SOURCE :- BBC NEWS

dubai

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, روحان احمد
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

اسلام آباد کے الشفا ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر ربیعہ حسن کو اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ایک میڈیکل کانفرنس کے لیے متحدہ عرب امارات جانا تھا تاکہ وہ وہاں اپنی تحقیق پیش کر سکیں لیکن ویزا نہ ملنے کے سبب ایسا نہیں ہو سکا۔

’تقریباً ڈھائی ماہ پہلے مجھے دیگر ڈاکٹرز کے ساتھ متحدہ عرب امارات جانا تھا لیکن مجھے اور کچھ دیگر ڈاکٹرز کو یہ کہہ کر ویزا نہیں دیا گیا کہ ابھی انفرادی ویزے جاری نہیں کیے جا رہے۔‘

ان کے مطابق ’کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ ہی لوگ جا سکے جن کے ساتھ ان پارٹنر (شوہر یا بیوی) تھے، باقی ہم سب لوگوں کو پیچھے پاکستان میں ہی رُکنا پڑا۔‘

ڈاکٹر ربیعہ حسن وہ واحد پاکستانی نہیں جنھیں متحدہ عرب امارات کے ویزے کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ ٹریول کنسلٹنٹس اور متحدہ عرب امارات جانے کی خواہش رکھنے والے دیگر افراد بھی ویزا مسائل کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ویزا کے حصول میں پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور پاکستانی شہری سنبل (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ’متحدہ عرب امارات کے ویزا مرکز نے مجھے ای میل کے ذریعے بتایا کہ مجھے ویزے کے حصول میں کسی بھی قسم کی پابندی کا سامنا نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے تمام ٹریول ایجنٹس بتا رہے ہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا نہیں لگ رہا۔‘

سنبل تقریباً 12 برس تک متحدہ عرب امارات میں مقیم رہی ہیں اور حال ہی میں وہاں سے باہر منتقل ہوئی ہیں، تاہم جب انھوں نے اپنے خاندان سے ملنے جانے کے لیے دوبارہ ویزا کے حصول کی کوشش کی تو انھیں ہر ٹریول ایجنٹ نے یہی جواب دیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر متحدہ عرب امارات کا ویزا لگنا آج کل ایک مشکل کام بن گیا ہے۔

’اسی لیے میں نے ویزا کی درخواست دینے کا خطرہ مول ہی نہیں لیا۔‘

سنبل نے اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کی کیونکہ ان کے خیال میں متحدہ عرب امارات کی ویزا پالیسی پر تنقید کے سبب انھیں مستقبل میں بھی شاید ویزا ملنا مشکل ہو جائے۔ ان کا ڈر بلاجواز بھی نہیں کیونکہ ماضی میں متحدہ عرب امارات کے حکام کہہ چکے ہیں کہ وہاں آنے کے خواہشمند افراد کو ویزا دینے سے قبل ان کی سوشل میڈیا ایکٹویٹی یا ڈیجٹل فُٹ پرنٹ چیک کیا جاتا ہے۔

متحدہ عرب امارات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

رواں برس پاکستانی چینل جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کراچی میں متحدہ عرب امارات کے قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرومیتی نے تصدیق کی تھی کہ لوگوں کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی چیک کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی حکومت بھی شہریوں کو ویزے کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں سے واقف ہے اور یہ معاملہ پارلیمان میں بھی اُٹھایا جا رہا ہے۔

پیر کو سینیٹ کی کمیٹی برائے اورسیز پاکستانیز کے چیئرمین سینیٹر ذیشان خٹک نے ایک اجلاس کے دوران کہا کہ ٹریول ایجنٹس دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ویزے کی تمام شرائط پوری کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی لوگوں کو ویزے جاری نہیں ہو رہے۔

اس اجلاس کے دوران وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز کے سیکریٹری نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانیوں کو ویزے ملنے پر ’مکمل پابندی‘ نہیں ہے اور نہ ہی ہنرمند افراد کو ویزوں کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا ہے۔

تاہم انھوں نے تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات میں غیرہنرمند پاکستانیوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا رواں برس بھی تقریباً سات لاکھ پاکستانی متحدہ عرب امارات گئے ہیں۔

لیکن روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو ویزوں کے حصول کی کوشش میں مدد دینے والے ٹریول ایجنٹس اور کنسلٹنٹس کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستانیوں کی ویزا کی درخواستوں کے مسترد ہونے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اسلام آباد میں میقم ویزا کنسلٹنٹ نتاشہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’بہت عرصے سے متحدہ عرب امارات کا سفارتخانہ پاکستانیوں کی ویزا کی درخواستوں کو مسترد کر رہا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جیسے کہ اکثر پاکستانی ویزا ختم ہو جانے کے باوجود بھی پاکستان واپس نہیں آتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں ایک سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق 30 برس سے کم عمر افراد ویزا ختم ہونے کے باوجود وہاں رُک جاتے ہیں اور اسی سبب اب متحدہ عرب امارات میں حکام 30 برس سے کم عمر افراد کو ویزا نہیں دے رہے۔‘

