SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, انتھونی زرچر اور ٹام گیوگہن
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
-
ایک گھنٹہ قبل
گذشتہ برس اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے متواتر اپنی ان ارادوں کا اظہار کیا تھا کہ وہ جیسے ہی صدر منتخب ہو کر وائٹ ہاؤس کا انتظام سنبھالیں گے وہ ملک میں ایک ڈرامائی تبدیلی لے کر آئیں گے۔
مگر بہت کم لوگوں کو یہ توقع تھی کہ یہ سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہو گا۔
امریکہ کے 47ویں صدر کا حلف اٹھانے کے تین ماہ کے اندر اندر انھوں نے اپنے اختیارات کا ایسے استعمال کیا جو پہلے شاید کم ہی امریکی صدور نے کیا تھا۔
ان کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے اور صدارتی دستخط سے جاری شدہ دستاویزات اور ان کی پالیسی اعلانات سوشل میڈیا پر شہ سرخیاں بنے۔ ان کے ایگزیکٹو آرڈرز نے امریکی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے حامی بھی ان کے فیصلوں پر حیران و پریشان ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے صدر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کر رہے ہیں اور طویل عرصے سے منتظر اصلاحات کو نافذ کر رہے ہیں۔
لیکن ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ وہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں – اہم سرکاری اداروں یا شعبوں کو مفلوج کر رہے ہیں اور شاید اس عمل میں امریکی صدارت کو مستقل طور پر تبدیل کر رہے ہیں۔
آئیے صدر ٹرمپ کے حالیہ دور اقتدار کے سو دنوں میں ان کی جانب سے اٹھائے گئے چھ اہم اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔
20واں دن اور صدارتی اختیارات: ایک سوشل میڈیا پوسٹ جس نے آئینی طوفان برپا کر دیا

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ٹرمپ کے نئے دور اقتدار کو ابھی تیسرا ہفتہ ہی تھا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی جانب سے اتوار کی صبح نو الفاظ پر محیط ایک ٹویٹ پوسٹ ہوئی جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوسرے دور اقتدار کی حکمت عملی کی جانب اشارہ دیا۔
انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا ‘ججوں کو ایگزیکٹو اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔’
جس کے بعد میڈیا پر ایک شور مچ گیا جہاں قانونی ماہرین اس دعوے کو چیلنج کرنے کے لیے صف آرا ہو گئے اور انھوں نے اس بات کو چیلنج کرتے ہوئے امریکی تاریخ کے 220 سال پرانے ایک اصول کی طرف اشارہ کیا جو امریکی جمہوریت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
اس کے مطابق عدالتوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے کسی بھی حکومت کے اقدامات، قوانین اور ایگزیکٹو آرڈرز کا جائزہ لیں جو ان کے مطابق امریکی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
جے ڈی وینس کے الفاظ عدلیہ کے اختیارات کے حوالے سے ایک کھلا چیلنج تھا اور بادی النظر میں امریکی نظام کی تین اہم اور برابری کے بنیادی پر قائم حکومتی اداروں کو چیلنج تھا جن کی بنیاد امریکہ کے بانیوں نے رکھی تھی۔
مگر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کانگریس، عدلیہ اور صدارتی اختیارات میں تفریق اور دیگر دو شعبوں کی صدارتی فیصلوں میں مداخلت کو چیلنج کرنے کے اپنے بیان پر نہ صرف قائم رہی بلکہ انھوں نے اس پر کوئی معذرت بھی نہیں کی۔
وائٹ ہاؤس نے جارحانہ انداز میں کانگریس سے اخراجات پر کنٹرول حاصل کرنے، مختلف منصوبوں، پروگراموں حتی کے کئی اداروں کی مالی اعانت ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
