SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہINSTAGRAM
- مصنف, عماد خالق، محمد زبیر خان اور محمد کاظم
- عہدہ, بی بی سی اردو
-
ایک گھنٹہ قبل
’کراچی سے کوئٹہ کی پرواز کا اتنا وقت نہیں تھا جتنا وقت ہمیں فضا میں معلق رکھا گیا۔ ہم تقریباً دو گھنٹے خوف میں رہے، کئی لوگوں کی حالت غیر ہو گئی تھی۔‘
یہ کہنا ہے ڈاکٹر فیروز اچکزئی کا جو 18 مئی کو نجی ایئر لائن فلائی جناح کی پرواز پر کراچی سے کوئٹہ کا سفر کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز کراچی سے کوئٹہ جانے والی فلائی جناح کی پرواز کو مبینہ طور پر کوئٹہ ایئرپورٹ پر گرد آلود و تیز ہواؤں کے باعث لینڈنگ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ پرواز چوتھی مرتبہ لینڈنگ کی کوشش میں رن وے پر اترنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر طیارے کی لینڈنگ میں تاخیر سے متعلق متضاد دعوے سامنے آئے۔ بعض مسافروں کی جانب سے کہا گیا کہ جب جہاز کا پائلٹ تیز ہواؤں کے باعث جہاز کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا تو اس دوران جہاز ہچکولے کھا رہا تھا اور یہ کہ متعدد مسافروں کی دوران پرواز طبیعت بھی خراب ہو گئی تھی۔
اگرچہ اس پرواز کے بارے میں کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے ایکس پر دعویٰ کیا کہ ’مجھے مطلع کیا گیا کہ صرف 11 منٹ کا ایندھن بچا تھا‘ تاہم فلائی جناح نے اس کی تردید کی گئی ہے۔ جبکہ سول ایوی ایشن کے حکام کا کہنا ہے کہ تاحال اس پرواز سے متعلق کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے۔
پائلٹ نے لینڈنگ کی متعدد کوششیں کیں
اس پرواز کے مسافر ڈاکٹر فیروز اچکزئی نے اس تجربے کے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا بتایا کہ ’کراچی سے پرواز نے اپنے مقررہ وقت پر تقریباً صبح گیارہ بج کر 20 منٹ پر اڑان بھری اور تقریباً 12 بج کر 40 منٹ پر کوئٹہ ایئر پورٹ پر تھی۔ جب طیارے نے لینڈنگ کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا تو جہاز دوبارہ فضا میں چلا گیا۔‘
ڈاکٹر فیروز اچکزئی کہتے ہیں کہ ’اس دوران دوبارہ کوشش کی گئی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ اب طیارہ ممکنہ طور پر تیز ہوا کی وجہ سے ہچکولے لے رہا تھا جس کے باعث مسافروں میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لوگ کلمہ پڑھ رہے تھے۔‘
ڈاکٹر فیروز اچکزئی کہتے ہیں کہ ‘خراب موسم کے باعث لینڈنگ نہ ہونا بڑی بات نہیں ہے مگر جہاز کے کپتان کی جانب سے بار بار لینڈنگ کی کوشش کرنے کا مجھے پہلی مرتبہ تجربہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی فضائی سفر کیے اور ایسی صورتحال پیش آئی جس پر جہاز کو دوسرے ایئر پورٹ پر اتار لیا گیا تھا۔‘
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس دوران جہاز میں موجود مسافروں میں اضطراب پیدا ہو گیا تھا۔ ’کچھ لوگ بہت ڈر گئے تھے۔ کچھ کلمہ اور قران کی تلاوت کر رہے تھے۔ جہاز کے اندر ایک خوف کا ماحول تھا۔‘
اکٹر فیروز اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ ’اس دوران جہاز میں ایئر کنڈیشن سسٹم بھی بند ہو گیا تھا اور اس وجہ سے بھی کئی لوگوں کی حالت خراب ہو گئی تھی۔‘

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈاکٹر سہیل خان بھی اسی پرواز کے مسافر ہیں۔ وہ گذشتہ روز اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ کراچی سے کوئٹہ سفر کر رہے تھے۔
ڈاکٹر سہیل خان کا کہنا تھا کہ ‘جب پرواز کوئٹہ پہنچی تو جہاز نے پہلی مرتبہ لینڈنگ کی کوشش کی اور اتنا نیچے آگیا کہ اس وقت ہمارے موبائل سگنلز آ گئے تھے۔ پھر یک دم پتا نہیں کیا ہوا جہاز نے ایک دم رفتار تیز کی اور دوبارہ بلند ہو گیا۔ شہر کے گرد چکر لگانے کے بعد جہاز کے کپتان نے دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی مگر پھر کامیابی نہیں ہوئی۔”
ڈاکٹر سہیل خان کا کہنا تھا کہ ‘اس دوران ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ جہاز کے کپتان کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ مگر جب دوسری مرتبہ لینڈنگ کی کوشش ناکام ہوئی تو مسافروں نے پریشانی کے عالم میں جہاز کے عملے سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا ہو رہا ہے؟’
