SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہINCINDIA/X
15 منٹ قبل
انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ کئی دنوں سے جاری کشیدگی کے بعد 10 مئی 2025 کی شام کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔
چار روز کے شدید تناؤ کے دوران انڈیا اور پاکستان کی افواج نے ایک دوسرے کے حملوں کو ناکام بنانے کے متعدد دعوے کیے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سے ہونے والے نقصانات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔
پہلگام حملے کے بعد پاکستان میں انڈین فوج کی کارروائی ’آپریشن سندور‘ اور پھر پاکستان کی جوابی کارروائی ’بنیان مرصوص‘ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا۔
ایسے میں 10 مئی کی شام پانچ بجے کے قریب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’امریکہ کی ثالثی میں طویل بات چیت کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔‘
ٹرمپ کے یہ لکھنے کے بعد دونوں ممالک کی حکومتوں نے بھی اس بارے میں باضابطہ اعلان کیا ۔
اس سے قبل سات مئی کی صبح انڈین فوج نے کہا تھا کہ ’آپریشن سندور‘ کے تحت اس نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں متعدد اہداف پر حملے کیے تھے جس کے بعد کشیدگی بڑھتے بڑھتے 10 مئی کے دن تک پہنچی جب دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر متعدد حملوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔
ایسے میں جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو سوشل میڈیا پر انڈین صارفین خصوصا کانگریس اور اس کے حامیوں کی جانب سے انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا ذکر نمایاں رہا۔

،تصویر کا ذریعہNIXON LIBRARY
اندرا گاندھی کے بارے میں کانگریس نے کیا کہا؟
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کانگریس کے آفیشل اکاؤنٹ کی جانب سے اندرا گاندھی اور سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ایک تصویر شیئر کی گئی ہے۔
کانگریس کی جانب سے تصویر کے ساتھ پیغام میں لکھا گیا کہ ’اندرا گاندھی نے امریکی صدر رچرڈ نکسن سے کہا کہ ’ہماری ریڑھ کی ہڈی میں دم ہے۔ ہمارے پاس ہر ظلم کا مقابلہ کرنے کے وسائل ہیں۔ وہ وقت گزر گیا جب تین یا چار ہزارمیل دور بیٹھا ملک حکم دیتا تھا کہ انڈیا ان کی خواہشات پر عمل کرے۔‘
کانگریس نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ’یہ ہمت تھی۔ انڈیا کے لیے کھڑے ہونا اور ملک کے وقار پر سمجھوتہ نہ کرنا اس کو کہتے تھے۔‘
کانگریس سمیت بعض دیگر سوشل میڈیا صارفین یو پی ایس سی کوچنگ سے وابستہ استاد وکاس دیویاکرتی کی ایک پرانی ویڈیو بھی شیئر کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں وکاس دیویاکرتی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’ایک خاتون وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ دوسرے لوگ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دیتے ہیں تاہم انھوں (اندرا گاندھی) نے کہا نہیں مگر دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘
تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1971 اور 2025 کا موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔
1971 میں جب پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد بنگلہ دیش بنا تو اس وقت سوویت یونین تھا لیکن 1991 میں یہ بکھر گیا اور پھر روس بن گیا۔
روس کے پاس وہ طاقت نہیں تھی جو سوویت یونین کے پاس تھی اور یہ انڈیا کے لیے بھی ایک دھچکا تھا۔
ایک طرف سوویت یونین نے انڈیا کا ساتھ دیا تو دوسری طرف پاکستان اس وقت جوہری طاقت رکھنے والا ملک نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر انڈیا کے سیاستدان ہنس راج مینا نے لکھا: ’امریکہ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ زمینی حالات مشکل تھے۔ لیکن اندرا گاندھی خوفزدہ نہیں تھیں۔‘
’1971 میں انھوں نے نہ صرف انڈیا کے وقار کو بچایا بلکہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اور ایک نیا ملک بنا کر تاریخ رقم کی۔ وہ صرف ایک وزیر اعظم نہیں تھیں، وہ ایک جنون تھیں، وہ ایک عزم تھیں۔‘

،تصویر کا ذریعہX/Screengrab
’کوئی بھی اس طرح اٹھ کر اندرا گاندھی نہیں بن جاتا‘
