SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, رقیہ بللے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
48 منٹ قبل
مغربی افریقہ کے ملک سینیگال کے ایک گاؤں میں جیسے ہی شام کے سائے ڈھلتے ہیں تو فضا سریلے نغموں کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہے۔ یہ مذہبی گیت رنگ برنگے پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس مقامی مسلمان گاتے ہیں۔
ان کے فرقے کو ’باے فال‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باے فال کے پیروکار ایک مسجد کے باہر تنگ دائروں کی صورت میں جمع ہوتے ہیں اور جھوم جھوم کر پوری طاقت سے مذہبی گیت گاتے ہیں۔ ایک ساتھ وہ اپنی آوازوں کو بلند اور پھر ایک ہی ساتھ دھیما کرتے ہیں۔
اُن کے پس منظر میں ایک چھوٹی سا آگ کا آلاؤ روشن ہوتا ہے جس سے ابھرنے والے شعلوں کا عکس عبادت میں مصروف ان افراد کے رنگ برنگے کپڑوں پر ظاہر ہوتا ہے اور محو رقص ان کے سائے دلکش منظر پیدا کرتے ہیں۔
جب اس دوران وہ جھومتے ہیں تو اُن کی پشت پر موجود اُن کی چوٹیاں (زلفیں) بھی ہوا میں لہراتی ہیں۔ اس مقدس رسم کے دوران جوش عقیدت اور پسینے سے اُن کے چہرے دمکتے نظر آتے ہیں۔ اس تقریب کو ’سام فال‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ جشن کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
ورد کی اس تقریب کے دوران چند شرکا پر حال طاری ہو جاتا ہے۔ یہ عمل لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہتا ہے اور ہفتے میں دو بار منعقد ہوتا ہے۔
لیکن ’باے فال‘ کسی بھی دوسرے مسلم گروپ، گروہ یا فرقے سے مختلف ہے۔
سینیگال بنیادی طور پر مغربی افریقہ کا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور اس فرقے کے پیروکار سینیگال کی ایک کروڑ 70 لاکھ آبادی کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہیں۔
لیکن ان کی مختلف حلیہ انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے جبکہ ان کے غیر روایتی طرز عمل کی وجہ سے بعض لوگ انھیں اسلام سے بہت دور بھٹکا ہوا گروہ بھی مانتے ہیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
باے فال کے پیروکار پنج وقتہ نمازوں اور رمضان المبارک کے روزوں کے بجائے سخت محنت اور سماجی خدمت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے عقیدے میں جنت محض منزل نہیں بلکہ درحقیقت دنیا میں محنت کرنے والوں کا انعام ہے۔
ان کے مطابق دوسرے مسلمان اُن کے بارے میں اکثر غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور ان کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اس فرقے کے پیروکار شراب اور چرس وغیرہ جیسے نشے کرتے ہیں۔ تاہم باے فال کے مطابق یہ سب اُن کے اخلاق کا حصہ نہیں ہے۔
گروپ کے ایک رہنما مام سامبا نے بی بی سی کو بتایا کہ باے فال کمیونٹی کا فلسفہ کام اور محنت پر مبنی ہے۔ ’یہ ایک صوفیانہ قسم کا کام ہے جہاں محنت ہی اپنے آپ میں خدا کے لیے عقیدت کا درجہ رکھتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ چاہے وہ تپتے سورج تلے کھیتوں میں ہل چلانا ہو یا سکول بنانا، یا ساز و سامان بنانا، سب کام روحانی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مطابق کام محض فرض نہیں ہے بلکہ یہ ایک قسم کا مراقبہ ہے، یہ حرکت میں عبادت کی ایک شکل ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں ہی میں اُن کے فرقے کے بانی ابراہیم فال کی پہلی ملاقات شیخ احمدو بامبا سے ہوئی تھی جنھوں نے 19ویں صدی میں مورائیڈ بھائی چارہ نامی ادارہ قائم کیا، جو صوفی اسلام کی ایک شاخ ہے اور سینیگال میں ایک بااثر کردار ادا کرتی رہی ہے۔
فرقے کے بانی ابراہیم فال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مکمل طور پر خود کو بامبا کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا اور اس کے لیے وہ اکثر اپنی ذاتی ضروریات جیسا کہ کھانا پینا، روزہ، نماز اور اپنا خیال رکھنے کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔
اُن کے پیروکار بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے کپڑے بوسیدہ اور پیوند سے بھر گئے جو ان کی بے لوث عقیدت کے عکاس تھے۔ اس طرح باے فال فلسفہ اور پیوند لگے کپڑے پہننے کی روایت کی ابتدا ہوئی۔
اپنے مذہبی رہنما کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لیے انھوں پیوند والے لباس کو اپنایا جسے مقامی زبان میں ’ایندیگویل‘ کہتے ہیں۔
باے فال کی اس ثقافت کا اظہار اس گاؤں کے ایک کارخانے میں بھی نظر آتا ہے جہاں اس فرقے کے پیروکار ایک ساتھ مل کر پیوندکاری والے خوبصورت لباس بناتے ہیں۔ ان میں ان کی تخلیقی صلاحیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
خواتین سادہ کپڑوں کو مختلف رنگوں کے برتنوں میں ڈبو کر خاموشی سے اپنا کام کرتی ہیں۔ ہر بار کپڑے کو ان رنگوں میں غرق کرنے کے ساتھ کپڑا بھرپور گہرے رنگوں کی تہوں کو جذب کر لیتا ہے جو آہستہ آہستہ دیدہ زیب رنگ برنگے کپڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اور پھر اس فرقے کے مرد ان رنگے ہوئے کپڑوں کو محتاط انداز میں اٹھا کر مہارت سے سلائی کرتے ہوئے انھیں ایسے لباس میں تبدیل کر دیتے ہیں جو بے فال کی الگ شناخت کا عملی نمونہ اور ظاہری اظہار ہیں۔
لباس کی تیاری کے ساتھ ہی وہاں کی فضا ان کے مقصد سے بھر جاتی ہے جس میں فن کاری اور محنت کا امتزاج نظر آتا ہے اور جو ان کی لگن کا آئینہ دار ہے۔ اس کے بعد ان تیار شدہ کپڑوں کو سینیگال کے بازاروں میں پہنچایا جاتا ہے جو ان کے معاش کا حصہ ہے اور ان کی برادری کے فلسفے کو دور دور تک پہنچاتا ہے۔
مسٹر سامبا بتاتے ہیں ’باے فال کا انداز اوریجنل ہے۔‘ اُن کے والد باے فال فرقے کے ایک شیخ تھے اور سینیگال میں مذہبی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پیچ ورک (یا پیوندکاری والے) لباس آفاقیت کی علامت ہیں۔ آپ مسلمان رہ کر بھی اپنی اس ثقافت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی اسے نہیں سمجھتا۔ ہمارا کہنا ہے کہ اگر آپ تنقید کو قبول نہیں کریں گے تو آپ ترقی نہیں کر سکتے۔‘
جب دوسرے مسلمان رمضان کے دوران طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ سے ہوتے ہیں تو باے فال والے ان کے لیے افطار تیار کر رہے ہوتے ہیں جس سے وہ مغرب کے وقت افطار کرتے ہیں۔
ان کی عقیدت صرف دستی کاموں تک محدود نہیں ہے۔
باے فال نے کوآپریٹیوز، سوشل بزنس اور غیر سرکاری تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جن کا مقصد دیہی سینیگال میں پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔ ان کے لیے کام صرف زندہ رہنے کا ذریعہ نہیں بلکہ روحانیت کا اظہار ہے۔
مسٹر سامبا بتاتے ہیں: ’ہمارے پاس کام کرنے کے لیے سکول، صحت کے مراکز اور سماجی ادارے ہیں۔ ہمارے زندگی کے فلسفے میں ہر چیز کو احترام، محبت اور فطرت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ماحولیات ہمارے پائیدار ترقی کے ماڈل میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔‘
لیکن اس گروپ کے چند پیروکاروں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے تنقید کا سامنا بھی ہے۔
ان کے عقیدے میں بھیک مانگنا ان کے نظام کے خلاف عمل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھیک میں ملنے والے پیسے اپنے رہنما تک پہنچاتے ہیں جو انھیں ان کی برادری کے فائدے کے لیے پھر سے تقسیم کر دیتے ہیں۔
اس ثقافت کے ماہر اورالیونے ڈیوپ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر شیخ سینے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حقیقی باے فال ہیں اور نقلی باے فال بھی ہیں جنھیں ہم ’باے فاکس‘ کہتے ہیں۔‘
دارالحکومت ڈکار جیسے شہری مراکز میں ایسے ’باے فاکس‘ کی موجودگی عام ہو گئی ہے۔
مسٹر سینے کہتے ہیں کہ ’یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری طرح کپڑے پہنتے ہیں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں لیکن کمیونٹی میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔‘
باے فال کی سخت محنت اور کمیونٹی کی خدمت پر زور کی سینیگال کی سرحدوں سے باہر بھی گونج رہی ہے۔
ان کے پیروکاروں میں ایک امریکی شہری کیٹن سایر سکیلن بھی شامل ہیں جو سنہ 2019 میں سینیگال آئی تھیں اور باے فال برادری میں شامل ہو گئیں۔ اس کے بعد انھیں سینیگالی نام فاطمہ بٹولی بہہ دیا گیا ہے۔ وہ شمالی افریقہ کے مرابط فرقے کے ایک فرد کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کو زندگی بدلنے والے لمحے کے طور پر بیان کرتی ہیں۔
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں: ’ایسا لگا جیسے ان کے جسم سے روشنی نکل رہی تھی۔ میرے دل نے سچائی کو پہچان لیا۔ یہ میرے لیے ایک گہری روحانی بیداری تھی۔‘
فاطمہ بہہ اب باے فال کے درمیان رہتی ہیں، اُن کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں اور اُن کی خدمت کے اخلاقیات کا پیکر بن رہی ہیں۔ وہ بین الاقوامی پیروکاروں کی ایک چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہیں جنھوں نے اس گروپ کے منفرد راستے کو اپنایا ہے۔
باے فال سینیگالی معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور معیشت کے لیے وسیع پیمانے پر زرعی سرگرمیوں میں بھی شامل ہے۔
ہر سال وہ مرابط کے موجودہ رہنما جنھیں خلیفہ یا عظیم الشان مرابط کہا جاتا ہے کی بیعت کرتے ہیں اور ان سے اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے وہ ان کو پیسے، مویشی اور فصلیں عطیہ کرتے ہیں۔
وہ سینیگال کے مقدس شہر طوبہ میں گرانڈے مسجد کی دیکھ بھال میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ مسجد مرابطوں کا مرکز ہے اور باے فال والے اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔
طوبہ میں وہ بڑی تقریبات کے دوران جامع مسجد میں غیر سرکاری سکیورٹی گارڈز کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان تقریبات میں سالانہ میگل زیارت بھی شامل ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں لوگ اُن کے شہر آتے ہیں۔
گارڈ کی خدمت کی انجام دہی کے دوران وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ لوگ معمولی لباس پہنے ہوئے ہوں، علاقے میں کوئی منشیات فروخت نہ ہو رہی ہوں اور خلیفہ کی بے حرمتی نہ کی جا رہی ہو۔
مسٹر سینے کہتے ہیں: ’باے فال نے ہمیشہ خلیفہ اور شہر کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔ جب باے فال آس پاس ہو تو کوئی بھی غلط کام کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔‘
کچھ لوگوں کی جانب سے ناپسندیدگی کے باوجود سینیگال کے ثقافتی اور مذہبی منظر نامے پر باے فال کا اثر بڑھ رہا ہے، حالانکہ انھیں روایت کو جدیدیت کے ساتھ متوازن کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 700,000 افراد کا تعلق باے فال فرقے سے ہے اور یہ فرقہ تیزی سے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر رہا ہے۔
محدود وسائل ان کے حوصلہ مندانہ منصوبوں میں رکاوٹ ہیں۔
اس کے باوجود ان کا نقطہ نظر واضح ہے۔ وہ پائیدار ترقی کے علمبردار ہیں جس کی جڑیں ایمان اور خدمت میں پیوستہ ہیں۔ یہ فرقہ سینیگال کے بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد میں سے کچھ کی مدد کر سکتا ہے جو روزی روٹی تلاش کرنے سے مایوس ہو چکے ہیں۔
خطرناک سمندری راستے سے یورپ جانے والے ہزاروں تارکین میں سے بہت سے سینیگال سے آتے ہیں۔
مسٹر سامبا کہتے ہیں کہ ’ہم مزید کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مزید روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سینیگال میں نوجوانوں کو اس کی ضرورت ہے۔‘
’ہمیں حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم مستقبل میں اس کی امید کرتے ہیں۔‘
مختصرا یہ کہ محنت ان کے لیے ملک کی معاشی اور روحانی دونوں ضروریات کا جواب ہے۔
SOURCE : BBC