تاہم نتاشہ کے مطابق ان لوگوں کو ویزے اب بھی آسانی سے مل رہے ہیں جن کی بیویاں یا شوہر متحدہ عرب امارات میں ہیں اور ان کے بچوں کو بھی ویزے فوراً مل جاتے ہیں۔

ویزے کے حصول کے لیے نئی شرائط

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 18 لاکھ سے زیادہ پاکستانی شہری آباد ہیں۔

پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر کا اہم کردار ہے اور سٹیٹ بینک کے مطابق صرف گذشتہ مالی سال میں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں نے اپنے ملک پانچ ارب 53 کروڑ ڈالر بھیجے تھے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے بار بار ویزے کے مسئلے کو اُٹھانے کے سبب متحدہ عرب امارات نے نئی شرائط متعارف کروائی ہیں اور ٹریول ایجنٹس کے مطابق ان شرائط کو پورا کر کے جلد ویزے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ٹریول کنسلٹنٹ نتاشہ کا کہنا ہے کہ ‘نئی ویزا درخواستوں کے ساتھ اب دستاویزات کے علاوہ ایک ضامن بھی مانگا جا رہا ہے جو کہ ضمانت دے گا کہ متحدہ عرب امارات جانے والا اپنے ویزے کی معیاد پوری ہونے سے قبل واپس آ جائے گا۔‘

’ویزے کی درخواست کے ساتھ اب حلف نامہ اور پولیس کی جانب سے جاری کردہ کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی اب لازمی جمع کروانا ہو گا۔‘

پاکستانیوں کو ویزے کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا کیوں ہے؟

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے حکام ویزوں کے حصول میں پریشانیوں کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔

ایک انٹرویو کے دوران کراچی میں متحدہ عرب امارات کے قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرومیتی نے پاکستانی شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ویزے جاری کرنے سے قبل متحدہ عرب امارات میں حکام ان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بھی دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جو بھی سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں، آپ جو بھی شیئر کر رہے ہیں وہ جمع (محفوظ) ہو رہا ہے چاہے ہم نے اچھا شیئر کیا یا غلط شیئر کیا۔ آپ لوگ خود اپنے لیے پابندیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آدمی بہت شرارتیں کر رہا ہے یا مسائل پیدا کر رہا ہے۔ پھر انھیں وہاں (متحدہ عرب امارات) لانے کی ضرورت کیا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

متحدہ عرب امارات میں تعینات پاکستانی سفیر فیصل ترمذی بھی ایک انٹرویو کے دوران اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کو ویزے کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’ہمارے سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی نقصان ہوا ہے۔ اگر آپ متحدہ عرب امارات کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو اسے یہاں پر اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔‘

متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جو ایک بات ہم زیادہ سنتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستانی وعدے تو بڑے کرتے ہیں لیکن انھیں پورا نہیں کرتے۔‘

’ہمیں اپنے لوگوں کو سکھانا ہوگا کہ کثیر الاقوامی اور کثیرالمذہبی معاشرے میں کیسے رہا جاتا ہے۔ کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جن پر ہمیں قابو پانا ہے، اگر آپ کے اپنے ملک میں مسائل ہیں تو برائے مہربانی وہ مسائل یہاں نہ لائیں۔‘

متحدہ عرب امارات میں پاکستانی قونصل خانے بھی شہریوں کو اپنی سرگرمیوں پر نظرِثانی کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دُبئی میں پاکستانی قونصل خانے کی ویب سائٹ پر موجود ہدایت نامے میں خصوصاً ان نکات پر زور دیا گیا ہے:

  • شاہی خاندان کے اراکین یا ان کے معاملات پر گفتگو کرنے سے پرہیز کریں۔
  • متحدہ عرب امارت میں کسی بھی مذہب کی تضحیک نہ کریں۔
  • متحدہ عرب امارات میں رہائش کے دوران ملک کی پالیسیوں پر تنقید نہ کریں۔ نفرت انگیز مواد یا متحدہ عرب امارات کی پالیسیوں پر تنقید مجرمانہ فعل ہے۔
  • سیاسی تقاریب، جلسے اور جلسوں کا اہتمام نہ کریں اور نہ ان میں شریک ہوں۔ متحدہ عرب امارات ایسی تقریبات کے حوالے سے حساس ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔

SOURCE : BBC