SOURCE :- BBC NEWS

معمر قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ولید بدران
  • عہدہ, بی بی سی عربی
  • ایک گھنٹہ قبل

سولہ جنوری 1970 کے دن لیبیا کے وزیر اعظم بننے والے معمر قذاقی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کا اقتدار 42 سال طویل ہو گا اور اس کا انجام کیسا ہو گا۔

اپنے دور اقتدار میں انھوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کی مخالفت کو انتہائی بےدردی سے کچل کر رکھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے سامنے کوئی متبادل قیادت سامنے دکھائی نہ دی۔

اور پھر سنہ 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کا سیلاب کرنل معمر قذافی کو بھی بہا لے گیا۔

معمر قذاقی، جنھیں 20 اکتوبر سنہ 2011 کو باغیوں نے ہلاک کر دیا تھا، ایک بدو کسان کے بیٹے تھے لیکن وہ عرب دنیا کے بااثر رہنما کیسے بنے؟

فوج میں شمولیت اور ترقی

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق معمر قذاقی 1942 میں پیدا ہوئے اور ان کے والد ایک بدو کسان تھے۔ تاہم معمر قذاقی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بن غازی میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے پہنچے۔

سنہ 1961 میں ان کی سیاسی وابستگیوں اور نظریات کے باعث انھیں جامعہ سبھا سے نکال دیا گیا تھا۔

معمر قذافی نے اس دوران یونیورسٹی آف لیبیا سے لا کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں ان کے پاس لیبیا کی فوج میں بھرتی ہونے کا موقع تھا جس کے ذریعے اس وقت کے لیبیا میں نہ صرف بہتر تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی بلکہ کسی بھی فرد کے لیے ایک پرکشش معاشی موقعے کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔

اسی لیے شاید انھوں نے اعلی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔

معمر قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کا یہی فیصلہ تھا جس نے ایک دن انھیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ جوانی میں معمر قذافی مصر کے جمال عبدالناصر اور ان کی پالیسیوں کے مداح تھے۔

معمر قذافی نے بھی ان مظاہروں میں حصہ لیا جو انیس سو چھپن میں مصر کی جانب سے نہر سوئیز کو قومی تحویل میں لینے کے بعد برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے حملے کے خلاف عرب دنیا میں شروع ہوئے تھے۔

فوجی تربیت مکمل کر نے کے بعد 1965 میں معمر قذاقی کو مذید تربیت کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔

لیبیا کی فوج میں معمر قذاقی نے غیر معمولی تیزی سے ترقی کی اور اسی اثنا میں شاہی خاندان کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ فوجی تربیت کے دور سے ہی قذافی کے ذہن میں تھا اور بالآخر سنہ 1969 میں برطانیہ سے تربیت حاصل کر کے لوٹنے کے بعد انھوں نے بن غازی شہر کو مرکز بنا کر فوجی بغاوت کر دی اور خود لیبیا کے رہنما بن کر ابھرے۔

معمر قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بغاوت اور تیل

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یکم ستمبر 1969 کو کرنل قذاقی کی قیادت میں فوج نے لیبیا کے بادشاہ کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ خود قذاقی فوج کے کمانڈر ان چیف بن گئے اور ساتھ ہی ساتھ انقلابی کونسل کے نئے چیئرمین کی حیثیت سے ملک کے سربراہ بھی۔ لیکن انھوں نے کرنل کا رینک ہی لگائے رکھا۔

طاقت میں آتے ہی قذاقی نے امریکی اور برطانوی فوجی اڈوں کو ختم کرتے ہوئے 1970 میں ہی اطالوی اور یہودی آبادیوں کو بھی ملک بدر کر دیا۔ 1973 میں کرنل قذاقی نے ملک کے تیل کے تمام اثاثے قومی تحویل میں لے لیے۔ انھوں نے ملک میں شراب نوشی اور جوا کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔

اس دوران انھوں نے بین الاقوامی تیل کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو لوگ پانچ ہزار سال تک بغیر تیل کے زندہ رہے، وہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں مزید کچھ سال اور بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘

ان کی جانب سے کیا گیا یہ چیلنج کام کر گیا اور لیبیا ترقی پذیر ممالک میں وہ پہلا ملک بنا جس نے اپنی تیل کی پیداوار کا بڑا شیئر حاصل کر لیا۔ دوسرے عرب ممالک نے جلد اس نظیر کو جواز بناتے ہوئے سنہ 1970 کی دہائی میں عرب پیٹرو بوم یعنی عرب ممالک میں تیل کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔

معمر اور بھٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوں لیبیا ’کالے سونے‘ سے منافع حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں تھا کیونکہ یہاں تیل کی پیداوار باقی خلیجی ممالک جتنی تھیں لیکن افریقہ میں اس ملک کی کُل آباد صرف 30 لاکھ تھی، جو افریقہ میں بہت کم تھی۔ یوں تیل نے لیبیا کو بہت جلدی بہت امیر بنا دیا۔

کرنل قذاقی اسرائیل سے مزاکرات کے شدید مخالف تھے اور اسی وجہ سے وہ عرب دنیا میں ایک ایسے سربراہ بن کر ابھرے جنھوں نے مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو بھی مسترد کیا۔ قذاقی کی حکومت نے متعدد ہمسایہ ممالک میں بغاوت کی کوششوں کی مدد بھی کی۔

قذاقی کا نظریہ

1970 کے اوائل میں قذافی نے ایک کتاب، ’گرین بک‘، کے ذریعے اپنا سیاسی نظریہ پیش کیا جس میں اسلامی سوشلزم کو ترجیح دی جس کے تحت معاشی شعبوں کو قومی تحویل میں لینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔

اس کتاب کے مطابق معاشرے کے مسائل کا حل جمہوریت یا کسی اور نظام میں نہیں، جسے قذاقی نے سب سے بڑی جماعت کی آمریت کا نام دیا، بلکہ ان کے مطابق حکومت ایسی کمیٹیوں کے ذریعے کرنی چاہیے جو تمام چیزوں کی ذمہ دار ہوں۔

1979 میں قذاقی نے لیبیا کی باضابطہ قیادت تو چھوڑ دی لیکن ان کے دعووں کے برعکس، کہ وہ محض ایک انقلابی رہنما ہیں، طاقت اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہی رہے۔

بیرونی مداخلت، دھماکے اور پابندیاں

بین الاقوامی سٹیج پر کرنل قذاقی اور ان کی حکومت غیر متوقع رویے کی وجہ سے مشہور ہوئی کیوں کہ انھوں نے دنیا بھر میں مختلف گروہوں کو پیسہ فراہم کیا جن میں امریکی بلیک پینتھرز اور نیشن آف اسلام تک شامل تھے۔ قذافی نے شمالی آئرلینڈ میں آئرش رپبلکن آرمی کی بھی حمایت کی۔

لیبیا کے خفیہ ایجنٹ بیرون ملک ناقدین کو نشانہ بناتے رہے اور قذافی کی حکومت پر متعدد جان لیوا واقعات کا الزام لگا۔ پھر 1986 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو نہایت اہم موڑ ثابت ہوا۔

یہ واقعہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک ایسے کلب میں ہونے والا دھماکہ تھا جہاں امریکی فوجی جایا کرتے تھے۔ اس دھماکے کا الزام لیبیا کے ایجنٹوں پر لگا۔

امریکی صدر رونلڈ ریگن نے دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طرابلس اور بن غازی پر فضائی حملوں کا حکم دیا۔ تاہم بھاری نقصان اور شہریوں کی ہلاکت، جن میں مبینہ طور پر کرنل قذافی کی منھ بولی بیٹی بھی شامل تھیں، خود لیبیا کے طاقتور قذافی بچ نکلے۔

معمر قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس کے بعد 1988 میں پین ایم کا مسافر طیارہ سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی میں تباہ ہوا تو 270 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کا الزام بھی لیبیا پر عائد ہوا۔

لاکربی معاہدہ

قذافی نے ابتدا میں لاکربی دھماکے کے دو مشتبہ ملزمان کو سکاٹ لینڈ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو پابندیوں اور مزاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو 1999 میں اس وقت ختم ہوا جب قذافی نے ان دونوں کو آخرکار حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دوسرے کو بری کر دیا گیا۔

اگست 2003 میں لیبیا نے اقوام محتدہ کو لکھے جانے والے ایک خط میں اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور حادثے کے متاثرین کو تقریبا دو عشاریہ سات ارب ڈالر کا معاوضہ ادا کیا۔ اس کے جواب میں ستمبر 2003 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے لیبیا پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔

لیبیا نے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بھی ترک کر دیا اور 1989 میں تباہ ہونے والے ایک فرانسیسی مسافر طیارے کے ساتھ ساتھ برلن کلب کے متاثرین کو بھی معاوضہ ادا کیا۔

لاکربی

،تصویر کا ذریعہAFP

مغرب سے بہتر تعلقات

لاکربی معاہدہ اور کرنل قذافی کی جانب سے خفیہ جوہری اور کیمیائی پروگرام کا اعتراف اور اسے ترک کرنے کے اعلان نے مغربی طاقتوں سے بہتر تعلقات کا راستہ ہموار کر دیا۔

بین الاقوامی پابندیاں ختم ہو جانے کے بعد لیبیا کی بین الاقوامی سیاست میں واپسی ہوئی جس کے بعد متعدد رہنماوں، بشمول برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر، نے قذاقی کے شاندار محل میں ان کے بدو خیمے کا دورہ بھی کیا۔

یہ خیمہ کرنل قذافی کے بین الاقوامی دوروں میں ان کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ کا سفر کیا کرتا تھا۔ اس دور میں لیبیا نے مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں اور تیل کی کمپنیوں کے ساتھ متعدد کاروباری معاہدے کیے۔

منفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور کرنل قذافی اکثر ٹیلی ویژن پر خیموں میں مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔

کرنل قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مخالف انقلاب اور طاقت کا استعمال

فروری 2011 میں تیونس اور مصر میں عوامی مظاہروں نے زین العابدین اور حسنی مبارک کے طویل اقتدار کو ختم کیا تو لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بھی مظاہرے شروع ہو گئے۔

ملک بھر میں یہ سلسلہ پھیلنے کے بعد قذافی کی حکومت نے انھیں بزور طاقت ختم کرنے کی کوشش کی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین پر گولیوں چلانے سے لیکر مظاہروں کے خلاف لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹرز تک کا استعمال کیا۔

بین الاقوامی کمیونٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی لیبیا کی حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی جبکہ دوسری جانب خود کرنل قذافی کی حکومت کے سینئر عہدیداران بھی متنفر ہوتے چلے گئے۔ وزیر قانون مستعفی ہوئے اور متعدد سفیروں نے بھی حکومت کی مذمت کی۔

22 فروری کو کرنل قذافی نے سرکاری ٹی وی پر ایک خطاب میں مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے مظاہرین کو ’غدار‘ قرار دیا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اپوزیشن القاعدہ کی سرپرستی میں ہے اور مظاہرین نشہ آور ادویات استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ مظاہرین کے خلاف ان کا دفاع کریں۔

لیکن رفتہ رفتہ قذافی کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور ان کے مخالفین فروری کے آخر تک لیبیا میں بڑی علاقے پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد طرابلس کا بھی محاصرہ کر لیا گیا جہاں قذافی تنہا رہ چکے تھے اور ان پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔

26 فروری کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قذافی حکومت پر نئی پابندیاں عائد کر دیں اور ان کے خاندان کے اثاثے بھی منجمند کر دیے۔ 28 فروری کو اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ کرنل قذافی سے منسلک 30 ارب ڈالر کے اثاثے منجمند کیے جا چکے ہیں۔

اسی دن مغربی میڈیا کو دیے جانے والے انٹرویو میں کرنل قذافی نے دعوی کیا کہ عوام اب بھی ان سے محبت کرتی ہے اور انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ان کی حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ انھوں نے یہ دعوی بھی دہرایا کہ ان کے مخالفین القاعدہ کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔

کرنل قذاقی کی فوج نے بھی حیران کن طریقے سے بہت سے علاقے باغیوں سے واپس قبضے میں لے لیے۔ ایسے میں جب لیبیا کی فوج بن غازی کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 17 مارچ کو عسکری مداخلت کے لیے ووٹ دیا اور نیٹو کی جانب سے فضائی بمباری نے کرنل قذافی کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔

مارچ کے اواخر میں کرنل قذافی کی حکومت کو اس وقت بڑا دھچکہ پہنچا جب دو سینئر حکام نے وفاداری تبدیل کر لی۔ تاہم قذافی طرابلس پر کنٹرول رکھتے تھے اور انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کریں گے۔

30 اپریل کو نیٹو فضائیہ نے طرابلس میں قذافی کے باب العزیزیہ پر حملہ کیا جس میں ان کے چھوٹے بیٹے سیف العرب اور تین پوتے ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں قذافی کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئے۔ تاہم نیٹو نے اس الزام سے انکار کیا کہ وہ ایسی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں جس میں قذافی کو ہلاک کرنا مقصود ہے۔

لیبیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کرنل قذافی کی ہلاکت

27 جون کو قذافی، ان کے بیٹے اور انٹیلیجنس چیف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے جس کے بعد اگست میں باغی طرابلس میں داخل ہوئے اور 23 اگست کو قذافی کے ہیڈکوارٹر باب العزیزیہ کمپاوئنڈ پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ تاہم خود قذافی کا کچھ پتہ نہ تھا اور انھوں نے متعدد آڈیو پیغامات میں لیبیا کی عوام سے باغیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا کہا۔

باغیوں کی جانب سے قذافی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک عشاریہ سترہ ملین ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایسے میں سرت کا محاصرہ ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق کرنل قذافی نے اپنے چند حامیوں کے ساتھ عبوری کونسل کے جنگجوؤں کا محاصرہ توڑ کر نکلنے کی کوشش کی۔

کرنل قذافی اور ان کے ساتھی جو گاڑیوں میں سوار تھے لڑتے ہوئے مخالف جنگجوؤں کی صفوں میں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گاڑیوں کے اس قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کیا۔

نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔

سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔‘

سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔

لیبیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اطلاعات کے مطابق کرنل قذافی کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل پر جو فوٹیج نشر کی گئی اس میں قذافی شدید زخمی حالت میں تھے اور ان کے مخالف جنگجو اسی حالت میں ان کے ساتھ مار پیٹ کر رہے تھے۔ اس کے بعد واقعات کا جو سلسلہ ہے وہ واضح نہیں لیکن قومی عبوری کونسل کے وزیراعظم محمود جبرائیل نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ کرنل قذافی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی۔

محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔

محمود جبرائیل کے مطابق ڈاکٹر یہ تعین نہیں کر پائے کہ یہ گولی عبوری کونسل کے کسی جنگجو کی تھی یا کرنل قذافی کے حامی کی۔

بادشاہوں کے بادشاہ اور خلافت کا خواب

کرنل قذافی ایک آمرانہ حکمران تھے جنھوں نے چار دہائیوں تک لیبیا پر حکمرانی کی۔ ان کا خاندان تیل اور دیگر معاہدوں کی وجہ سے امیر ہوا اور کہا جاتا ہے کہ معمر قذافی کی پالیسیاں، جن کے تحت دولت تقسیم کی گئی، وفاداریاں خریدنے کے لیے تھیں۔

تاہم قذافی نے بہت سے بڑے منصوبے شروع کروائے جن میں سے ایک کے تحت ملک کے شمال میں پانی کی فراہمی کا انتظام کیا گیا۔ وہ اپنے لباس کے ساتھ ساتھ اپنے خطابات اور بیانات کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ ایک ایسے ہی بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ فسلطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک ہی ریاست میں اکھٹا ہو جانا چاہیے کیوں کہ زمین اتنی زیادہ نہیں کہ دو الگ الگ ریاستیں بن سکیں۔

ان کا یہ رویہ عرب لیگ کے اجلاسوں میں بھی دکھائی دیتا چاہے وہ سگار کا دھواں ہو یا پھر خود کو افریقہ کے ’بادشاہوں کا بادشاہ‘ قرار دینا۔

اگست 2008 میں افریقہ کے دو سو بادشاہوں اور سربراہان نے قذافی کو بن غازی میں یہ خطاب دیا تھا جہاں انھوں نے افریقہ کی ایک فوج، ایک کرنسی اور ایک پاسپورٹ بنانے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

وقت کے ساتھ قذافی کے نظریے بھی بدلتے رہے۔ آغاز میں انھوں نے عرب قوم کو یکجا کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور خود کو جمال عبدالناصر جیسے عرب قوم پرست رہنما کے طور پر پیش کیا تھا۔

لیکن جب ان کو اندازہ ہوا کہ یہ خواب پورا ہونا مشکل ہے تو انھوں نے افریقہ کی جانب دیکھنا شروع کیا اور خود کو افریقہ کے رہنما کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔

تاہم پھر ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے اسلامی دنیا کو توجہ کا مرکز بنایا اور یہ بھی کہا کہ شمالی افریقہ میں سنی اور اہل تشیع کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے دوسری فاطمی خلافت قائم کی جائے۔

SOURCE : BBC