SOURCE :- BBC NEWS

ٹرمپ

  • مصنف, جیمز لینڈل
  • عہدہ, سفارتی امور کے نامہ نگار
  • 2 گھنٹے قبل

وہ کہتے ہیں نا کہ ’کچھ ایسی صدیاں بھی گزر جاتی ہیں جب کچھ نہیں ہوتا اور کچھ ایسے ہفتے ہوتے ہیں جن میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے جس کے لیے شاید ایک صدی بھی ناکافی ہو۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قول مبینہ طور پر روسی انقلابی رہنما ولادیمیر ایلیچ لینن کا ہے۔

اس ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرد جو سفارتی طوفان برپا رہا وہ ظاہر کرتا ہے کہ روسی رہنما شاید ٹھیک ہی کہہ ہے تھے۔

ایک ایسے صدر کے لیے جو ہمیشہ ’امریکہ فرسٹ‘ کا نعرہ لگاتے رہے ہیں، حالیہ دنوں میں عالمی سٹیج پر سرگرمیاں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی تھیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں امریکی صدر دنیا بھر کے معاملات میں مصروف نظر آئے۔

ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے خلیج میں کاروباری معاہدے کیے، شام پر عائد پابندیاں ختم کر دیں، حماس کی قید سے ایک امریکی شہری کی رہائی پر بات چیت کی، یمن میں حوثی جنگجوؤں پر فوجی حملے بند کر دیے، چین پر امریکی محصولات میں کمی کی، یوکرین کو ترکی میں روس سے بات چیت کا حکم دیا، ایران سے جوہری معاہدے پر خفیہ بات چیت جاری رکھی اور یہاں تک کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرانے کا دعویٰ بھی کیا۔

یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اتحادی اور مخالف دونوں ہی حیران رہ گئے کہ ہو کیا رہا ہے، کیونکہ امریکی سفارتی قافلہ ایک مسئلے سے دوسرے کی طرف دوڑتا نظر آیا۔

لندن میں تعینات ایک سفیر نے تبصرہ کیا ’جو کچھ ہو رہا ہے اس سب پر نظر رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔‘

تو سوال یہ ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟

اس تیز رفتار ہفتے میں ہمیں امریکی صدر کی ابھرتی ہوئی خارجہ پالیسی کے بارے میں کیا سیکھنے کو ملا؟

کیا ہمیں کوئی ’ٹرمپ ڈاکٹرائن‘ دکھائی دے رہا ہے یا یہ سب کچھ صرف ایک حسین اتفاق ہے جس میں دنیا بھر کے واقعات ایک ساتھ ہو گئے ہیں؟

سعودی عرب میں شاندار استقبال

سب سے پہلے صدر کے خلیجی دورہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس دورے کے دوران انھوں نے اپنے الفاظ اور عمل دونوں سے یہ واضح کیا کہ وہ ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ملکوں کے درمیان تعلقات جنگ نہیں بلکہ تجارت پر مبنی ہوں۔

ریاض میں ایک تقریر کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ’افراتفری نہیں، بلکہ تجارت‘ چاہتے ہیں اور ایک ایسا خطہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ’دہشت گردی نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی برآمد کرے۔‘

ان کا تصور ایک آسان اور عملی سوچ پر مبنی تھا جہاں ملک آپس میں ایسے تجارتی معاہدے کریں جو دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں۔۔۔ یعنی ایک ایسی دنیا جہاں منافع کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔

انھبوں نے اپنے موٹے مارکر سے ان معاہدوں پر بھی دستخط کیے جنھیں وائٹ ہاؤس نے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری قرار دیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب صدر ٹرمپ سعودی میزبانوں کی مہمان نوازی اور آنے والے معزز مہمانوں کے ساتھ ملاقاتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو اس دوران انھوں نے اپنے موٹے مارکر سے ان معاہدوں پر بھی دستخط کیے جنھیں وائٹ ہاؤس نے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری قرار دیا ہے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ٹرمپ پوری شان و شوکت کے ساتھ نظر آئے۔ داد و تحسین سمیٹتے ہوئے اور ایسی فوری کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے جنھیں وہ واپس ملک میں جا کر امریکیوں کے لیے فائدے کے طور پر دکھا سکتے تھے۔

کچھ سفارتکاروں نے نجی طور پر ان معاہدوں کی اصل اہمیت پر سوال اٹھایا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس سارے منظر کی نمائش، ان معاہدوں کے اصل مواد سے کہیں زیادہ اہم تھی۔

کچھ سفارتکاروں نے ان معاہدوں کی اصل اہمیت پر سوال اٹھایا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس سارے منظر کی نمائش، ان معاہدوں کے اصل مواد سے کہیں زیادہ اہم تھی۔

’ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘ ٹرمپ کا لاتعلقی پر مبنی رویہ

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ٹرمپ کی تقریر میں ایک بات کی بہت کمی محسوس کی گئی اور وہ یہ تھی کہ امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے مشترکہ اقدامات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

نہ موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی خطرے کے خلاف مل کر کام کرنے کی بات ہوئی، نہ ہی خطے میں جمہوریت یا انسانی حقوق کو درپیش چیلنجز پر کوئی تشویش ظاہر کی گئی۔

یہ تقریر تقریباً مکمل طور پر نظریات یا اقدار سے خالی تھی، اور اگر ان کا ذکر آیا بھی، تو صرف اس لیے کہ ان کی اہمیت کو رد کیا جا سکے۔

اس کے بجائے ٹرمپ نے سعودی رہنماؤں سے خطاب میں ماضی کی مغربی مداخلت پر سخت تنقید کی۔

انھوں نے اُن لوگوں کو نشانہ بنایا جنھیں وہ ’قوم بنانے والے‘ اور ’نیو-کانز‘ قدامت پسند نظریاتی رہنما) کہتے ہیں۔ انھوں نہ کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جو دوسرے ملکوں کو یہ بتاتے رہے کہ انھیں کیسے جینا ہے اور نظام حکومت کیسے چلانا ہے۔

عرب سامعن کی تالیوں کے درمیان ٹرمپ نے کہا کہ ان ’مغربی مداخلت کاروں‘ نے ’قومیں بنانے سے زیادہ برباد کیں۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’بہت سے امریکی صدور اس غلط فہمی میں رہے کہ ان کا کام یہ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے لیڈروں کی روحوں تک میں جھانکیں اور امریکی پالیسی کو اُن کے گناہوں کی سزا دینے کے لیے استعمال کریں۔‘

’میرا یقین ہے کہ انصاف کرنا خدا کا کام ہے۔ میرا کام امریکہ کا دفاع کرنا ہے۔‘

ٹرمپ نے سعودی رہنماؤں سے خطاب میں ماضی کی مغربی مداخلت پر سخت تنقید کی

،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images

حالیہ دنوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران ٹرمپ حکومت کی مداخلت سے گریز کی پالیسی واضح طور پر نظر آئی۔

ماضی میں امریکہ اکثر برصغیر میں فوجی کشیدگی ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، لیکن اس بار وائٹ ہاؤس نے شروع میں کسی قسم کی مداخلت سے احتیاط برتی۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے فاکس نیوز کو بتایا کہ یہ لڑائی ’بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہم ان ملکوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘

آخرکار جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو دونوں نے انڈیا اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے فون کالز کیں تاکہ کشیدگی کم ہو سکے۔

دوسرے ملکوں نے بھی اسی طرح کی کوششیں کیں۔

جب جنگ بندی طے پا گئی تو صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ امریکی سفارتکاری کی کامیابی ہے۔

لیکن انڈین سفارتکاروں نے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ ایک باہمی معاہدہ تھا جس میں کسی تیسرے فریق کا کردار نہیں تھا۔

پالیسی ایک شخص کے ہاتھ میں ہونے کے ممکنہ فائدے

اس ہفتے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ امریکی خارجہ پالیسی اب زیادہ تر صرف صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ صرف ایک رسمی بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو عام طور پر امریکہ کے اہم بین الاقوامی فیصلوں میں شامل ہوتے تھے، اب اس عمل سے باہر نظر آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ٹرمپ نے اچانک شام کے نئے صدر احمد الشراع (جن کے سر پر پہلے امریکہ نے انعام رکھا تھا) سے ملاقات کی اور شام پر سے پابندیاں ہٹا دیں۔

یہ ایک بڑا اور جرات مندانہ قدم تھا اور لگتا ہے کہ یہ فیصلہ صرف ٹرمپ نے خود کیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ایسا ترکی اور سعودی عرب کے زور ڈالنے کے بعد کیا۔

کچھ سفارتکاروں کا خیال ہے کہ شاید شام سے پابندیاں ہٹانا اس تعریف اور سرمایہ کاری کا بدلہ تھا جو ٹرمپ کو سعودی عرب میں ملی۔

یہ فیصلہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں لوگوں کو حیران کر گیا بلکہ امریکی حکومت کے اندر بھی بہت سے لوگ اس پر چونک گئے۔

امریکی وزارتِ خارجہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ شام پر دباؤ برقرار رکھا جائے تاکہ وہاں اقلیتوں کا تحفظ ہو اور غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