کیپٹل ہل میں ٹرمپ کے ان جارحانہ اقدامات کو خاموشی سے دیکھا گیا ہے، اگرچہ وہاں دونوں ایوانوں میں ان کی ریپبلیکن پارٹی کمزور اکثریت میں ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے ایک جائزے کے مطابق اس سب میں عدالتیں زیادہ مزاحمت کرتی رہی ہیں، اب تک 100 سے زیادہ فیصلوں نے صدارتی اقدامات کو روکا ہے جو ان کے نزدیک غیر آئینی ہیں۔
ٹرمپ کے امیگریشن سے متعلق کریک ڈاؤن پر سب سے زیادہ اختلافات رہے ہیں۔ مارچ میں 200 سے زیادہ وینزویلا کے باشندوں کو امریکہ کے لیے خطرہ سمجھا گیا اور انھیں ایل سلواڈور بھیج دیا گیا جن میں سے بہت سوں کو جنگی اختیارات کے تحت اور عدالت میں ثبوت پیش کیے جانے کے عمل کے بغیر واپس بھیجا گیا۔
وفاقی اپیل کورٹس میں رپبلیکنز کی جانب سے تعینات کیے جانے والے ایک جج نے کہا کہ جس طرح کے اقدامات وائٹ ہاؤس نے اٹھائے ہیں ان سے وہ ‘صدمے’ میں ہیں۔
جج جے ہاروی ولکنسن نے لکھا کہ ‘ دونوں ادارے ( عدلیہ اور صدارتی دفتر) ایک دوسرے کے خلاف ایک تنازعہ میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ اس سے نہ صرف ناقابل تلافی نقصان ہو گا بلکہ دونوں کے اختیارات اور طاقت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’
ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں کی تعمیل کریں گے۔ جبکہ دوری طرف صدر ٹرمپ بہت سے ججوں پر تنقید کرتے ہیں جو ان فیصلوں کو جاری کرتے ہیں اور انتظامیہ بعض اوقات ان فیصلوں پر عملدرآمد کو سست روی کا شکار کر دیتی ہے۔
یہ سب ایک آئینی نظام کے انوکھے امتحان کے مترادف ہے جو صدیوں سے ایک خاص طریقے کے تحت چل رہا ہے۔جب کہ ٹرمپ اس کے مرکز میں رہے ہیں۔
اس افراتفری کے اصل محرکات کی وجہ وہ خود یعنی ایک ایسا شخص ہے جو امریکہ میں پیدا تو نہیں ہوا تھا، لیکن انھوں نے وہاں ایک کاروباری سلطنت بنائی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
32واں دن، حکومت اخراجات میں کٹوتی اور کالے لباس میں آرا لہرانے والا شخص
سر سے پیر تک کالے لباس میں ملبوس اور سیاہ چشمہ لگائے ایلون مسک کنزرویٹو پولیٹکل ایکشن کانفرنس کے ہجوم میں سٹیج پر کھڑے ,ٹرمپ کی تعریف میں مصروف تھے۔ دنیا کے امیر ترین شخص نے ایک سرپرائز دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کے اخراجات میں کھربوں ڈالرز کی کمی کرنا چاہتے ہیں۔
ایسے میں ارجنٹینا کے صدر جیویار میلی جنھیں ان کے بجٹ میں کٹوتی پر جانا جاتا ہے سٹیج کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور انھوں نے آ کر ایلون مسک کو ایک چمکتا آرا پکڑیا۔
مسک نے جوش میں آ کر کہا کہ ‘یہ بیروکریسی پر چلنے والا آرا ہے۔’
یہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ان کو دیے جانے والے محکمے ‘ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینی’ کے تحت کیے جانے والے کام کا نہ صرف ڈرامائی اظہار تھا بلکہ جنوبی افریقی نژاد ٹیکنالوجسٹ کا ٹرمپ کے ساتھ وفاداری کا بھی ثبوت تھا۔
اس وقت کے بعد سے مسک نے وفاقی حکومت کو مختلف احکامات صادر کیے ہیں جن میں حساس سرکاری معلومات حاصل کرنے پر زور دینا اور ان منصوبوں کی نشاندہی کرنا شامل ہے جن کو ختم کیا جانا ہے۔
البتہ وہ اب تک کھربوں ڈالرز بچانے کے اپنے وعدے کے قریب تک نہیں ہیں تاہم انھوں نے متعدد سرکاری اداروں اور محکموں میں کٹوتیاں کی ہیں۔ جن میں امریکہ کا محکمہ تعلیم اور یو ایس ایڈ پروگرام شامل ہے۔
اگرچہ حکومت میں ‘فضول خرچی، جعلسازی اور وسائل کے بے دریغ استعمال’ کو کم کرنے اور بڑھتے ہوئے وفاقی خسارے کو کم کرنے کے وعدے عام طور پر وسیع پیمانے پر عوام کو اپیل کرتے ہیں، تاہم مسک نے جس انداز میں اپنے آرے کو لہرایا تھا اس سے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا ہے اور کچھ امریکی عوام میں غصے پیدا ہوا۔
