SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی ہندی
-
ایک گھنٹہ قبل
ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ دی تھی، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ان کے پاس دنیا بھر میں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔
افغانستان میں ہی اسامہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس حملے میں قریب تین ہزار لوگ مارے گئے۔
ملا عمر پر لکھی گئی کتاب کی مصنفہ اور ڈچ صحافی بیٹی ڈیم کے مطابق ‘ہر طرف ملا عمر کی صرف ایک تصویر دیکھی گئی۔’
‘اس تصویر کے مصدقہ ہونے پر بھی اتفاق رائے نہیں۔ کوئی اعتماد سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ تصویر ملا عمر کی ہی ہے۔’
سر پر 20 لاکھ ڈالر کا انعام
اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ 2001 کے بعد ملا عمر کہاں گئے۔
افغان حکومت، امریکی حکومت اور امریکی میڈیا کا خیال ہے کہ وہ پاکستان میں رہ رہے تھے۔ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ افغانستان میں ہی موجود تھے۔
2001 کے بعد بار بار ملا عمر کی موت کی اطلاعات آتی رہیں۔ 2012 میں امریکی حکومت نے ان کے سر پر 20 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ملا عمر کی شناخت کچھ یوں کی گئی ہے:
بال: سیاہ
قومیت: افغان
شناختی علامت: دائیں آنکھ پر زخم
سوویت فوج پر راکٹ داغنے میں مہارت
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ایسا نہیں کہ ملا عمر شروع سے امریکہ کے دشمن تھے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب امریکی انھیں سوویت فوج کے خلاف لڑنے والے کارآمد شخص کے طور پر پہچانتے تھے۔
ملا عمر افغانستان کے شہر قندھار کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں ان کے والد کی وفات ہوگئی۔ وہ 22 سے 23 سال کے تھے جب انھوں نے سوویت فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔
بیٹی ڈیم لکھتی ہیں کہ ‘لڑائی کے دوران انھیں ‘راکٹی’ کی عرفیت ملی کیونکہ ان کے راکٹ صحیح نشانے پر لگتے تھے۔ ابتدا میں کئی افغان جنگجوؤں کے نشانے اتنے اچھے نہیں تھے جس سے معصوم شہریوں کی اموات ہوتی تھیں۔’
طالبان حکومت کے سابق وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل نے بیٹی ڈیم کو بتایا کہ ‘عمر سوویت فوجیوں کی نظروں میں آ گئے تھے۔ ایک بار انھوں نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ لمبے قد کا آدمی مارا گیا ہے۔ مگر یہ صرف ان کا خواب تھا کیونکہ لمبا آدمی (ملا عمر) فرار ہوچکا تھا۔’
‘بچپن میں ملا عمر شرارتی ہوتے تھے۔ لیکن پھر وہ خاموش طبیعت اور شرمیلے ہوگئے، خاص کر باہر والوں کی موجودگی میں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے تو دوسروں کی نقل اتارتے۔’
آنکھ پر چوٹ
اسی کی دہائی کے اواخر میں سوویت فوج کے خلاف لڑائی کے دوران ان کی ایک آنکھ پر گہرا زخم آیا۔
بیٹی ڈیم لکھتی ہیں کہ اس وقت سے ملا عمر اور ان کے ساتھی چھپ گئے کیونکہ انھیں سوویت فضائی حملے کا خدشہ تھا۔
وہ اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے جب سوویت فضائیہ نے بمباری کی۔ اس دھماکے میں قریبی مسجد تباہ ہوگئی۔ اس کے ملبے میں سے ایک چیز نے ملا عمر کی دائیں آنکھ کو زخمی کر دیا۔
ملا عمر تک پہنچنے میں ڈاکٹر کو پورا ایک دن لگا اور اس وقت تک مقامی ڈاکٹر نے ان کا علاج کیا۔ اس سے قبل اس ڈاکٹر نے ملا عمر کی کمر سے ایک گولی بھی نکالی تھی۔
بیٹی لکھتی ہیں کہ ‘اگرچہ سی آئی اے طالبان کی مدد کر رہی تھی، انھیں ہتھیار دے رہی تھی مگر وہاں طبی مدد کا انتظام نہیں تھا۔ جب ڈاکٹر ملا عمر تک پہنچے تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دھات کا ٹکڑا عمر کی آنکھ سے نکالا۔ وہ اپنی پگڑی سے ان کا خون روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر کی طرف سے طبی امداد کے بعد انھیں پاکستانی شہر کوئٹہ لے جایا گیا۔’
