SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا
ہے کہ امریکہ نے اس وقت مداخلات کا فیصلہ کیا جب انھیں احساس ہوا کہ پاکستان اور انڈیا
کے درمیان جاری لڑائی ایک خطرناک جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو
میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے حملوں کے بعد پاکستان کی جوابی کارروائی دیکھ کر دنیا کے کئی ممالک خاص طور امریکہ کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ لڑائی ایک
خطرناک جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ سنیچر کے روز انھیں امریکی وزیرِ
خارجہ مارکو روبیو کی کال موصول ہوئی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ان سے بات کرنے سے
پہلے مارکو روبیو انڈین وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے بات کر چکے تھے۔
’سیکریٹری روبیو نے بتایا کہ انڈیا اس [لڑائی] کو روکنے کے
لیے تیار ہے، کیا آپ تیار ہیں؟‘
’میں نے کہا بالکل، میں آپ کو زبان دیتا ہوں کہ اگر انڈیا
دوبارہ شروعات نہیں کرتا تو ہم بھی نہیں کریں گے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے چار روز تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری تنازعے کے بعد امریکی صدر نے سنیچر کے روز اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور انڈیا سیز فائر کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور مارکو
روبیو نے انڈیا کو کیا کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کے لیے راضی ہو گیا، اسحاق ڈار کا
کہنا تھا کہ انھیں انڈین اور امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ہونے والی بات چیت
کا کوئی اندازہ نہیں۔
جب پاکستانی وزیرِ خارجہ سے امریکہ کی جانب سے دی جانے والی
یقین دہانیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مارکو روبیو نے انھیں بتایا
تھا کہ پاکستان کی رضامندی کے بعد امریکہ انڈیا سے جنگ بندی کے بارے میں ایک بار
پھر تصدیق کرے گا۔
امریکی صدر کے بیان پر کہ وہ اب بھی اس صورتحال پر پاکستان
اور انڈیا کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ خطے میں
عدم استحکام کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان
کو امریکہ اور عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہوگی، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ
پاکستان ہمیشہ جامع مذاکرات کا حامی رہا ہے لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے
پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے کہہ دیا ہے کہ اگر یہ
معاہدہ توڑا گیا اور پاکستان کا پانی روکا گیا تو اسے جنگی اعلان سمجھا جائے گا۔
’ہر قوم کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے جب آپ کو مشکل فیصلے
لینے پڑتے ہیں، ہم نے نو مئی کی رات کو بھی ایسے ہی فیصلے لیے۔ لیکن ہمیں اب مثبت
انداز میں آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس عمل ایک باوقار طریقے
سے آگے لے جانا چاہتے ہیں اور تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ
اس خطے میں امن اور استحکام آئے۔
SOURCE : BBC