SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وسعت اللہ خان
- عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
-
32 منٹ قبل
مجھے ان پنڈتوں کی حیرت پر حیرت ہے جو تنازعہ کشمیر کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترین گیان پر ششدر گول گول دیدے گھما گھما کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ واقعی ٹرمپ صاحب نے صدارتی طیارے ایئرفورس ون میں سوار ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں پاکستان انڈیا کشیدگی کے بارے میں وہی کہا جو ہمارے گناہ گار کانوں تک پہنچا۔
’انڈیا اور پاکستان جیسا کہ سب جانتے ہیں بہت قریب قریب ہیں۔ وہ کشمیر کے لیے ہزاروں برس سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر تنازعہ ہزاروں برس بلکہ شاید اس سے بھی پرانا ہے۔ کل (منگل) وہاں تیس سے زائد لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ بہت برا ہوا۔ ان کی سرحدوں پر پندرہ سو برس سے کشیدگی ہے مگر میں دونوں طرف کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ مسئلہ سلٹا لیں گے۔ اس وقت بہت کشیدگی ہے مگر یہ تو ہمیشہ سے ہے۔‘
یقیناً چند گھنٹوں یا ایک آدھ دن میں وائٹ ہاؤس سے کوئی نہ کوئی وضاحتی بیان جاری ہو جائے گا کہ جنابِ صدر کا مطلب یہ نہیں وہ تھا۔ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کے پیش کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم تب تک یہی خودکلامی کرتے رہیں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ واحد سپر پاور کا سربراہ عالمی سیاست، حالاتِ حاضرہ اور جغرافیے سے اتنا نابلد کیوں ہو گا۔ وہ بھی ایک ایسا لیڈر جس کے ایک جملے پر چند دن پہلے ہی دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں کھربوں ڈالر ڈوب گئے۔
نہیں یار ہم ہی بے وقوف ہیں۔ دراصل بھائی ٹرمپ کی حسِ مزاح بہت تیز ہے۔ وہ انڈیا اور پاکستان پر طنز کر رہے تھے کہ یہ تو عادی جھگڑالو ہیں۔ ان کے بیچ میں پڑنا بے وقوفی ہے۔ خود ہی پہلے کی طرح ایک دوسرے سے نمٹ لیں گے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
لیکن اگر بھائی ٹرمپ ماضیِ قریب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست اوہایو میں تارکینِ وطن مقامی لوگوں کے کتے بلیاں بھی کھا رہے ہیں، اگر وہ ڈنمارک سے پوچھ سکتے ہیں کہ بھیئا گرین لینڈ کس بھاؤ بیچو گے ورنہ ہم زبردستی پکڑ لیں گے، یا کووڈ وویڈ کچھ نہیں یہ تو طبی سائنسدانوں کی شعبدے بازی ہے، یا عالمی ماحولیات کی ابتری محض مٹھی بھر نام نہاد ماہرین کا پروپیگنڈہ ہے، یا میں تو کینیڈا کو امریکہ کا اکیاونواں صوبہ سمجھتا ہوں اور جسٹن ٹروڈو وہاں کا گورنر ہے۔
یا غزہ کا آسان حل یہ ہے کہ تمام فلسطینی نکل جائیں تاکہ اس خوبصورت پٹی میں سیاحت کے فروغ کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو سکے، یا 20 فیصد علاقہ روس کے اور 50 فیصد معدنی دولت امریکہ کے حوالے کر کے صدر زیلنسکی یوکرین کے لیے امن خرید سکتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
یا ٹرمپ صاحب کا یہ خیال کہ چین اور یورپی یونین سمیت دنیا کا ہر ملک اور خطہ امریکہ کو بے وقوف بنا کے اس کی پیٹھ پر سواری کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اگر مندرجہ بالا وچار آپ کو مزاح نہیں لگتے تو پاکستان انڈیا کشیدگی پر صدر ٹرمپ کے گراں قدر خیالات کو طنز یا سنجیدگی کے ترازو میں تولنے کا سوال کیوں اٹھایا جائے۔ کچھ حاسد تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ دراصل ٹرمپ صاحب کا وائٹ ہاؤس میں ہونا ہی امریکی نظام پر گہرا طنز ہے۔