سفارتکاروں کے مطابق ٹرمپ اکثر ایسے اہم فیصلے خود ہی کر لیتے ہیں بغیر یہ دیکھے کہ باقی ادارے کیا سوچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج ہمیشہ مثبت نہیں ہوتے۔

کچھ سفارتکاروں کا خیال ہے کہ شاید شام سے پابندیاں ہٹانا اس تعریف اور سرمایہ کاری کا بدلہ تھا جو ٹرمپ کو سعودی عرب میں ملی۔

،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images

یہ صورتحال اس لیے بھی پیدا ہوئی کیونکہ ٹرمپ اپنے فیصلوں پر قائم نہیں رہتے۔ وہ بار بار اپنی بات بدل لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر اسی ہفتے امریکہ نے چین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا اور چین سے آنے والی چیزوں پر لگائے گئے بھاری ٹیکس کم کر دیے۔

حالانکہ کچھ ہفتے پہلے ٹرمپ نے چین پر 145 فیصد ٹیکس لگا دیا تھا اور سخت انداز میں کہا تھا کہ اگر چین نے جواب دیا تو نتائج خطرناک ہوں گے۔

چین نے بھی جواب میں پابندیاں لگائیں، جس سے عالمی مارکیٹں کریش کر گئیں اور امریکی کمپنیوں نے خبردار کیا کہ اس کے نقصانا بہت زیادہ حد تک بڑھ سکتے ہیں۔

پھر جنیوا میں امریکی حکام نے نرمی اختیار کی اور زیادہ تر ٹیکس کم کر کے 30 فیصد کر دیے۔ بتایا گیا کہ اس کے بدلے امریکہ کو چینی مارکیٹ تک کچھ زیادہ رسائی ملے گی۔

یہ فیصلہ بھی اسی انداز کا حصہ تھا جو اب ٹرمپ حکومت کا معمول بن چکا ہے: پہلے سخت باتیں کرنا، پھر دھمکانا، پھر پیچھے ہٹنا اور آخر میں کہنا کہ جیت ہماری ہوئی۔

ٹرمپ کا ’ڈیل کرنے کا فن‘

مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا ’ڈیل کرنے کا فن‘ صرف اُن فیصلوں پر کارگر ہوتا ہے جو آسانی سے بدلے جا سکتے ہیں جیسے ٹیکس کم یا زیادہ کرنا۔

لیکن جب بات جنگ جیسے بڑے اور سنجیدہ معاملات کی ہو تو یہ طریقہ زیادہ مؤثر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر روس کا یوکرین پر حملہ۔ اس معاملے پر ٹرمپ کی پالیسی نرم اور غیر واضح رہی ہے اور اس ہفتے اس کی ایک تازہ مثال بھی سامنے آئی۔

گذشتہ ہفتے برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور جرمنی کے رہنما یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کیؤ گئے۔

فرانسیسی صدر میخواں کے فون سے ان سب نے ٹرمپ سے ویڈیو کال پر بات کی اور سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ روس پر دباؤ ڈالیں گے: یا تو وہ 30 دن کے لیے جنگ بند کرے یا پھر مزید سخت پابندیاں لگیں گی۔

ٹرمپ نے بھی سوشل میڈیا پر ایک دن پہلے یہی مؤقف اپنایا: ’اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو امریکہ اور اس کے اتحادی مزید پابندیاں لگائیں گے۔‘

لیکن اگلے ہی دن روسی صدر پوتن نے تجویز دی کہ یوکرین اور روس کے درمیان براہِ راست مذاکرات ترکی میں ہوں۔

ٹرمپ فوراً مان گئے اور اور اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ جو پالیسی طے کی تھی، اُس سے پیچھے ہٹ گئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا ’ڈیل کرنے کا فن‘ صرف اُن فیصلوں پر کارگر ہوتا ہے جو آسانی سے بدلے جا سکتے ہیں جیسے ٹیکس کم یا زیادہ کرنا۔

،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا ’یوکرین کو فوراً ان مذاکرات پر راضی ہو جانا چاہیے۔‘

’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یوکرین، پوتن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔‘

لیکن جمعرات کو ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی رائے بدل لی۔ کہا کہ تب ہی کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے جب وہ اور پوتن آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں۔

یہ بار بار بدلتا مؤقف کچھ سفارت کاروں کو الجھن میں ڈال رہا ہے۔

ایک سفارت کار پوچھتے ہیں: ’کیا وہ واقعی نہیں جانتے کہ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انھیں کیا کرنا ہے؟‘