ریپ کرنے والے کمانڈر کو پھانسی کی سزا
1994 کے اوائل میں ملا عمر سے جڑی ایک کہانی کافی مشہور ہے جب ایک مقامی کمانڈر نے دو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کا ریپ کیا۔
30 جولائی 2015 کو سینڈی گال نے اخبار دی گارڈین کے لیے لکھا کہ ‘ملا عمر نے 30 نوجوان طلبہ کو جمع کیا، انھیں ہتھیار دیے اور کمانڈر کے ٹھکانے پر حملہ کیا۔ انھوں نے نہ صرف لڑکیوں کو آزاد کرایا بلکہ کمانڈر کے ٹینک کی بندوق کی نالی پر اسے پھانسی دی۔ بعد میں عمر نے کہا ہم ان مسلمانوں کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں جو گمراہ ہوگئے ہیں۔’
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں 75 ہزار سے 90 ہزار افغان شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 15 ہزار سوویت فوجی بھی مارے گئے۔
10 سال تک مجموعی طور پر 15 لاکھ افغان شہری ہلاک اور قریب 30 لاکھ لوگ زخمی ہوئے۔ کئی کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے اور وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے۔
بی بی سی کے صحافی سے ملاقات، انٹرویو دینے میں ہچکچاہٹ
جب بی بی سی کے نامہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی قندھار کے گورنر ہاؤس میں ملا عمر سے ملاقات کے لیے پہنچے تو اس وقت ملا عمر باغ میں پگڑی پہنے قیلولہ کر رہے تھے۔
اس پرتعش عمارت میں کئی کمرے اور ہال تھے مگر ملا عمر نے سیڑھیوں کے نیچے بغیر کھڑکی والے کمرے میں رہنے کو ترجیح دی۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک آئی ایس آئی افسر نے بیٹی ڈیم کو بتایا کہ ‘تمام طالبان رہنما کارپیٹ پر بیٹھ کر وہاں چائے پیتے تھے۔ ان کے قریب ایک آہنی ڈبہ تھا جہاں حکومت کے پاس تمام پیسہ رکھا جاتا تھا۔
‘بعض لوگ کہتے تھے ملا عمر کم ہی کپڑے بدلتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت شلوار قمیض میں نظر آتے ہیں۔ وہ سادہ خوراک کھاتے تھے، جیسے سوپ اور ابلے آلو۔ وہ تیزی سے یہ کھانا کھا لیتے تھے جیسے بہت بھوکے ہوں۔’
ملا عمر خوش گفتار نہیں تھے۔ وہ ایک بوڑھے ان پڑھ آدمی جیسے تھے۔ ان کی عادت تھی ایک لفظ کو بار بار دہرانا، جس سے لگتا تھا کہ وہ ہکلاتے ہیں۔
سنہ 1995 میں صحافی رحیم اللہ یوسفزئی دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے قریب سے ملا عمر کو دیکھا۔
بیٹی ڈیم لکھتی ہیں کہ ‘ملا عمر نے یوسفزئی کا استقبال کیا۔ وہ اکثر بی بی سی پشتو سروس پر انھیں سنتے تھے۔ لیکن انٹرویو دینے میں ہچکچاہٹ ظاہر کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ مائیک پر نہیں بول سکتے۔ انھوں نے زندگی بھر ایک بھی انٹرویو نہیں دیا تھا۔’
بڑی کوششوں کے بعد ملا عمر مان گئے مگر صحافی کو اپنے سوال اور ٹیپ ریکارڈر پریس کے مشیر عبدالرحمان ہوتکی کو دینے کا کہا گیا۔
اگلے روز عملا عمر نے تمام سوالوں کے جواب ریکارڈ کرائے۔ انھیں سن کر لگا جیسے انھیں جواب دینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ہوتکی نے بیٹی کو بتایا کہ ملا عمر نے بار بار کچھ جوابات ریکارڈ کرائے۔
ہوتکی نے بعض جواب کاغذ پر لکھے تھے مگر ملا عمر انھیں پڑھ نہیں پا رہے تھے۔
بیٹی کے مطابق یہ ٹیپ بعد ازاں کھو گئی اور اسے کسی بھی آرکائیو میں ڈھونڈا نہ جا سکا۔
گاڑی چلانے کا شوق
ملا عمر کو ڈرائیونگ کا شوق تھا۔ وہ اپنی سیٹ اوپر کر کے اسے سٹیئرنگ وہیل کے قریب کر لیتے تھے۔ مگر ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا۔
