SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, سوامی ناتھن نترانجن
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
-
ایک گھنٹہ قبل
آرزو کھرانہ نے ملک میں چیتوں کی 56 آماجگاہوں کا دورہ کرنے کے لیے انڈیا بھر میں 203 دن کا سفر کیا۔ آرزو کا خیال ہے کہ وہ پہلی شخص ہیں جس نے یہ سفر کیا۔
30 سالہ آرزو کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ چیتے مختلف علاقوں اور خطوں میں رہ سکتے ہیں مگر اس کا خود سے مشاہدہ کرنا بالکل مختلف تجربہ ہے۔‘
انھوں نے وائلڈ لائف فوٹوگرافی کو ایک مشغلے اور شوق کے طور پر شروع کیا تھا لیکن اب نئی دہلی کی رہنے والی یہ وکیل کمرہِ عدالت کی بجائے جنگل میں زیادہ وقت گزارتی ہیں۔
بچپن سے ہی فوٹوگرافی کا شوق
بچپن سے ہی آرزو کو فوٹو گرافی کا شوق تھا اور 15 سال کی عمر میں انھوں نے اپنے والد کو کیمرہ دلانے پر راضی کیا تھا۔ یونیورسٹی دور میں انھوں نے اپنی پہلی وائلڈ لائف فوٹوگرافی ورکشاپ میں شرکت کی تھی۔
انھوں نے تقریباً 12 سال پہلے ایک جنگلی چیتا اس وقت دیکھا تھا جب وہ جنوبی انڈیا میں اپنے خاندان کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے گئی تھیں۔
وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ ایک نہایت ہی اچھا اور پرجوش لمحہ تھا۔ ایک مادہ چیتا آئی اور ہماری سفاری والی گاڑی کے ارد گرد چکر کاٹنے لگی۔ پھر اس نے گھاس پر ادھر ادھر اور درختوں کے گرد چکر لگائے۔‘
آرزو نے شبہ ظاہر کیا کہ چیتوں کے تحفظ کا قریب سے مطالعہ کرنے والے بھی، انڈیا میں چیتوں کی ایک درجن مشہور آماجگاہوں تک ہی گئے ہیں اور شاید وہ چیتوں کی کم معروف آماجگاہوں سے واقف نہیں۔
اس بات نے انھیں تحریک دی کہ وہ ذاتی طور پر انڈیا میں چیتوں کی تمام محفوظ آماجگاہوں کا دورہ کریں۔
ان کے اس سفر میں ان کے ساتھ ٹائیگر ٹریکر یعنی چیتوں کی کھوج لگانے والا شخص اور ایک ویڈیو ایڈیٹر بھی شامل تھا۔ وہ مسلسل سوشل میڈیا پر اپنے اس سفر کی مختلف ویڈیوز ڈالتی رہیں اور اس طرح وہ اپنے اس سفر کے اخراجات اٹھانے میں کامیاب ہوئیں۔
چیتوں کی چند غیر معروف آماجگاہوں کو جانے والے راستے بہت خستہ حال ہیں اور وہاں رہائش کے لیے بنیادی سے ہوٹل موجود ہیں۔ بعض اوقات تو انھیں کھلے آسمان تلے کیمپ میں رہنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سفر میں کھانا ملنا بھی ایک چیلنج تھا۔ ایک سبزی خور ہونے کی وجہ سے شمال مشرقی انڈیا میں انھیں کھانے کے لیے بہت کم چیزیں دستیاب تھیں اور بعض اوقات تو انھیں دہلی میں گھر سے پکا کر لائے کھانے پر ہی گزارا کرنا پڑا۔
مزید چیتے
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
چیتے انڈیا کے رقبے کے تقریباً پانچویں حصے میں پائے جاتے ہیں لیکن محفوظ پناہ گاہیں ملک کے تین فیصد حصے سے بھی کم یا تقریباً 82,000 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں۔ اس کے باوجود، حکومت کی جانب سے چیتوں کے تحفظ کی کوششیں تیز کرنے کے بعد 2006 میں ریکارڈ کی گئی 1411 کی تاریخی کم تعداد سے بڑھ کر ان چیتوں کی 2023 میں تعداد تقریباً 3,600 تک ہو گئی۔
مگر اس کے باوجود چیتا نظر آنے کے لیے آپ کا خوش قسمت ہونا ضروری ہے اور آرزو اپنے سفر کے دوران تقریباً 30 چیتوں کو دیکھ پائی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ریزرو میں، جنگل کے اہلکاروں نے مجھے بتایا کہ اگر خدا بھی آ کر ہمیں بتائے کہ اس نے شیر دیکھا ہے، تو ہم اس پر یقین نہیں کریں گے۔ کاغذوں پر یہ ایک ٹائیگر ریزرو ہے لیکن اس میں کوئی چیتا نہیں۔‘
ٹائمز آف انڈیا کی شائع کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں چیتوں کی پانچ محفوظ پناہ گاہوں میں کوئی چیتا نہیں اور سات میں صرف ایک چیتا ہے۔
آرزو نے جب وسطی انڈیا سے جنوبی انڈیا کا سفر کیا تو تقریباً چھ ہفتے تک وہ ایک بھی چیتا دیکھنے میں ناکام رہیں۔ جنوبی انڈیا میں کچھ جنگل پہاڑی علاقوں پر واقع ہیں اور ان میں گھنے درخت اور جھاڑیاں ہیں جو چیتوں کو چھپے رہنے میں مدد دیتی ہیں۔
مگر جب انھوں نے چیتوں کو دیکھا تو انھیں ان کی نایاب حرکات دیکھنے کا موقع ملا۔
نایاب حرکتیں
ملک کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے بندھو گڑھ ٹائیگر ریزرو میں، آرزو نے ایک چھ سالہ مادہ چیتے کو تین سالہ نر چیتے کو لبھانے کی کوشش کرتے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ مادہ چیتوں میں پہل کرنا بہت کم ہوتا ہے۔
