SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہReuters
ایک منٹ قبل
ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے اپنی الیکٹرک کار کمپنی کے منافع اور فروخت میں بڑی کمی کے بعد امریکی حکومت میں اپنے کردار کو ’نمایاں طور پر‘ کم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی صدارت سنبھالنے کے بعد ایلون مسک کو کفایت شعاری مہم یعنی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی قیادت سونپی گئی۔
ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی ایک سرکاری ادارہ یا محکمہ نہیں بلکہ ایک ٹیم ہے جسے ٹرمپ نے غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کٹوتی کے لیے وسیع اختیارات دیے ہیں لیکن اب ایلون مسک نے کہا ہے کہ ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کے لیے مختص ان کے وقت میں آئندہ ماہ سے ’نمایاں طور پر کمی‘ آئے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ٹیسلا سے اپنی توجہ ہٹانے کے الزامات کے بعد اب ہفتے میں صرف ایک سے دو دن ہی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی میں گزاریں گے۔
امریکی سیاست میں ایلون مسک کی شمولیت کے بعد سے دنیا بھر میں ٹیسلا کے خلاف احتجاج جبکہ اس کا بائیکاٹ بھی ہوا۔
ایلون مسک جیسے عارضی سرکاری ملازمین عام طور پر سال میں صرف 130 دن کام کرتے ہیں اور اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے دن سے دیکھا جائے تو اگلے ماہ کے آخر میں یہ مدت ختم ہونے والی ہے۔
لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ایلون مسک، جنھوں نے صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم پر 25 کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے، مکمل طور پر مستعفیٰ کب ہوں گے۔
اس مہینے کے آغاز میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایلون مسک کو ’جب تک ہو سکا، اپنے ساتھ رکھیں گے۔‘
ایلون مسک نے کہا ہے کہ وہ اب ’اپنا زیادہ وقت ٹیسلا کے لیے مختص کریں گے‘ لیکن یہ بھی کہا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو مکمل طور پر نہیں چھوڑیں گے۔
کام کو ’انتہائی اہم‘ قرار دیتے ہوئے مسک نے کہا کہ ’جب تک صدر چاہیں گے‘ اور ’جب تک یہ فائدہ مند ہے‘ وہ اس عہدے پر موجود رہیں گے۔
منگل کے روز ٹیسلا نے گذشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں اپنی گاڑیوں کی فروخت میں 20 فیصد جبکہ منافع میں 70 فیصد سے زیادہ کمی کے بارے میں بتایا۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
کمپنی نے یہ کہتے ہوئے کہ ’سیاسی جذبات میں تبدیلی‘ مانگ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، سرمایہ کاروں کو خبردار کیا کہ یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
مسک نے ٹیسلا کاروں کے بائیکاٹ کا الزام ان لوگوں پر لگایا جو ’ان پر اور ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی ٹیم پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
منگل کو مارکیٹ بند ہونے تک کمپنی کے حصص نے اس سال اپنی قدر کا تقریباً 37 فیصد گنوا دیا تاہم مارکیٹ بند ہونے کے بعد ان میں دوبارہ پانچ فیصد اضافہ ہوا۔
ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر میں عائد کردہ ٹیرف کا اثر ٹیسلا پر بھی پڑا۔ اگرچہ ٹیسلا کی اپنی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی گاڑیاں امریکہ میں ہی تیار کی جاتی ہیں تاہم ان کے بہت سے حصے چین میں بھی تیار ہوتے ہیں۔
کمپنی کے مطابق ’تیزی سے بدلتی تجارتی پالیسی‘ اس کی سپلائی چین کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اخراجات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
منگل کو ایلون مسک نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹیسلا شمالی امریکہ، یورپ اور چین میں مقامی سپلائی چینز کی وجہ سے ٹیرف سے سب سے کم متاثر ہونے والی کار کمپنی ہے لیکن انھوں نے مزید کہا کہ یہ ٹیرف ’کمپنی کے لیے اب بھی سخت ہیں، جہاں مارجن کم ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں کم ٹیرف کی وکالت کرتا رہوں گا لیکن میں بھی صرف اتنا ہی کر سکتا ہوں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ٹیسلا کے مسائل بڑھ رہے ہیں‘
ایلون مسک کی تجارتی مشیر پیٹر ناوارو سمیت ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر عہدیداران سے تلخ کلامی بھی ہوئی ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں ایلون مسک نے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کو ٹیسلا کے حوالے سے تبصرہ کرنے پر ’بے وقوف‘ قرار دیا۔ پیٹر ناوارو نے کہا تھا کہ ایلون مسک ’کار مینوفیکچرر نہیں بلکہ بہت سے کیسز میں کار اسمبلر ہیں۔‘
ماضی میں ٹیسلا کے مغربی یورپ کے لیے ڈائریکٹر جیورج ایل نے بی بی سی ایک پروگرام میں بتایا کہ اگر ارب پتی شخصیت ایلون مسک ’ان کمپنیوں پر توجہ مرکوز کریں، جن میں ان کی کارکردگی غیر معمولی ہے تو میرے خیال میں لوگ ایک بار پھر مصنوعات کے معیار اور تجربے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں ایلون ایسے شخص نہیں جن کی سوچ کو چیلنج کرنے کے لیے ان کے اردگرد مختلف رائے اور سوچ کے حامی افراد ہوں بلکہ وہ یکسوئی اور ایک سوچ سے کام کرنے والے انسان ہیں۔‘
ٹیسلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل کی ترقی میں مصنوعی ذہانت اہم کردار ادا کرے گی حالانکہ سرمایہ کار ماضی میں ان دلائل سے غیر مطمئن رہے ہیں۔
ٹیسلا کی جانب سے اس ماہ کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ اس کی پہلی سہ ماہی میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد تین سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔
برطانیہ کی ایک مالیاتی کمپنی ’اے جے بیل‘ میں سرمایہ کاری کے تجزیہ کار ڈین کوٹسورتھ کہتے ہیں کہ ٹیسلا کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی سپلائی چین میں ممکنہ رکاوٹ نے بھی خطرات پیدا کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹیسلا کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔‘
SOURCE : BBC