ڈاکٹر سہیل خان کہتے ہیں کہ ‘اس وقت جہاز کے کپتان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ جہاز بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف خراب موسم کے باعث لینڈنگ میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ وہ تیسری کوشش کرنے لگے ہیں اور اگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ جہاز کو واپس کراچی لے جائیں گے۔’
ڈاکٹر سہیل کا کہنا ہے کہ ‘تیسری کوشش کی گئی وہ بھی ناکام ہوئی جس کے بعد ہمیں لگا کہ اب کراچی واپس جائیں گے۔ مگر جہاز دوبارہ تھوڑی دیر تک فضا میں رہا اور پھر اچانک لینڈنگ شروع کر دی گئی۔’
انھوں نے جہاز کے کپتان کی جانب سے کراچی واپس نہ جانے پر گمان کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ شاید جہاز میں اتنا ایندھن نہیں تھا یا شاید کپتان نے لینڈنگ کرنے کو اپنی ضد بنا لیا تھا۔ معاملہ جو بھی ہو اس دوران جہاز میں موجود بزرگ، خواتین، بچوں کی حالت غیر ہو چکی تھی۔’

،تصویر کا ذریعہPCAA
جہاز میں ایندھن کی کمی کے متضاد دعوے
اس واقعے پر کمشنر کوئٹہ محمد حمزہ شفقت نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کوئٹہ میں معجزانہ لینڈنگ! فلائی جناح کا طیارہ شدید گرد و غبار کے طوفان کے دوران چار بار لینڈنگ کی کوشش کرتا رہا جبکہ ایندھن بھی کم ہو رہا تھا۔ شکر ہے کہ چوتھی کوشش کامیاب رہی اور ممکنہ تباہی سے بچاؤ ہو گیا۔ پی آئی اے کی پرواز کو تیز آندھی کی وجہ سے کراچی موڑ دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسافروں کے بے ہوش ہونے کی خبریں درست نہیں ہیں۔ الحمدللہ، سب محفوظ ہیں۔‘
تاہم ان کی جانب سے ایسا دعویٰ بھی سامنے آیا کہ اس پرواز میں ایندھن کم تھا، اس لیے پرواز کو واپس کراچی نہیں بھیجا گیا بلکہ جہاز کا کپتان لینڈنگ کی کوشش کرتا رہا۔ انھوں نے پاکستان سول ایویشن سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم جہاز میں ایندھن کم ہونے کے دعوؤں پر بی بی سی نے جب فلائی جناح کے ڈائریکٹر عاطف سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا کچھ نہیں تھا’ اور یہ کہ وہ فی الحال اس سے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس متعلق اپنا تفصیلی بیان بعد ازاں جاری کریں گے تاہم تحریر کی اشاعت تک انھوں نے بی بی سی کو کوئی بیان یا موقف نہیں دیا۔
اس بارے میں پاکستان سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر سیکورٹی اور ترجمان شاہد قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاز میں ایندھن کم ہونے کا ‘سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے متعلق ان کے پاس کوئی ایسی اطلاعات یا شکایت نہیں ہے تاہم وہ اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
اگرچہ انھوں نے کہا کہ ‘فلائی جناح بین الاقوامی معیار کے مطابق آپریشنز انجام دے رہی ہے اور سول ایوی ایشن تمام معاملات کی نگرانی کر رہی ہے اور ایسے میں جہاز میں ایندھن کی کمی ہونا ممکن نہیں۔’
کوئٹہ ایئرپورٹ پر سول ایوی ایشن کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ روز کوئٹہ میں تیز ہوائیں چل رہی تھیں جبکہ گردوغبار بھی تھا، اس صورتحال کے باعث وزیبلٹی (حدنگاہ) کم تھی جبکہ ہوا کا دباؤ زیادہ تھا۔
سول ایوی ایشن کے اہلکار نے بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ان دعووں کی تردید کی کہ لینڈنگ سے قبل طیارے میں دس سے پندرہ منٹ کا ایندھن رہ گیا تھا۔
کوئٹہ ایئرپورٹ پر لینڈنگ مشکل کیوں؟
سول ایوی ایشن کے اہلکار نے بتایا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ کے اطراف میں پہاڑ ہیں اور اس باعث یہاں ہوا تیز ہوتی ہے، اس لیے یہاں ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
کوئٹہ ایئرپورٹ پر سول ایوی ایشن کے اہلکار کے مطابق ’ایسے موسم میں گو ٹچ ایک روٹین کا عمل ہوتا ہے۔ اس نے تین بار کوشش کی لیکن ہوا تیز ہونے کی وجہ سے وہ نہیں اتر سکا تاہم چوتھی مرتبہ جب ہوا کا دباؤ کم ہوا تو پھر پائلٹ نے جہاز کو اتار دیا۔‘
سول ایوی ایشن کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ‘یہ لینڈنگ کی کوشش اس وقت خطرناک ہوتی جب جہاز کے ٹائر رن وے کو چھوتے اور وہ پھر اوپر جاتا لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا بلکہ پائلٹ نے فضا میں ہی تین بار اترنے کے لیے نیچے آنے کی کوشش کی لیکن جب لینڈنگ ممکن نہیں ہوئی تو وہ فضا ہی سے دوبارہ بلندی پر گیا۔’