ٹرمپ کے چند حامیوں نے جہاں ان کی اتنظامیہ کی جانب سے حکومت اخراجات میں کمی کے اقدامات کو سراہا ہے وہیں کچھ حلقوں میں رپبلیکنز ارکان کو ٹاؤن ہالز تقاریب میں عوام کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
ناقدین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ حکومت کے سوشل سیکورٹی ریٹائرمنٹ پلان، سابق فوجی افسران کو دی جانے والی مراعات کے منصوبے اور ہیلتھ انشورنس جیسے منصوبے کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔
ان کے یہ خدشات غلط بھی نہیں ہیں کیونکہ یہ حکومتی سکیمیں وفاقی اخراجات کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
اگر ان پروگراموں میں کٹوتی نہیں کی گئی تو ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے بڑے پیمانے پر ٹیکس میں کمی کے وعدے سے امریکی حکومت کا قرضہ مزید بڑھ جائے گا اور ان کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ ’معاشی خوشحالی‘ خطرے میں پڑ جائے گا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
72 واں دن اور معیشت: ’میری آنکھوں کے سامنے کھربوں کا نقصان ہو گیا‘
جب تاجر رچرڈ میکڈونلڈ نے ٹرمپ کو کو وائٹ ہاوس کے باغیچے میں ان ممالک کی فہرست کو تھامے دیکھا جن پر نیا امریکی ٹیرف نافذ کیا جا رہا تھا تو انھیں علم تھا کہ انھیں فوری کچھ کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ایک دم اچھل پڑا کیونکہ میں صرف اعلان کی توقع کر رہا تھا مجھے بورڈ پر لکھی ایک فہرست کی توقع نہیں تھی۔’
انھیں توقع تھی کہ دس سے 20 فیصد ٹیرف نافذ کیا جائے گا مگر وہ کہتے ہیں کہ ‘کسی کو اتنے زیادہ ٹیکس کی توقع ہی نہیں تھی۔’
انھیں فوری طور پر اس بات کا اندازہ لگانا پڑا کہ کن کمپنیوں پر سب سے زیادہ اثر ہو گا اور پھر انھوں نے وہ فروخت کر دیں۔
‘کمپنیوں کے حصص کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے ہر لمحے اربوں روپے گنوائے جا رہے تھے لہذا آپ کو فوری فیصلہ لینا تھا۔’
وہ ان بہت سے تاجروں میں سے ایک ہیں جنھیں ٹرمپ کے نام نہاد ‘یوم آزادی’ کے ٹیرف کے اعلان کے بعد عالمی منڈیوں میں حصص کی قدر میں کمی کے باعث بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی سٹاک مارکیٹ میں ایس اینڈ پی کی 500 انڈیکس جن میں بڑی کمپنیوں کا شمار ہے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے حتیٰ کہ اب ٹرمپ انتظامیہ نے کچھ بہت زیادہ ٹیکس ٹیرف کے اپنے فیصلوں کو واپس بھی لے لیا ہے لیکن یہ مارکیٹ اب تک سنبھلی نہیں ہے۔
گذشتہ برس نومبر کے انتخابات میں امریکی رائے دہندگان کے لیے معیشت سب سے بڑی تشویش کا باعث تھی، اور ٹرمپ بائیڈن کی مہنگائی سے نمٹنے کی پالیسی پر تنقید کر کے ہی وائٹ ہاؤس تک پہنچے۔
قیمتوں میں کمی، حکومتی ضابطوں کو آسان بنانے اور گھریلو صنعت کو فروغ دینے کے ان کے وعدے کا وال سٹریٹ اور بہت سی امریکیوں کمپنیوں نے خیرمقدم کیا تھا۔
لیکن اب جیسا کہ ٹرمپ نئے ٹیرف کے وعدے کو پورا کررہے ہیں تو اس سے چیزوں کی قیمتوں پر واضح اثر پڑا ہے اور یہ چیز کم از کم قلیل مدت کے لیے عوام کو تکلیف دے رہی ہیں۔
سٹاک مارکیٹ ڈوب رہی ہے، شرح سود اور گھروں پر قرضوں کی شرح بڑھ رہی ہے، ایسے میں امریکی صارفین کا اعتماد کم ہوا ہے۔ ملک میں بے روز گاری کا بھی مسئلہ ہے اور اس دوران وفاقی ملازمین میں اضافے سے وہاں بھی کچھ کو ملازمت سے برخاست کیا گیا ہے۔
امریکی سرکاری ریزرو بینک اور چند دیگر معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ ملکی معاشی ترقی کو متاثر کرے گا اور ملک میں کساد بازاری ہو سکتی ہے۔