صحافی روہنی سنگھ نے لکھا کہ ’الیکشن لڑنے اور جنگ لڑنے میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی بھی اس طرح اٹھ کر اندرا گاندھی نہیں بن جاتا۔‘
کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر ایک خط شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’12 دسمبر 1971 کو اندرا گاندھی نے امریکی صدر نکسن کو یہ خط لکھا تھا۔ چار دن بعد پاکستان نے ہتھیار ڈال دیے۔‘
اس پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے لکھا کہ: ’1971 کی جنگ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے ختم ہوئی تھی۔ تاہم اس کے بعد ہونے والا شملہ معاہدہ روس اور امریکہ دونوں کے دباؤ میں تیار کیا گیا تھا۔ انڈیا نے بغیر کسی سٹریٹیجک فائدے کے 99 ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کیا۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’نہ تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو خالی کرانے کی کوئی شرط تھی اور نہ ہی سرحد کی باضابطہ حد بندی کی گئی تھی۔ نہ ہی جنگ یا پناہ گزینوں کے بحران کے لیے انڈیا نے کوئی معاوضہ مانگا تھا۔ اندرا گاندھی اس وقت وزیر اعظم تھیں۔ اپنے فائدے کی چیزیں پھیلانا بند کریں۔‘
1971: نکسن اور اندرا گاندھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
امریکی صدر رچرڈ نکسن اور اندرا گاندھی کے درمیان فاصلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
جب نکسن 1967 میں دہلی میں اندرا گاندھی سے ملے تو 20 منٹ کے اندر اندر وہ اتنی بیزار ہو گئیں کہ انھوں نے نکسن کے ساتھ موجود انڈین وزارت خارجہ کے ایک افسر سے ہندی میں پوچھا کہ مجھے یہ کب تک برداشت کرنا پڑے گا؟
ان دونوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری 1971 میں بھی جاری رہی۔
نومبر 1971 میں اندرا گاندھی دنیا کی توجہ مشرقی پاکستان کی صورتحال کی جانب مبذول کرانے کے لیے امریکہ گئیں۔ نکسن نے ملاقات سے پہلے اندرا گاندھی کو 45 منٹ تک انتظار کرایا۔
وائٹ ہاؤس میں اپنے استقبالیہ خطاب میں نکسن نے بہار کے سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن مشرقی پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا۔
بی بی سی کے نامہ نگار ریحان فضل نے چند سال قبل انڈین فارن سروس کے ایک سینئر افسر مہاراج کرشنا رسگوترا سے بات کی تھی۔
رسگوترا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ نکسن کا مقصد اندرا گاندھی کو نیچا دکھانا تھا۔ وہ اندرا گاندھی کی توہین کرنا چاہتے تھے۔ بات چیت شروع سے ہی اچھی طرح سے نہیں چل رہی تھی۔‘
’نکسن نے ان ایک کروڑ بنگالی پناہ گزینوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جو اس وقت انڈیا آئے تھے اور کیمپوں میں مقیم تھے۔۔۔ وہ انڈیا پر بوجھ بنے ہوئے تھے اور انھیں بھوک کا سامنا تھا۔‘
’شاید انھیں کچھ شک تھا کہ ہم جنگ کا اعلان کرنے آئے ہیں۔ انھوں نے جان بوجھ کر اندرا گاندھی کے ساتھ بدسلوکی کی۔‘
اندرا گاندھی کے بارے میں رسگوترا نے کہا تھا کہ ’اندرا نے اسے نظر انداز کیا۔ وہ ایک بہت ہی باوقار خاتون تھیں۔ انھوں نے وہی کہا جو انھیں نکسن سے کہنا تھا جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں سے جو پناہ گزین ہمارے ملک آئے ہیں وہ واپس پاکستان چلے جائیں۔ ہمارے ملک میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہNANDA FAMILYetty Images
امریکی بحری بیڑا اور 1971 کی جنگ
سنہ 1971 کی جنگ کے دوران امریکہ نے اپنا بحری بیڑا خلیج بنگال بھیجا تھا۔
اندرا گاندھی نے بعد میں اطالوی صحافی اوریانا فلاچی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی بےخوفی کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
’اگر امریکیوں نے ایک بھی گولی چلائی ہوتی یا امریکیوں نے خلیج بنگال میں بیٹھنے کے علاوہ کچھ اور کیا ہوتا تو تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی تھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ خوف ایک بار بھی میرے ذہن میں نہیں آیا۔‘
ایڈمرل ایس ایم نندا نے اپنی سوانح حیات ’دا مین ہوبامڈ کراچی‘ (The Man Who Bombed Karachi) میں لکھا ہے کہ ’دسمبر کے شروع میں ایک سوویت جنگی جہاز اور بارودی سرنگیں صاف کرنے والا جہاز آبنائے ملاکا سے یہاں پہنچے۔ سوویت بحری بیڑہ امریکی بیڑے کے ساتھ ساتھ رہا جب تک کہ وہ جنوری 1972 کے شروع میں واپس نہ چلا گیا۔‘
SOURCE : BBC