انھوں نے مزید بتایا کہ فلائی جناح کا طیارہ ‘چھوٹا تھا، اس لیے پائلٹ نے اس کو چالیس منٹ تک فضا میں رکھا جب ہوا کا دباؤ کم ہوا تو پائلٹ نے اس کو اتار دیا۔’
اس سوال پر کہ بعض پروازوں کی لینڈنگ یہاں معمول کے مطابق ہوئی جبکہ بعض کو واپس موڑ دیا گیا ایسا کیوں ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ‘طیاروں میں ٹیکنالوجی کا فرق ہوتا ہے اور ٹیکنالوجی بہتر ہو تو کم وزیبلٹی میں بھی جہازوں کو اتارنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔’
اس بارے میں کمرشل پائلٹ اور پالپا کے عہدیدار کیپٹن طارق یحییٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کوئی بھی پائلٹ جان بوجھ کر مسافروں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالتا۔’
کپیٹن طارق کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ایئر لائن اور سول ایویشن میں کچھ ایسے اصول و ضوابط ہیں جن پر دنیا بھر کے ادارے اور ایئر لائنز عمل کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کا ایئرپورٹ ایک مشکل ایئرپورٹ اس لیے ہے کیونکہ وہ ایک وادی میں ہے اور وہاں ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ رن وے کے قریب جو ہوا کا دباؤ یا جہاز کو ٹربیولنس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کو تکنیکی طور پر ونڈ شیئر کہا جاتا ہے۔ ونڈ شیئر جہاز کے اڑان بھرنے یا لینڈنگ کے دوران بہت اہم حصہ ہوتی ہے اور تربیت کے دوران اس پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ زمین کے قریب ونڈ شییر ایک خطرناک عمل ہے اور اس سے جہاز کی پرفارمنس پر بہت اثر پڑتا ہے۔ ‘اگر زمین کے قریب ونڈ شیئر زیادہ ہو تو 99 فیصد یہ عالمی پالیسی ہے کہ اس دوران آپ نہ لینڈ کرتے ہیں اور نہ ہی اڑان بھرتے ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ فلائی جناح سمیت دنیا بھر کی ایئرلاینز کی یہ پالیسی ہے کہ اگر ونڈ شیئر زیادہ ہے تو آپ یا تو کسی اور زاویے سے لینڈنگ اپروچ بنائیں یا پھر کسی متبادل ایئر پورٹ پر لینڈ کریں۔
کیپٹن طارق یحییٰ کہتے ہیں کہ اگرچہ کوئٹہ ایئرپورٹ پر رن وے تو طویل ہے مگر پہاڑوں کی وجہ سے وہاں ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے اور آپ کو پہاڑوں کی بجائے دوسری طرف سے لینڈنگ اپروچ کرتے ہیں کیونکہ وہاں لینڈنگ آلات لگے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لینڈنگ کے وقت ٹیل ونڈ کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ ٹیل ونڈ لینڈنگ کے وقت جہاز کے پیچھے سے آنے والی ہوا کے دباؤ یا رفتار کو کہا جاتا ہے۔ بوئنگ 777 یا اے 320 ایئربس کی ٹیل ونڈ کی حد 15 ناٹ ہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار 15 ناٹ سے زیادہ ہو تو آپ لینڈ نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی جہاز متعدد لینڈنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے جہاز کے کپتان کے پاس بہت زیادہ مضبوط وجہ ہونی چاہیے۔ مگر اس کا سب سے بہتر فیصلہ اس صورتحال میں جہاز کا پائلٹ یا کپتان ہی کر سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہINSTAGRAM
’متبادل ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے لیے طیارے میں ریزرو فیول ہوتا ہے‘
سول ایوی ایشن کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر طیارے میں اتنا ایندھن ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے منزل مقصود پر نہ اترنے کی صورت میں وہ دوسرے شہر آسانی سے جاسکتا ہے۔ ‘جیسا کہ اسلام آباد سے آنے والے پی آئی اے کی پرواز کی صورت میں ہوا جب اس نے کوئٹہ ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کیا تو اس میں اتنا ایندھن تھا کہ وہ یہاں سے کراچی گیا۔’
کیپٹن طارق یحییٰ بتاتے ہیں کہ ٹیک آف سے لینڈنگ تک جہاز کے اندر اتنا ایندھن ہوتا ہے کہ وہ باآسانی کہیں اور بھی لینڈ کر سکے۔ ‘اگر کوئٹہ میں کسی وجہ سے لینڈنگ نہیں ہو سکتی تو متبادل ایئرپورٹ تک جانے کا ایندھن طیارے میں موجود ہوتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ طیارے میں لینڈنگ کی کوششوں کے ساتھ ساتپ متبادل ایئرپورٹ تک جانے کا ریزرو فیول ہوتا ہے۔ ‘ایئرلائنز کی عموما یہ پالیسی ہے کہ جہاں بات ریزرو فیول تک جاتی ہے تو آپ اپنے متبادل ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہیں۔’
SOURCE : BBC