جب کہ معیشت کو سنبھالنےکے اقدامات پر صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی آئی ہے تاہم اب بھی ان کے بہت سے حامی ان کے ساتھ ہیں۔ اور سابقہ صنعتی علاقے جو مینوفیکچرنگ کے نقصان کے باعث خالی ہو گئے تھے وہاں اب یہ امیدیں ہیں کہ نیا نافذ کردہ ٹیرف عالمی سطح پر توازن قائم کرے گا۔
چین پر محصولات کا حوالہ دیتے ہوئے پنسلوانیا میں ٹرک ڈرائیور بین مورر کہتے ہیں کہ ‘ٹرمپ نے عزت حاصل کی ہے۔ہ م اب بھی وہ طاقت ہیں جس کو تسلیم کیا جائے گا۔’
معاشی معاملات پر تحفظات نے ٹرمپ کے پولز پر مجموعی طور پر اثر ڈالا ہے لیکن ایک اور اہم اقدام بھی ہے جہاں ان کی عوامی سطح پر بڑی قدر ہے اور وہ معاملہ ہے امیگریشن کا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
58واں دن، امیگریشن: ’تصویر میں ہتھکڑی پہنے نوجوان میرا بیٹا ہے‘
‘یہ وہی ہے! یہ وہی ہے! میں اس کو پہچانتا ہوں۔’ یہ کہنا ہے مائریلیس کاسیک لوپیز کا جو دنیا کی سب سے بدنام زمانہ جیلوں میں سے ایک کے فرش پر بیڑیوں میں جکڑے اور ہتھکڑیوں لگے افراد کی تصویر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
انھوں نے اس تصویر میں اپنے بیٹے کو شناخت کیا ہے۔ یہ تصویر اوپر سے کھینچی گئی ہے اور اس تصویر میں گنجے افراد سفید ٹی شرٹ پہنے ایک قطار میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
انھیں یہ تصویر وینزویلا میں ان کے گھر پر بی بی سی کے رپورٹر کی جانب سے دکھائی گئی تھی اور اس تصویر کو ایل سلواڈور کے حکام نے سرکاری طور پر جاری کیا تھا۔
ان کا جب اپنے بیٹے سے آخری بار رابطہ ہوا تھا تو وہ اس وقت امریکہ میں موجود تھا اور اسے وینزویلا واپس بھجوایا جا رہا تھا مگر اب وہ ان سے 1430 میل دور ایل سلواڈور کی ایک بدنام زمانہ جیل میں تھا اور اسے وہاں امریکی حکام نے بھیجا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک طاقتور عالمی مافیا گینگ ٹریٹ ڈی آراگیوا کے ارکان ہیں جبکہ مائریلیس کاسیک کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے۔
امیگریشن پر سخت موقف ٹرمپ کی دوبارہ انتخابی مہم کا ایک مرکزی نکتہ تھا اور صدر نے اس عہد کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسیع اختیارات استعمال کیے ہیں۔
بائیڈن کی صدارت کے اختتام پر غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے واقعات میں کمی آ رہی تھی لیکن اب یہ گذشتہ چار سال سے زائد عرصے میں سب سے کم ہے۔
امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد اس کریک ڈاؤن کے حق میں ہے مگر اس کے غیر ملکی طلبا پر بہت سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ان میں سے کچھ جن کے پاس مستقل رہائش کا اجازت نامہ تھا، کو حراست میں لے لیا گیا ہے، کچھ کو واپس ان کے ملک بھیج دیا گیا ہے کیونکہ وہ فلسطین کے حق میں احتجاج میں شامل تھے۔ اگرچہ انھوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ حماس کے حامی ہیں۔
شہری حقوق کے وکلا نے متنبہ کیا ہے کہ کچھ تارکین وطن کو بغیر کسی کارروائی کے ملک بدر کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ اب تک بڑے پیمانے پر ملک بدری نہیں ہورہی ہے جس کی کچھ کو امید تھی اور دوسروں کو خدشہ تھا، نئے بااختیار امیگریشن انفورسمنٹ ایجنٹس نے پورے امریکہ میں کاروبار، گھروں اور گرجا گھروں میں کارروائی کی ہے۔
وہ یونیورسٹیوں میں بھی سرگرم رہے ہیں جو کئی دیگر طریقوں سے صدر ٹرمپ کا نمایاں ہدف بن چکے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
91واں دن: تعلیمی اداروں، میڈیا اور کارپوریٹ کمپنیوں کے خلاف محاذ آرائی
21 اپریل کو ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے وائٹ ہاؤس سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔
یونیورسٹی کمیونٹی کے نام ایک خط میں انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اربوں ڈالر کی وفاقی گرانٹس کو منجمد کرنے کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر قانونی اقدام ہے اور ہارورڈ کے معاملات میں ‘غیر مناسب اختیار نافذ کرنے کی کوشش ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔’
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسے کارروائی کرنا پڑی کیونکہ ہارورڈ کیمپس میں یہود مخالف جذبات سے نمٹنے میں ناکام رہا۔ گاربر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں یونیورسٹی اقدامات کر رہی ہے۔
لیکن آئیوی لیگ کالج کا یہ اقدام امریکی اعلیٰ تعلیم کو نشانہ بنانے کے لیے ٹرمپ کے صدارتی اختیارات کے استعمال کے خلاف مزاحمت کا سب سے نمایاں مظاہرہ تھا۔
صدر اور ان کے حکام نے ان اداروں کو دھمکی دی ہے کہ وہ ہارورڈ جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی اربوں ڈالرز کی فنڈنگ کو بند کر دیں گے جو کہ صدر اور ان کے حامیوں کے خیال میں طلبا میں آزاد نظریے کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
رواں ماہ نیو یارک سٹی میں کولمبیا یونیورسٹی نے وائٹ ہاؤس کے چند مطالبات کو ماننے پر رضامندی ظاہر کی تھی جن میں اس کی احتجاج کی پالیسی کو تبدیل کرنے، کیمپس میں سکیورٹی پریکٹسز اور مشرق وسطی کے شعبوں میں کچھ تبدیلیاں کرنا شامل تھا۔
ایسا ہی کچھ ٹرمپ نے میڈیا اور کارپوریٹ دنیا میں کرنے کی کوشش کی۔
ٹرمپ نے وفاقی معاہدوں کی روک تھام کو قانونی فرموں پر زیادہ قدامت پسندوں کی بھرتی اور نمائندگی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
کچھ فرموں نے ٹرمپ انتظامیہ کو لاکھوں ڈالر مفت قانونی خدمات کی پیشکش کرتے ہوئے جواب دیا ہے، جب کہ دو فرموں نے انتظامیہ کی سزاؤں کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔
ٹرمپ نے میڈیا ادارے اے بی سی نیوز کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا اور اس کی وجہ سے میڈیا کمپنی نے ٹرمپ کی صدارتی فاؤنڈیشن میں 15 ملین ڈالرز کا عطیہ دیا۔
اسی طرح سی بی سی کملا ہیرس کے انٹرویو کے حوالے سے ایک مقدمے پر ٹرمپ کے ساتھ تصفیہ کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے، کیونکہ اس کی بنیادی کمپنی پیراماؤنٹ کو سکائی ڈانس میڈیا کے ساتھ انضمام کے لیے وفاقی منظوری درکار ہے۔
امریکی خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس کے برعکس صدر کی جانب سے اس کا نام تبدیل کر کے ‘گلف آف امریکہ’ رکھنے کی تجویز کی مزاحمت کی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے وفاقی حکومت کی طاقت کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اب صدارتی دفتر میں وہ اس طاقت کا اس طرح استعمال کر رہے ہیں جس کی کسی سابقہ صدر نے کوشش نہیں کی۔
تاہم ان کے اقدامات کے اثرات وفاقی حکومت کے ان اداروں اور محکموں کے مقابلے کہیں زیادہ نظر نہیں آئے جن پر وہ اب کنٹرول رکھتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
تنوع کے پروگراموں پر حملہ اور مستقبل کی سیاسی میراث کا سوال
وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کا آغاز دریائے پوٹومیک پر طیارے اور ہیلی کاپٹر کے تصادم کے متاثرین کے لیے ایک لمحے کی خاموشی سے ہوا۔
کچھ ہی لمحوں میں یہ خاموشی ٹوٹی اور ٹرمپ پر شدید تنقید ہو رہی تھی۔
کیونکہ صدر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی ایوی ایشن ایجنسی میں تنوع اور مختلف نسل کے افراد اس حادثے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ یہ ادارہ مختلف شعوری معذوری کے حامل افراد کو ائیر ٹریفک کنٹرولر کے طور پر ملازمتوں پر رکھتا ہے۔ تاہم انھوں نے اس بارے میں کوئی شواہد فراہم نہیں کیے۔