کئی بار وہ حادثے کا بھی شکار ہوئے۔ ان کے قریبی ساتھی آغا جان معتصم کہتے ہیں کہ ‘ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ گاڑی چلائیں مگر وہ ضدی تھے اور ڈرائیور کو ساتھ والی سیٹ پر بٹھا کر خود ہی کار چلاتے تھے۔’
‘حادثے کے بعد کئی بار وہ گیرج میں گاڑی ٹھیک ہونے کا انتظار کرتے تاکہ دوبارہ چلا سکیں۔’
جب لڑائی میں دونوں فریقین برابری پر ہوتے تو ملا عمر خود دیگر طالبان جنگجوؤں کی طرح لڑائی میں شریک ہوجاتے۔
مصنف احمد راشد نے اپنی کتاب ‘سٹوری آف افغان وار لارڈز’ میں لکھا کہ ‘اگر ملا عمر کی مرضی ہوتی تو وہ بنکر میں خود طالبان جنگجوؤں کے ساتھ لڑ رہے ہوتے لیکن ان کے کمانڈر ایسا نہیں چاہتے تھے۔ وہ انھیں کہتے تھے آپ لیڈر ہیں، کوئی سپاہی نہیں۔’
جدت سے دوری
جب طالبان پہلی بار کابل پہنچے تو ملا عمر کابل جانے کی بجائے قندھار میں ہی رہے۔ انھوں نے کابل میں روزمرہ کے امور ملا ربانی کے حوالے کیے۔
ملا ربانی کابل میں ایوان صدر میں رہتے تھے جو ان کے ہم نام برہان الدین ربانی نے چھوڑا تھا۔
طالبان کے پاس انتظامی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا اور اکثر لوگ نوجوان تھے۔
ملا ضعیف اپنی کتاب ‘طالبان کے ساتھ میری زندگی’ میں لکھتے ہیں کہ ‘ان میں سے کئی لوگوں کو صرف قرآن پڑھنا اور لڑنا آتا تھا۔ وہ بامشکل دستخط کر سکتے تھے۔ افسران کافی حیران ہوئے جب انھوں نے کمرے میں کرسیاں ہٹا کر وزرا کا اجلاس زمین پر میٹرس بچھا کر شروع کیا۔’
سینیئر طالبان رہنما کابل شہر میں گاڑیوں پر سفر کی بجائے پیدل چلتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ کابل میں اس وقت بہت کم گاڑیاں تھیں اور پیٹرول کی قیمت بھی زیادہ تھی۔
ملک میں تصاویر کھینچنے پر پابندی تھی، سوائے پاسپورٹ فوٹو کے۔ موسیقی سننا اور بجانا ممنوع تھا۔
کئی گاڑیوں کو روک کر ان سے کیسٹیں اور کیسٹ پلیئر ضبط کر کے توڑ دیے جاتے۔
افغانستان کے قومی کھیل بزکشی پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ شطرنج کھیلنا بھی ممنوع تھا اور لوگوں کے لیے فٹبال کھیلتے ہوئے آدھی پتلون کی بجائے پوری پتلون پہننا ضروری تھا۔
1996 میں سوڈان نے امریکی دباؤ میں اسامہ بن لادن کو ملک چھوڑنے کا کہا۔ ان کے پاس افغانستان کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔
بن لادن کے بیٹے عمر بن لادن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ‘جب ان کا جہاز افغانستان کی طرف جاتے ہوئے سعودی عرب کے اوپر سے اڑ رہا تھا تو ان کی تبسیح پر خوف سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ انھیں ڈر تھا کہ طیارے کو ایک راکٹ سے مار گرایا جائے گا۔’
جب 1996 میں اسامہ بن لادن کا طیارہ جلال آباد اترا تو وہاں ان کے استقبال کے لیے ملا عمر موجود نہ تھے۔
عمر بن لادن لکھتے ہیں کہ ‘یہ تصور غلط ہے کہ اسامہ ملا عمر کی دعوت پر افغانستان آئے تھے۔ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال گلبدین حکمتیار کے لوگوں نے کیا تھا۔ ابتدائی طور پر انھیں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے محل میں ٹھہرایا گیا لیکن پھر اسامہ تورہ بورہ کے پہاڑوں میں ایک غار میں رہنے چلے گئے۔ مجھے ان کی مبینہ دوستی کے حوالے سے کچھ یاد نہیں۔’
جب ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالا
اسامہ کے بیٹے عمر کو یاد ہے کہ ملا عمر نے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد اسامہ بن لادن کو افغانستان سے جانے کا کہا تھا۔
عمر نے بیٹی ڈیم کو بتایا کہ ‘ملا عمر میرے والد سے لمبے تھے۔ جب وہ میرے والد سے ملنے آئے تو ملا عمر کے لیے ایک عشائیے کا انتظام کیا گیا۔ مگر وہ اسامہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھے۔’
