں کئی کہانیاں اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک افسانوی کہانی سے جڑا ہے جس میں سری لنکن خواتین پرتگالی ملاحوں کے لیے کیک بنا کر اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرتی تھیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تھنگیا کے مطابق ایک دوسری کہانی کے مطابق اس میں کاجو، مکھن اور مسالوں جیسے اجزا ہیں جو اتنے مہنگے اور نایاب ہیں کہ آپ صرف اپنے محبوب کے لیے استعمال کریں۔
ولیمز کا کہنا ہے کہ کئی شیفس اور ہوم بیکرز کا خیال ہے کہ لوو کیک تیار کرنا ’محبت اور صبر‘ کا کام ہے تو شاید اسے لیے اس کو یہ نام ملا۔ ’اس میں بڑی محنت لگتی ہے۔ آپ کو اجزا میں توازن قائم کرنا ہوتا ہے اور بڑا غور درکار ہوتا ہے۔ اس سے اپنے پیاروں کے لیے وہ احتیاط جھلکتی ہے جو اسے اور بھی خاص بنا دیتا ہے۔‘
روایتی طور پر یہ کیک کرسمس پر بنایا جاتا ہے۔ انھیں وہ لوگ بناتے ہیں جن کے آباؤ اجداد نیدرلینڈز سے آئے اور سری لنکن اقلیتی برداریوں سنہالا اور تمل میں شادیاں کیں۔ تاہم سری لنکا کی مختلف برادریوں، ساحلوں پر رہنے والے اور بیرون ملک شہریوں نے اسے اپنایا ہے۔ تھنگیا شمال مغربی لندن میں پلے بڑھے۔ ان کی تمل والدہ لوو کیک کو خاص تقاریب پر بناتی تھیں۔ ’وہ صرف تب یہ کیک بناتی تھیں جب انھوں نے ظاہر کرنا ہوں کہ وہ ہم سے کتنی محبت کرتی ہیں۔‘
جیسے جیسے نسلی لکیریں مٹتی جا رہی ہیں لوو کیک کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ ولیمز کا کہنا ہے کہ اسے تحفے میں دیا جاتا ہے اور کرسمس کے موقع پر دوستوں کے درمیان شیئر کیا جاتا ہے۔ یہ کیک اکثر شادیوں اور سالگرہ کے دوران بنایا جاتا ہے اور اسے ’محبت اور خوش قسمتی کی علامت کے طور پر دیا جاتا ہے، خاص طور پر نئے جوڑے اور خاندان کے نئے مہمان کو۔‘
اکثر خاندان اس ترکیب میں اپنے اپنے ذائقے شامل کرتے ہیں جیسے شہد، برانڈی یا بادام کا جوہر۔ خاندانی روایات کی سخت حفاظت کی جاتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ولیمز کے مطابق چونکہ یہ ذائقہ میں بھرپور اور شدید ہوتا ہے اسی لیے لوو کیک کو اکثر چھوٹے ٹکڑوں میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔
سری لنکا میں پلے بڑھے ولیمز ہمیشہ ساحل پر واقع بیکریوں سے لوو کیک خریدتے تھے۔ لیکن جب وہ آسٹریلیا میں اپنے شوہر سے ملیں تو انھوں نے اپنے نئے خاندان کو زیادہ تر تہواروں پر لوو کیک تیار کرتے دیکھا۔ انھیں اپنی ساس سے ترکیب سیکھنا یاد ہے جو 1930 کی ترکیب کا حوالہ دیتی تھیں۔ لیکن اس میں پیمائش پاؤنڈز میں تھی جس سے الجھن پیدا ہوتی تھی کیونکہ وہ الگ میٹرک سسٹم (پیمانے) کی عادی تھیں۔
اس لیے ولیمز نے سری لنکا کی کُک بکس کو پلٹتے اور دوست احباب سے پوچھ پوچھ کر لوو کیک کی ایک نئی ترکیب تیار کی۔ انھوں نے وقت کے ساتھ اس میں مہارت حاصل کر لی۔
ان کے بقول ’میری ساس کہتی تھیں کہ لوو کیک کی تین تہیں ہونی چاہییں۔ اوپر کی تہہ کرسٹ کی طرح ہونی چاہیے، درمیانی نرم اور آخری سخت۔‘
کرسمس کے دوران ولیمز اپنی ساس کے ساتھ لوو کیک بناتی تھیں۔ لیکن جب سے ولیمز نے آن لائن آرڈر لینا شروع کیے ہیں تب سے چیزیں بدل گئی ہیں۔ ’بعض اوقات میری ساس مجھے حکم دیتی ہیں۔ اس لیے میں زیادہ خیال رکھتی ہوں کیونکہ وہ سخت ترین نقاد ہیں۔‘
اگرچہ لوو کیک بنانا مشکل ہے تاہم ولیمز نے اس کے لیے منظم طریقہ وضع کیا ہے۔ وہ 10-15 کلو کاجو کو ہاتھ سے پستی ہیں جو ’سب سے مشکل کام‘ ہے اور اس میں ’کوئی شارٹ کٹ نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ چینی اور انڈوں کو ملانے کے لیے کیک مکسر کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ آپ کو ہاتھ سے ہلانے کی ضرورت نہ پڑے۔‘
ولیمز نے مزید کہا کہ اس پر مہارت میں وقت لگتا ہے لیکن یہ وقت کے ساتھ آسان ہوجاتا ہے جب آپ ’صحیح ذائقہ اور تسلسل سیکھ جائیں۔‘
میں نے سری لنکا کا روایتی لوو کیک بنانا سیکھا اور اندازہ ہوا کہ یہ خیر سگالی اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔
’آخری بار میں نے اسے اپنی شادی پر پیش کیا تھا جو میری ساس نے بنایا تھا اور ہم نے ہر مہمان کو ایک ٹکڑا ساتھ لے جانے کے لیے بھی دیا تھا۔‘
SOURCE : BBC