’یا بس ہر بار وہی طریقہ اختیار کرتے ہیں جس سے انھیں لگے کہ مسئلہ جلدی حل ہو جائے گا؟‘

کیا ٹرمپ نیتن یاہو کو نطرانداز کر رہے ہیں؟

اسی الجھی ہوئی صورتحال میں اس ہفتے ٹرمپ نے دو اہم فیصلے بھی کیے۔

پہلا فیصلہ: ٹرمپ نے یمن پر تقریباً دو ماہ کی بمباری کے بعد حوثی جنگجوؤں سے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔

یہ حملے بہت مہنگے تھے اور ان کی کامیابی پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ خود صدر ٹرمپ نے اپنے عرب میزبانوں سے کئی بار کہا کہ وہ جنگ کو پسند نہیں کرتے اور لمبی فوجی کارروائیوں سے گریز چاہتے ہیں۔

دوسرا فیصلہ: ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے ایران کے ساتھ چھوتھی مرتبہ بات چیت کی، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر کسی معاہدے تک پہنچنا ہے۔

دونوں طرف سے اشارے مل رہے ہیں کہ معاہدہ ممکن ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ شاید بہت محدود نوعیت کا ہو۔

ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی کارروائی کی جو باتیں ہو رہی تھیں، وہ بھی اب کم ہوتی جا رہی ہیں۔

ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا مگر اسرائیل نہیں گئے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان دونوں فیصلوں میں ایک بات اہم ہے: امریکہ نے اسرائیل کی مرضی کے خلاف قدم اٹھایا۔

اگرچہ بنیامین نیتن یاہو وہ پہلے عالمی رہنما تھے جنھیں ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد وائٹ ہاؤس مدعو کیا تھا لیکن حالیہ دنوں میں ایسا لگنے لگا ہے جیسے انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا مگر اسرائیل نہیں گئے۔

انھوں نے اسرائیل کی حمایت کے بغیر شام پر سے پابندیاں ہٹا دیں۔

اور جب حوثیوں نے تل ابیب ایئرپورٹ پر حملہ کیا، چند دن بعد ہی ٹرمپ نے ان سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

سفارت کاروں کو خدشہ ہے کہ نیتن یاہو اس کے ردعمل میں غزہ پر کوئی بڑا اور جارحانہ حملہ نہ کر دیں کیونکہ وہ خود کو نظر انداز کیا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ سوچ سے تنازعات پر قابو پانے کا راستہ

تو اس پورے ہنگامہ خیز سفارتی ہفتے کے بعد کیا واقعی کچھ بدلا ہے؟ شاید اتنا نہیں جتنا بظاہر لگتا ہے۔

ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کی چمک دمک کے باوجود، غزہ میں لڑائی اور انسانی بحران ابھی بھی جاری ہے اور لگتا ہے کہ اسرائیل ایک نیا حملہ شروع کرنے والا ہے۔

ٹرمپ کا ایک بڑا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے مگر یہ ابھی بھی دور کی بات لگتی ہے۔

یوکرین جنگ کے خاتمے کی جتنی بھی باتیں ہوئیں، میدان جنگ میں خاموشی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

صدر پوتن کی خواہشات ویسی کی ویسی ہیں۔

اور امریکہ کی جانب سے برطانیہ یا چین کے ساتھ تجارتی محصولات (ٹیرِف) کم کرنے کے جتنے بھی معاہدے ہوئے، دنیا کی معیشت میں بے یقینی اور عدم استحکام اب بھی برقرار ہے۔

 امریکہ کی جانب سے برطانیہ یا چین کے ساتھ تجارتی محصولات (ٹیرِف) کم کرنے کے جتنے بھی معاہدے ہوئے، دنیا کی معیشت میں بے یقینی اور عدم استحکام اب بھی برقرار ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اب ہمیں ٹرمپ کی سوچ کچھ حد تک زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہ تنہائی پسندی نہیں بلکہ ایک طرح کی ’تجارتی پالیسی‘ ہے جس میں انھیں امید ہے کہ سرمایہ داری نظام ہی دنیا کے تنازعات کو ختم کر سکتا ہے۔

ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ ٹرمپ سفارتی محاذوں کو جلد سمیٹنے کے خواہاں ہیں۔۔۔ چاہے وہ مشرقِ وسطیٰ ہو، یوکرین یا جنوبی ایشیا۔۔۔ تاکہ وہ اپنی توجہ چین پر مرکوز کر سکیں۔

لیکن یہ خواہش پوری ہونا شاید اتنا آسان نہ ہو۔

جیسے کچھ ہفتے صدیوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، ویسے ہی کچھ ہفتے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

SOURCE : BBC