اسی جنگل میں انھوں نے ایک مادہ چیتے کو ایک نر چیتے پر دھاڑتے اور غصے سے اسے جھٹکتے بھی دیکھا جو اس کے ساتھ جنسی ملاپ کرنا چاہتا تھا۔
مغربی انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا کے علاقے تودابا میں انھوں نے ایک ایسا منظر بھی دیکھا جہاں ایک مادہ چیتا اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ موجود تھی۔
جنگل کے گارڈز نے آرزو کو اس مادہ چیتے کے متعلق بتایا تھا جس نے حال ہی میں ان بچوں کو جنم دیا تھا۔ جب ان کی ٹیم اسے دیکھنے پہنچی تو مغرب سے عین پہلے ان کے ایک ساتھی نے بندر کی آواز سنی جو شاید چیتے کے لیے ایک انتباہی پیغام تھا اور اس وقت ان کا اس چیتے کے بہت قریب سے مشاہدہ ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ مادہ چیتا اپنے منھ میں اپنے بچوں کو دبائے جا رہی تھی۔ اس مادہ چیتے کا نام کترینا رکھا گیا اور پھر اس نے اچانک سے ایک چھوٹے بچے کو سڑک پر چھوڑ دیا جو بہت ہی پیارے انداز سے تیزی تیزی سے چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
آرزو کہتی ہیں کہ عمومی طور پر مادہ چیتا اپنے بچوں کو تین ماہ سے پہلے باہر نہیں نکالتی کیونکہ یہ ان کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’وہ لمحہ بہت ہی دلچسپ تھا کیونکہ اس تمام وقت کے دوران مادہ چیتا انتہائی دفاعی حالت میں تھی، وہ ڈری بھی ہوئی تھی اور بیک وقت وہ یہ سوچ رہی تھی کے اب کیا کیا جائے اور آپ یہ تمام تاثرات پڑھ سکتے تھے۔‘
انسانوں اور چیتوں کا آمنا سامنا اکثر کسی سانحے کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں سنہ 2019 سے 2023 کے درمیان تقریباً 349 افراد کو چیتوں نے ہلاک کیا۔
حکام اکثر آدم خور چیتوں کو نشہ آور ادویات دے کر ان کی جگہ بدل دیتے ہیں اور کبھی تو انھیں مار بھی دیتے ہیں۔ بعض اوقات مقامی افراد انھیں زہر دے کر مارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
گنگا کے ڈیلٹا میں مینگروو کے جنگل میں کشتی پر قیام کے دوران آرزو نے سیکھا کہ لوگ چیتوں کے حملوں کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں۔
’سندربن میں، میں نے آدم خور چیتے کے بارے میں سنا لیکن لوگ اس کے ساتھ ٹھیک ہیں۔ انھوں نے قبول کر لیا ہے کہ انسان شیر کی خوراک کا حصہ ہیں۔‘
ٹائیگرز کو کراہنے، گرجنے، دھاڑنے، ہچکیاں لینے اور ہانپنے کے لیے جانا جاتا ہے لیکن شکار کے دوران وہ عام طور پر خاموشی سے حملہ آور ہوتے ہیں۔
آرزو کا قیاس ہے کہ چیتوں کے حملے وہاں کے منفرد ماحولیاتی نظام کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان علاقوں کے راستے مشکل ہیں، وہاں چیتے عموماً کمزور اور چھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ زمین پر گرد اور کیچڑ بھی ہوتا ہے لہذا چیتے دوڑ یا چھلانگ نہیں مار سکتے۔‘
آرزو جنگلات کی کٹائی، جنگلاتی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر، انسانی تجاوزات، پلاسٹک کے کچرے، آوارہ مویشیوں اور آوارہ کتوں سے بھی پریشان ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر جنگلات میں کمی ہو رہی ہے۔‘
چیتے علاقائی جانور ہیں اور ان کی اچھی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے متنوع شکار کی ضرورت ہے۔ کچھ جگہوں پر چیتوں کی آبادی اب بھی غیر مستحکم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’وہ جگہیں جہاں 40 سے 50 ٹائیگرز کو رکھا جا سکتا ہے اب وہاں 80 ٹائیگرز ہیں۔ یا تو ٹائیگرز آپسی لڑائی میں مارے جائیں گے یا بفر زون سے باہر آنے پر گاؤں والوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔‘
آرزو کمیونٹی کی قیادت میں سیاحت کی توسیع چاہتی ہے۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ چیتوں کے تحفظ کے لیے مقامی سطح پر آبادی کی شمولیت ان چیتوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اہم ہے۔
اب وہ فوٹو نمائشیں منعقد کر رہی ہیں، جس میں چیتوں کے ساتھ ساتھ دوسرے نایاب ممالیہ اور پرندوں کی نمائش بھی کی جا رہی ہے جنھیں انھوں نے اکتوبر 2023 سے اپریل 2024 کے درمیان اپنے سفر کے دوران عکس بند کیا تھا۔
انڈین حکومت نے حال ہی میں وسطی انڈیا میں ایک اور ٹائیگر ریزرو بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ آرزو کا اگلا ارادہ وہاں جانے کا ہے۔ وہ لوگوں اور فطرت کے درمیان ایک پل بن کر رہنا چاہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں آؤں گی، ٹھہروں گی، فوٹو کھینچوں گی اور پھر انھیں (لوگوں کو) دکھاؤں گی کہ جنگل میں کتنی خوبصورت چیزیں ہیں۔‘
SOURCE : BBC