SOURCE :- BBC NEWS

روہت شرما، کوہلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ایاز میمن
  • عہدہ, کرکٹ مبصر
  • 53 منٹ قبل

انڈین کرکٹ کے شائقین ابھی تک آسٹریلیا کے خلاف پانچ میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں ٹیم کی شکست کے دھچکے سے سنبھل نہیں پائے ہیں۔

ایک زمانے میں بارڈر- گواسکر ٹرافی کے مقابلوں میں غالب رہنے والی ٹیم اس بار وہ کارکردگی دہرانے میں ناکام رہی جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی اور اسی دوران اس ٹیم میں موجود خامیاں بھی بے نقاب ہوئیں جسے ایک طویل عرصے سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔

جہاں اس سیریز میں انڈین بلے باز مشکلات کا شکار رہے وہیں بولرز میں بھی جسپریت بمرا آسٹریلیا کو پریشان کرنے والے واحد بولر تھے۔

اس سیریز میں شکست سے جہاں بارڈر- گواسکر ٹرافی انڈیا کے ہاتھ سے گئی وہیں اسے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں بھی جگہ نہیں ملی اور یوں وہ ان مقابلوں کا لگاتار تیسرا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل نہ کر سکا۔ اس سے قبل 2021 اور 2023 میں فائنل مقابلوں میں اسے بالترتیب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انڈین کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی پریشان کن ہے، وہ اپنے آخری آٹھ میں سے چھ ٹیسٹ ہار چکی ہے، جس میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ہوم گراؤنڈ پر وائٹ واش بھی شامل ہے۔

ان پے در پے شکستوں نے ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے ساتھ ساتھ، کپتان روہت شرما اور سابق کپتان وراٹ کوہلی جیسے اہم کھلاڑیوں کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ٹیم کے درخشاں ستارے بجھ رہے ہیں اور اسے تعمیرِ نو کے عمل کا سامنا ہے، انڈین ٹیسٹ کرکٹ کو تیزی سے بدلتے منظرنامے میں اپنی میراث کو برقرار رکھنے کے لیے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

روہت شرما

،تصویر کا ذریعہAFP

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اب ٹیسٹ میچوں میں انڈیا کا اگلا چیلنج انگلینڈ میں جولائی سے شروع ہونے والی پانچ میچوں کی سیریز ہے۔ انگلینڈ میں کھیل کے حالات، جو کسی ایک سیشن کے اندر بھی ڈرامائی تبدیلیوں کے لیے جانے جاتے ہیں، کھلاڑیوں کی تکنیک، مہارت اور حالات سے موافقت کا امتحان ہوں گے۔

انڈیا نے 2007 کے بعد سے انگلینڈ میں کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی اور اب تک صرف تین ​​فتوحات اس ٹیم کو درپیش مشکل کام کو نمایاں کرتی ہیں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف حالیہ ناکامیوں نے سلیکٹرز پر دباؤ میں اضافہ کرتے ہوئے انھیں اس اہم سیریز کے لیے کھلاڑیوں کے انتخاب اور ٹیم کے امتزاج کے حوالے سے سخت فیصلے لینے کی مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔

آسٹریلیا اور اس سے قبل نیوزی لینڈ کے خلاف مایوس کن کارکردگی کے بعد سلیکٹرز کے لیے سب سے بڑا درد سر شرما اور کوہلی کی فارم ہے۔

شرما آسٹریلیا میں تین ٹیسٹ میچوں میں صرف 31 رنز بنا سکے اور اسی خراب فارم کی وجہ سے وہ آخری ٹیسٹ کے لیے خود ہی ٹیم میں شامل نہیں ہوئے۔ کوہلی نے نو اننگز میں 190 رنز کے ساتھ قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان میں سے 100 رنز صرف ایک اننگز میں بنے۔ ان کے آؤٹ ہونے میں ایک واضح پیٹرن دکھائی دیا، یعنی سلپ میں یا وکٹوں کے پیچھے کیچ اور یہ دباؤ میں ایک واضح تکنیکی خامی یا ذہنی تھکاوٹ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔

جنوری 2024 سے، روہت شرما نے 16 ٹیسٹ میچوں میں ایک سنچری کے ساتھ صرف 619 رنز بنائے ہیں۔ کوہلی کے اعدادوشمار وقت کے ساتھ بدتر ہوتے جا رہے ہیں- 2020 سے ٹیسٹ میچوں میں صرف دو سنچریوں کے ساتھ ان کی اوسط 32 رہی۔

ایک زمانے سے ٹیسٹ میچوں میں انڈین اننگز کا آغاز کرنے والے میچ ونر، روہت اب اپنی مثالی بیٹنگ پوزیشن تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دریں اثنا کوہلی کے حقیقی زوال نے، ایک دہائی کے تسلط کے بعد، کرکٹ کے اس بڑے نام کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔

وراٹ کوہلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنیل گواسکر سے لے کر سچن ٹنڈولکر اور پھر کوہلی تک انڈین بیٹنگ کی عظمت کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے گزرا لیکن کوہلی کا ایک قابل جانشین اب نظر میں نہیں۔

کے ایل راہول کے پاس مہارت ہے لیکن مسلسل بڑے سکور کی بھوک نہیں۔ رشبھ پنت سنسنی خیزی میں یقین رکھنے والے بلے باز ہیں جو میچ جتانے یا ہرانے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ شبمن گل نے، جنھیں انڈین کرکٹ کا اگلا بڑا نام کہا جاتا ہے، بیرون ملک جدوجہد کی اور اس معاملے میں ان کی محتاط تربیت کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے نوجوان بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ابھیشیک شرما کو، جن کے سرپرست یووراج سنگھ ہیں، بڑا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ نتیش کمار ریڈی نے آسٹریلیا میں ڈیبیو پر مشکل حالات میں اپنی بے خوف کارکردگی سے متاثر کیا۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے یشسوی جیسوال نوجوان بلے بازوں میں نمایاں رہے ہیں۔ صبر، تکنیکی استحکام اور دھماکہ خیز سٹروک پلے کے ساتھ، وہ کوہلی کے جانشین بننے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

انڈیا میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ جسپریت بمرا نے آسٹریلیا کے خلاف 32 وکٹیں لے کر ایک تیز بولر کے طور پر اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کر دیا۔ محمد شامی، محمد سراج کے علاوہ ایک درجن ذہین تیز بولرز کی مدد سے انڈیا تمام فارمیٹس کے لیے ایک زبردست تیز رفتار پیس سکواڈ رکھتا ہے۔

بمرا

،تصویر کا ذریعہAFP

تاہم بمرا ایک نسل میں ایک بار ہی سامنے آنے والے ٹیلنٹ کے حامل بولر ہیں اور ان پر محتاط طریقے سے کام کا بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ بوجھ ڈالنے سے، جیسا کہ آسٹریلیا سیریز میں ہوا، ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ ہے جو پیس اٹیک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

بحالی کے عمل میں طویل عرصہ گزارنے والے محمد شامی کے سلسلے میں بھی احتیاط ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں مل کر جدید کرکٹ کی سب سے مضبوط فاسٹ بولر جوڑیوں میں سے ایک بناتے ہیں۔

روی چندرن ایشون کی اچانک ریٹائرمنٹ اور رویندر جڈیجہ کے آسٹریلیا میں ناقابلِ ذکر کارکردگی کے ساتھ، سپن کے شعبے میں انڈین ٹیم زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتی تاہم، واشنگٹن سندر نے ہوم پچوں پر اپنا عزم ظاہر کیا جبکہ نوجوان سپنر روی بشنوئی اور تنوش کوٹیان، جو آسٹریلیا میں سیریز کے درمیان سکواڈ میں شامل ہوئے، ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے حالیہ نقصانات سے ہوشیار، انڈین کرکٹ بورڈ تیزی سے منتقلی کے عمل کی شروعات کر رہا ہے۔ سلیکٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 23 جنوری کو دوبارہ شروع ہونے والی ڈومیسٹک رنجی ٹرافی کے دوسرے راؤنڈ سے ممکنہ ٹیسٹ کھلاڑیوں کو شارٹ لسٹ کریں۔

شرما اور کوہلی سمیت تمام کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایسا اقدام ہے جس سے انھیں فارم بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 یشسوی جیسوال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تعمیرِ نو کے مرحلے سے گزرتی ٹیم کا انتظام سنبھالنا پیچیدہ چیلنج ہے جس میں صبر، ہمدردی اور واضح نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچانک سامنے آنے والے فیصلے یا بیرونی دباؤ حل فراہم کرنے کی بجائے صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔

شرما اور کوہلی اپنی خراب صورتحال پر قابو پاتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے لیکن انڈیا کا ٹیلنٹ اس قابل ہے کہ ملکی کرکٹ پر چھائی اداسی کو ختم کر سکے۔

یاد رہے کہ 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انڈیا کو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ کرکٹ نیچے کی طرف جا رہی ہے۔

لیکن چند مہینوں کے اندر، کوہلی، شرما، چیتشور پجارا، اجنکیا رہانے، جدیجا، اشون، اور دیگر جیسے نوجوان ٹیلنٹ کی بدولت انڈیا کو تمام فارمیٹس میں دنیا کی ٹاپ ٹیم بنتے ہوئے دیکھا گیا اور پھر تقریباً ایک دہائی تک اس نے یہ مقام کسی اور کا نہیں ہونے دیا۔

SOURCE : BBC