SOURCE :- BBC NEWS

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سیم فرانسس اور طحہٰ فاروق
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 20 دسمبر 2024

    اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل

برطانوی کابینہ کی رکن ٹیولپ صدیق نے بنگلہ دیش میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

42 سالہ ٹیولپ صدیق برطانوی وزارت خزانہ میں اقتصادی وزیر تھیں اور وہ بنگلہ دیش میں گذشتہ برس عوامی احتجاج کے بعد حکومت چھوڑنے والی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی بھانجی ہیں۔

ٹیولپ صدیق پر الزام ہے کہ انھوں نے سنہ 2013 میں بنگلہ دیش اور روس کے درمیان ایک معاہدہ کروایا جس کے باعث بنگلہ دیش میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی کُل قیمت میں اضافہ ہوا۔

ٹیولپ صدیق کے قریبی ذرائع نے الزامات کو ’جھوٹا‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ’مکمل طور پر سیاسی‘ الزامات ہیں جن کا مقصد ان کی خالہ شیخ حسینہ واجد کو نقصان پہنچانا ہے۔

ٹیولپ صدیق کا نام بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بدعنوانی کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ان کا خاندان مبینہ طور پر تین اعشاریہ نو ارب پاؤنڈ کی خُورد بُرد میں ملوث ہے۔

برطانوی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران، ٹیولپ کا کام ملک کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے نمٹنا بھی تھا۔

بنگلہ دیشی نژاد وزیر کی جانب سے وزارت چھوڑنے کا فیصلہ بنگلہ دیش میں بدعنوانی کی ایک اور تحقیقات میں شامل کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔

ٹیولپ کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ ان کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔

ادھر برطانوی وزیر اعظم کے مشیروں سر لاؤری میگنس نے کہا ہے کہ انھیں ‘بےضابطگیوں کے ثبوت’ نہیں ملے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیولپ کو اپنی خالہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اپنی ساکھ کو پہنچنے والے خطرے سے ہوشیار رہنا چاہیے تھا۔

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

صدیق لندن کی ہیمپسٹڈ اور ہائی گیٹ سیٹ سے لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اس سے قبل وہ شیخ حسینہ سے وابستہ افراد کی جانب سے لندن میں جائیدادوں کے استعمال پر بھی تحقیقات کی زد میں آچکی تھیں۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت سے وابستہ ایک شخص نے ٹیولپ کو کنگز کراس کے علاقے میں فلیٹ دیا تھا۔

میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ٹیولپ نے 2022 میں یہ فلیٹ بطور تحفہ حاصل کرنے کی خبروں کو مسترد کر دیا تھا اورکہا تھا کہ یہ فلیٹ ان کے والدین نے خریدا ہے۔ انھوں نے اخبار کو خبر شائع کرنے پر قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔

لیکن پھر لیبر پارٹی سے وابستہ ذرائع نے اخبار کو بتایا تھا کہ یہ فلیٹ ٹیولپ صدیق کو ایک پراپرٹی ڈویلپر نے تحفے میں دیا تھا، جس کے مبینہ طور پر ان کی خالہ شیخ حسینہ سے روابط تھے۔

برطانوی وزیراعظم کے مشیر سر لاؤری میگنس نے ایک ہفتے تک اس معاملے کی تحقیقات کیں۔

سر لاؤری نے تحقیقات کے بعد اپنے خط میں کہا کہ ٹیولپ صدیق نے اعتراف کیا کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ کنگز کراس میں ان کے فلیٹ کا اصل مالک کون ہے۔

انھوں نے کہا، ’ٹیولپ یہ فرض کر رہی تھیں کہ ان کے والدین نے یہ فلیٹ اس کے سابقہ ​​مالک سے خرید کر انھیں تحفتاً دیا تھا اور یوں انھوں نے نادانستہ طور پر عوام کو فلیٹ دینے والے فرد کی شناخت کے بارے میں گمراہ کیا۔‘

خط میں سر لاؤری نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ میڈیا میں آنے والی تمام رپورٹس کی جامع تحقیقات نہیں کر سکتے تاہم انھیں ٹیولپ صدیق یا ان کے شوہر کی جانب سے لندن میں جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے کیے گئے اقدامات میں بےضابطگیوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا جو پریس کی توجہ کا موضوع رہی ہیں۔

’مجھے صدیق کی ملکیت والی جائیدادوں سے متعلق کسی غیرمعمولی مالیاتی سرگرمی کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملا جس میں عوامی لیگ (یا اس سے وابستہ افراد) یا بنگلہ دیش شامل ہوں۔ مجھے یہ بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ ٹیولپ یا ان کے شوہر کے مالی اثاثے کسی بھی غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے‘۔

ٹیولپ صدیق کا خاندانی پسِ منظر

ٹیولپ صدیق سنہ 2015 سے لیبر پارٹی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہو رہی ہیں۔

ان کے نانا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے پہلے صدر تھے۔ 1975 میں جب ڈھاکہ میں فوجی بغاوت ہوئی تو مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد مارے گئے تاہم ٹیولپ کی والدہ ریحانہ اور ان کی بہن شیخ حسینہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئی تھیں۔

ان کی والدہ کو برطانیہ نے اس وقت سیاسی پناہ دی جب وہ بہت چھوٹی تھیں۔

ان کے والد ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور ان کی ٹیولپ کی والدہ سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں انھوں نے شادی کرلی اور اپنے خاندان کو لندن منتقل کردیا۔

ٹیولپ صدیق کے مطابق ان کی پرورش بطور ایک مسلمان ہوئی تھی اور ان کے خاندان نے ‘کثیرالثقافتی برطانیہ کو اپنا لیا۔’

بچپن میں انھوں نے نیلسن منڈیلا، بِل کلنٹن اور مدر ٹریسا سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور ان کے خاندان کو وائٹ ہاؤس بھی مدعو کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹیولپ صدیق نے 16 برس کی عمر میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سیاست میں متحرک ہونے سے قبل وہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، سیو دا چلڈرن اور دا گریٹ لندن اتھارٹی کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔

سنہ 2017 میں چینل 4 کے ایک انٹرویو کے دوران میزبان نے ٹیولپ صدیق سے پوچھا تھا کہ انھوں نے بنگلہ دیش میں کبھی اپنی خالہ کو چیلنج کیوں نہیں کیا جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔

اس بحث کے بعد پروگرام کے ایڈیٹر نے شکایت کی تھی کہ ٹیولپ صدیق کا رویہ ایک حاملہ پروڈیوسر کے ساتھ ’دھمکی آمیز‘ تھا، جس کے بعد ٹیولپ صدیق نے اپنے رویے پر معافی مانگ لی تھی۔

SOURCE : BBC