SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, فرگل کین
- عہدہ, خصوصی نامہ نگار، عمان
-
43 منٹ قبل
انتباہ: اس رپورٹ میں موجود تصاویر تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
جنگ کی بربریت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہلاک ہونے والے، ہلاک ہونے والوں کے ٹکڑے، مرنے والے، فاقہ کرنے والے۔۔۔ یہ وہ مناظر ہیں جو غزہ کی پٹی میں میرے ساتھیوں کو دن بدن بڑی تعداد میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ایسے میں اپنی نظر ہٹانے کا خیال قوی ہوتا ہے لیکن بی بی سی کے لیے کام کرنے والے کیمرہ مین اپنا منھ نہیں موڑ سکتے اور منگل کے دن خود ان میں سے ایک اس جنگ کا نشانہ بن گیا۔ غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں کی حفاظت کی وجہ سے ہم ان کے نام ظاہر نہیں کر سکتے۔
ہمارے کیمرہ مین زیادہ زخمی نہیں ہوئے لیکن ایسا صرف قسمت کی وجہ سے ہوا۔ خان یونس میں یورپی ہسپتال کی پارکنگ پر اسرائیلی بمباری میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہسپتال کے نیچے موجود ایک کمانڈ اور کنٹرول مرکز میں حماس کے رہنما چھپے ہوئے تھے جہاں ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر الزام لگایا کہ انھوں نے ہسپتال کے گرد موجود عام شہری آبادی کو خطرے میں ڈالا تاہم حماس نے اس کی تردید کی ہے۔
حملے سے قبل وہ خاندان جن کے بیمار بچوں کو غزہ کی پٹی سے نکالا جانا تھا ہسپتال میں اکھٹے ہو رہے تھے۔ وہاں ایسے خاندان بھی موجود تھے جن کے بچوں کو بیرون ملک علاج کے بعد واپس لایا جا رہا تھا۔
ایسے ہی ایک بچے کے والد ہمارے بی بی سی کے ساتھی کے ساتھ موجود تھے اور حملے میں زخمی ہو گئے۔ اب انھیں ہسپتال سے صحتیابی کے بعد روانہ کیا جا چکا ہے۔
حالیہ دنوں میں میرے ساتھی کی توجہ غزہ کی پٹی میں موجود وہ بچے رہے جنھیں غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ دھماکے سے کچھ ہی دیر پہلے میں نے انھیں ایک کہانی پر انتہائی حساس طریقے سے کام کرنے کے لیے شکریہ کا پیغام بھجوایا تھا۔
یہ کہانی سوار آشور کی تھی۔۔۔
میرے پیغام کے جواب میں انھوں نے لکھا کہ ’سوار کی کہانی نے ہم سب میں کچھ توڑ کر رکھ دیا اور یہ میرے لیے اب تک کا سب سے تکلیف دہ کام تھا لیکن میں جانتا تھا کہ اس کا چہرہ، اس کا نام اور اس کی کہانی سنائی جانی چاہیے۔‘

سوار آشور پانچ ماہ کی ہیں جو بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کی بڑی اور بھوری آنکھیں ان کے دبلے پتلے نڈھال بدن پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں جو ہر وقت اپنی والدہ کا پیچھا کرتی ہیں۔
منگل کے دن ان کی والدہ نجویٰ نے جنوبی غزہ میں نصر ہسپتال سے ایک ویڈیو پیغام بھجوایا جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ اسے وہ علاج میسر ہو جس کی اسے ضرورت ہے، وہ صحتیاب ہو اور اور پہلے جیسی ہو جائے، باقی بچوں کی طرح کھیلے، بڑی ہو۔ وہ میری پہلی اولاد ہے اور میرا دل اس کے لیے ٹوٹا جا رہا ہے۔‘
گزشتہ چند دن کے دوران سوار کی جلد میں انفیکشن ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں پر چھالے بن چکے ہیں۔ اس کا پیٹ اور آنتیں بھی شدید متاثر ہیں۔ اس وقت کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے غذائیت ملتی رہے۔ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اس کا جسمانی دفاعی نظام ہی بھرپور طریقے سے اس کے لیے لڑ رہا ہے۔
اس کے رونے کی آواز بھی مدھم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس میں ایک ایسی زندگی کی آواز آتی ہے جو خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مختلف امراض کی وجہ سے وہ صرف ایک مخصوص فارمولا دودھ ہی پی سکتی ہے۔
منگل کے دن ہی ایک اچھی خبر ملی۔ قریبی اردن کے فیلڈ ہسپتال کو محدود تعداد میں یہ دودھ مل گیا۔ یہ بہت تھوڑا تھا لیکن انتظامیہ اور بھجوانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آنے والے دنوں میں بہت سے بیمار بچوں کو متحدہ عرب امارات اور اردن لانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔


بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
عمان میں پہلے ہی غزہ کی پٹی کے بہت سے خاندان ہیں جن کے بچوں کی بیماری یا زخموں کا علاج ہو رہا ہے۔ ان کو غزہ سے باہر نکالنے کے لیے اسرائیلی حکام سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو بچوں کے والدین کے بارے میں جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
جنوری میں ہم نے عبدالرحمان اور ان کی والدہ عصمیٰ کے بارے میں رپورٹ کیا تھا۔ اسرائیلی بمباری میں عبدالرحمان کی ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ چار ماہ سے وہ ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جو محفوظ بھی ہے اور جہاں خوراک بھی میسر ہے۔
منگل کے دن جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی تو عصمیٰ نے غزہ میں اپنے بچوں اور والدہ سے بات کی۔ نجویٰ، جو عصمی کی والدہ ہیں، نے کہا کہ ’ہر طرف راکٹ ہیں، ہمارے سر کے اوپر سے گولیاں چلتی ہیں، کھانا اور زندگی بہت برے ہیں۔ آٹا نہیں، قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔‘
عصمیٰ کے بچوں نے ان کو دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور بوسے دیے۔ بعد میں عصمیٰ نے کہا کہ ’میں کیا کہوں، میں اپنی ماں کی شکر گزار ہوں جو میرے لیے یہ سب کر رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ واپس جاؤں تو سب ٹھیک ہوں۔‘
صرف ایک ماں کی نظر سے، جو اپنے خوفزدہ اور بھوکے بچوں کو جنگ میں پھنسے ہوئے دیکھ رہی ہے اور خود ایک محفوظ مقام پر موجود ہے، یہ تصور کرنا ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسا ہر شخص غزہ واپس کیوں جانا چاہے گا۔
ایلس ڈویارڈ، سوحی کنوار اور نک ملارڈ کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ
SOURCE : BBC