یہ ایک چونکا دینے والا لمحہ تھا جو اس حملے کی علامت تھا جو ان کے صدارتی دور نے سماجی تنوع کے پروگراموں کے خلاف شروع کیا تھا جو حالیہ برسوں میں امریکی حکومت اور کارپوریٹ دنیا میں پھیلے ہیں۔
ٹرمپ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے تنوع اور ایکویٹی کے منصوبوں یا پروگراموں کو ختم کرے اور نجی کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کی تحقیقات کرے جن کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ ‘غیر قانونی سماجی تنوع کے فروغ میں’ مصروف ہیں۔
ان کی ہدایت نے میٹا اور گولڈمین جیسی معروف عالمی کمپنیوں کے درمیان ان پروگراموں کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے اقدامات کو تیز کر دیا ہے۔ سب سے پہلے 1960 کی دہائی میں شہری حقوق کے تناظر میں متعارف کروائی گئی ثقافتی تنوع کے اقدام میں سیاہ فام امریکیوں کے لیے مواقع کو بڑھانے کی کوشش تھیں۔ بعد میں انھوں نے خواتین، ایل جی بی ٹی کے حقوق اور دیگر نسلی گروہوں کو شامل کیا۔
سنہ 2020 میں پولیس افسران کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی موت کے بعد انسانی حقوق کی تحریک بلیک لائفز میٹرز کے مظاہروں کے تناظر میں کارپوریٹ امریکہ کے بیشتر حصے نے کوششیں تیز کیں اور اسے قبول کیا تھا ۔
لیکن اس کے ناقدین کے مطابق رنگ و نسل کے تحت مواقع فراہم کرنے کی تحریک سیاست اور نسل کو قابلیت سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور ایک ایسی تقسیم پیدا کی جا رہی ہے جس کی آج کے جدید امریکہ میں کوئی گنجائش نہیں۔
اگرچہ ٹرمپ کے احکامات کو معاشرے کے بہت کم افراد کی حمایت حاصل ہے لیکن بہت سے اس کے اثرات کے متعلق پریشان ہیں۔
آرلنگٹن نیشنل سیمٹری نے اپنی ویب سائٹس نے خدمات فراہم کرنے والے تمام سیاہ فام افراد کی تفصیلات ہٹا دی ہیں۔ اسی طرح پینٹاگون کے دیستاویزات میں سے اینولا گے نامی جہاز کا نام ہٹانے کا کہا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس کے نام میں لفظ ‘گے’ ہے جسے ہم جنس پرستی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ وہ جہاز تھا جس نے جاپان پر ایٹمی بم گرایا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دفتر میں پہلے سو دن ان کی یکطرفہ طاقت کے استعمال کا ایک ایسا مظہر تھا جس کی حالیہ امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
وفاقی حکومت کے ایک بڑے حصے کو ختم کرنے کی ان کی کوششوں کو ان کے بعد میں آنے والے صدور کو بحال کرنے میں اگر کئی دہائیاں نہیں تو کئی سال ضرور لگیں گے۔
تاہم، دوسرے طریقوں سے ٹرمپ کی اب تک کی کوششیں کم مستقل ہوسکتی ہیں۔ کانگریس کی طرف سے منظور کیے گئے نئے قوانین کی حمایت کے بغیر ان کی بہت سی زبردست اصلاحات مستقبل کے صدر ختم کر سکتے ہیں۔
اس سال کے آخر میں کانگریس میں ریپبلکن کی کمزور اکثریت ٹرمپ کے ایجنڈے کے لیے قانون سازی کی حمایت فراہم کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن ان کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔
اور اگلے سال کے وسط مدتی کانگریس کے انتخابات میں ان اکثریتوں کی جگہ مخالف ڈیموکریٹس لے سکتے ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی چھان بین کرنے اور اس کے اختیار کو کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس دوران عدلیہ سے مزید محاذ آرائی اور سپریم کورٹ کی جانب سے قدامت پسندی ٹرمپ کی کوششوں میں آڑے آ سکتی ہے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے پہلے سو دن انتہائی ڈرامائی رہے ہیں جہاں انھوں نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اصل چیلنج اگلے 1361 دن ہیں جن میں یہ معلوم ہو گا کہ وہ اپنی ایک سیاسی میراث چھوڑنے کے قابل ہو ہیں یا نہیں۔
SOURCE : BBC