‘انھوں نے اپنے لیے کرسی مانگی جو کہ تھوڑا عجیب تھا کیونکہ باقی سب زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے میرے والد کو واضح کہا کہ ‘کام صحیح نہیں چل رہا، آپ کو یہاں سے جانا ہو گا’۔’
ملا عمر نے اسامہ سے کہا کہ ‘وہ (امریکہ) منشیات اور خواتین کے حقوق کو بڑا مسئلہ بنا رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کی حوالگی بڑا مسئلہ بنے۔’
عمر نے بیٹی کو بتایا کہ ملا عمر نے یہ بھی کہا کہ ‘اسلامی قوانین کے تحت میں آپ کو ان کے حوالے نہیں کر سکتا۔ لیکن میں توقع کرتا ہوں کہ آپ خود چلے جائیں گے۔’
عمر کے مطابق ‘جب میرے والد نے عمر کو بتایا کہ سوڈان نے انھیں وہاں پانچ سال رہنے کی اجازت دی جبکہ افغانستان میں انھیں صرف ساڑھے تین سال ہوئے ہیں تو وہ سیٹ سے کھڑے ہوئے اور جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے اسامہ بن لادن سے ہاتھ بھی نہ ملایا۔’
درحقیقت نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا مگر ملا عمر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ جس کے بعد امریکیوں نے تورہ بورہ کی پہاڑیوں پر بمباری شروع کر دی۔
ملا عمر پر قاتلانہ حملہ اور پراسرار موت
فروری 2001 کے آخر میں ملا عمر نے بامیان میں بدھا کے دو تاریخی مجسموں کو تباہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
یہ مجسمے 174 اور 115 فٹ لمبے تھے اور 1500 سال پہلے پتھروں سے تراشے گئے تھے۔ یونیسکو نے انھیں اپنی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
اس اعلان نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی لیکن ملا عمر نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ 2 مارچ 2001 کو دھماکہ خیز مواد رکھ کر مجسموں کو تباہ کر دیا گیا۔
چھ اکتوبر 2001 کی رات قندھار میں ملا عمر کے دفتر پر امریکی پریڈیٹر 3034 ڈرون کو انھیں مارنے کی نیت سے بھیجا گیا۔
کرس ووڈ نے ‘دی اٹلانٹک’ میگزین کے 30 مئی 2015 کے شمارے میں ‘پہلے ڈرون حملے کی کہانی’ نامی تحریر میں لکھا ‘ہزاروں میل دور ہیڈ کوارٹر میں سی آئی اے کے سینیئر اہلکار ان تصاویر کو دیکھ رہے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ دفتر پر ڈرونز سے گرا ہوا بم بہت سے معصوم لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔ اس لیے وہ ملا عمر کے باہر آنے کے انتظار میں تھے۔’
کرس ووڈ لکھتے ہیں کہ ‘جب مسلح افراد سے بھری تین لینڈ کروزر گاڑیاں اس عمارت سے باہر آئیں تو انھیں یقین تھا کہ ملا عمر ان میں سے ایک میں سوار ہیں۔ لیکن حملے کے وقت کے حوالے سے دو جرنیلوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے ہیل فائر راکٹ نہ داغے جا سکے۔ تینوں لینڈ کروزر گاڑیاں بھیڑ بھری سڑکوں پر چلتے ہوئے میں گم ہوگئیں۔’
ملا عمر کے بارے میں معمہ کافی عرصے تک برقرار رہا۔ آج بھی ان کی موت کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں۔
جولائی 2015 میں افغان حکومت نے اعلان کیا کہ ملا عمر کی وفات ہوچکی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دو سال پہلے یعنی 23 اپریل 2013 کو وفات پا چکے تھے۔
بیٹی ڈیم لکھتی ہیں کہ ‘ملا عمر کے ساتھی عبدالجبار عمری نے مجھے بتایا کہ اس دن پورے قندھار میں بہت زیادہ اولے پڑ رہے تھے۔ ملا عمر کو پچھلے تین ماہ سے کھانسی اور قے ہو رہی تھی۔ عمری نے اصرار کیا کہ وہ ڈاکٹر سے ملیں لیکن ملا عمر نے بات نہ مانی۔’
عمری نے بیٹی کو بتایا کہ ‘بڑی مشکل سے وہ ایک مقامی دکان سے انجیکشن لینے پر راضی ہوئے۔ وہ بے ہوش ہو گئے اور ان کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ جیسے ہی میں نے انھیں ہاتھ لگایا تو وہ نیچے گر گئے۔ اگلے دن ان کی وفات ہو گئی۔’
SOURCE : BBC