ضروری تو نہیں کہ بادشاہ تاریخ، جغرافیے اور سیاسی معلومات میں بھی شمشیر زنی اور گھڑ سواری کی طرح طاق ہو۔ اس کام کے لیے تنخواہ دار اتالیق اور مشیر وزیر کافی نہیں؟ بادشاہ کو امورِ مملکت پر نگاہ رکھنے سمیت اور بھی ضروری کام ہو سکتے ہیں۔ بقول ابنِ انشا ’تم ان پڑھ رہ کر اکبر بننا پسند کرو گے یا پڑھ لکھ کر اس کے نو رتن؟ (اردو کی آخری کتاب)۔
ہم صرف ٹرمپ صاحب کے علم کو ہی کیوں نشانہ بنائیں۔ صدر جیرلڈ فورڈ کو مخالف صدارتی امیدوار جمی کارٹر سے 1976 میں صدارتی مباحثے کے دوران بھی یقین نہیں تھا کہ مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کی طرح پولینڈ بھی سوویت حلقہِ اثر میں شامل ہے۔
ریگن کے نائب صدر ڈان کوائل کا خیال تھا کہ لاطینی امریکہ میں رہنے والے لاطینی زبان بولتے ہیں۔ جارج بش جونئیر کی ’حیرت انگیز‘ جغرافیائی و سیاسی و لسانی معلومات پر تو امریکہ کے طنز بازوں نے ’بش ازم‘ کی پوری تحریک اٹھا دی تھی۔
بطور نمونہ ان کا ایک شہہ پارہ پیشِ خدمت ہے ’صدر مبارک (مصر)، ولی عہد عبداللہ (سعودی عرب) اور اردن کے شاہ سمیت خلیج کے تمام رہنماؤں سے میرے خوشگوار تعلقات ہیں‘۔ (واشنگٹن، 29 مئی 2003)۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سابق صدر جو بائیڈن نے اکتوبر 2023 میں اس خبر پر دو بار شدید غم و غصہ دکھایا کہ حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران چالیس بچوں کے سر قلم کر دیے۔ بعد ازاں وائٹ ہاؤس کے ترجمان کو کہنا پڑا کہ یہ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں مگر صدر بائیڈن نے چند ماہ بعد ایک مرتبہ اور اس ’واقعہ‘ کا حوالہ دیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اگر ہمارے پیارے سابق صدر ضیا الحق اسلام آباد میں ہونے والی ایک سائنس و ٹیکنالوجی کانفرنس میں جنات سے بجلی پیدا کرنے کی سائنسی کوششوں کی تعریف کر سکتے تھے۔ اگر سابق وزیرِ اعظم عمران خان جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملا سکتے ہیں۔
اگر آدرنئیے مہا گیانی مودی جی نے اپنے پہلے دور میں ممبئی میں انڈین سائنس اکیڈمی کی کانفرنس میں مندوبین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گنیش جی کی لاکھوں برس پہلے پلاسٹک سرجری کروا دی اور پھر ایک اور جگہ تاریخی حقائق درست کرتے ہوئے سکندرِ اعظم اور پورس کو گنگا کنارے لڑوا دیا تو ٹرمپ کے خیال میں کشمیر پر پاکستان انڈیا تنازعہ ڈیڑھ ہزار برس قدیم کیوں نہیں ہو سکتا؟
میرے محلے دار عبداللہ پان والے سے اپنی دوستی کی بنیاد ہی ان کا لاثانی تاریخی شعور ہے۔ ایک بار انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مارچ 1940 کے جس اجلاس میں قرار داد پاکستان پیش ہوئی، اس میں قائدِ اعظم اور علامہ اقبال سٹیج پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے تصیح کی جرات کی کہ عبداللہ بھائی اقبال کا تو دو سال پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اعتماد سے لبالب بھرے عبداللہ بھائی نے پان پر ڈنڈی سے کتھے کی ملائی بناتے ہوئے بنا نظریں اٹھائے کہا ’ہو گیا ہو گا انتقال مگر اقبال صاحب سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے خود تصویر دیکھی ہے۔‘
عبداللہ بھائی کے علم و فضل کے بارے میں بھلے کوئی کچھ بھی سوچے مگر خوش قسمتی سے عبداللہ بھائی کسی طاقتور ملک کے بادشاہ نہیں۔ ورنہ تو کروڑوں جانیں کرہِ ارض کے پان پر کتھے کی ملائی بن سکتی تھیں۔
SOURCE : BBC