SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہRadio Pakistan
- مصنف, اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
-
6 منٹ قبل
پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے انڈین کواڈ کاپٹر کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے سرکاری ریڈیو نے خبر دی ہے کہ انڈیا نے کواڈ کاپٹر کی مدد سے بھمبھر کے علاقے مناور سیکٹرمیں جاسوسی کرنے کی کوشش کی۔
سکیورٹی ذرائع نے کواڈ کاپٹر گرانے سے متعلق پاکستان کے سرکاری ریڈیو کو بتایا کہ ’یہ واقعہ پاک فوج کی مستعدی، پیشہ ورانہ مہارت اور دفاعی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔‘
سکیورٹی ذرائع نے مزید کہا کہ ’پاک فوج دشمن کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور موثر جواب دینے کے لیے ہر دم تیار ہے۔‘
خیال رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں 26 سیاح ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، واہگہ اٹاری سرحد بند کی، ویزا سہولتیں واپس لیں اور سفارتی روابط محدود کیے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے تمام دو طرفہ معاہدے، جن میں شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، معطل کر دیے، اس کے علاوہ فضائی حدود اور سرحد بند کرنے کے علاوہ تجارت کا عمل معطل، انڈیا کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی اور سفارتی سطح پر انڈیا کو جواب دیتے ہوئے بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
پاکستان نے بھی انڈیا کی طرح دفاعی اتاشیوں اور ان کے معاونین کو ملک چھوڑنے اور اور سفارتی عملہ محدود کرنے کو کہا ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا جس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔
پاکستان نے انڈیا کے ہر اقدام کا جواب دینا شروع کر رکھا ہے مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان نے انڈیا کے ایسے طیارے مار گرائے ہیں۔ بی بی سی نے ماہرین سے اس بغیر پائلٹ والے ڈرون کے حوالے سے بات کی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان نے آج انڈیا کا جو چار پنکھوں والا کواڈ کاپٹر گرانے کا دعویٰ کیا ہے اس پر چار راﺅٹرز لگے ہوتے ہیں جن کی مدد سے ہیلی کاپٹر کی طرح اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کواڈکاپٹر کے سائز کے باعث یہ کہیں بھی کسی کی بھی نظروں میں آئے بغیر جاسوسی کے عمل کو سرانجام دیتا ہے۔ بی بی سی نے ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ کواڈ کاپٹر پاکستانی فوجیوں کی نظر میں کیسے آ گیا اور پھر اس کو نشانہ بنا کر کیسے مار گرایا گیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کواڈ کاپٹر ہے کیا اور یہ جاسوسی کیسے کرتا ہے؟
آپ نے کئی سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں بھی ڈرون کو اڑتے اور تصاویر بناتے دیکھا ہو گا۔ جب یہ ڈرون زمینی تصاویر لے رہا ہوتا ہے تو اس کا رابطہ اس شخص کے کنٹرول سے ہوتا ہے جسے وہ تمام تصاویر بھیجتا رہتا ہے جو ڈرون کے کیمرے میں آ رہی ہوتی ہیں۔
بی بی سی نے جن دفاعی ماہرین سے بات کی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ ’ایل او سی پر گرایا گیا انڈین کواڈ کاپٹر ایل او سی پر پاکستان کی فوجی چوکیوں اور فوجی پوزیشن کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد ولی جنجوعہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک سرویلیئنس ڈیوائس ہے اور یہ کیمرہ آن فلائیٹ ہے جسے ڈرون کی طرح ہی اڑاتے ہیں۔ ان کے مطابق ماضی میں متعدد بار پاکستان نے ایسے انڈین کواڈکاپٹر مار گرائے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ ایک چھوٹا ڈرون طیارہ ہے جس کے ساتھ چھوٹا کیمرہ نصب ہوتا ہے، اسے تصاویر لینے اور ویڈیو بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس شکل و صورت اور حجم کے ڈرون کواڈ کاپٹر یعنی چار ٹانگوں یا چار پروں والے کاپٹر کہلاتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد ولی جنجوعہ کے مطابق ’اگر اس ڈرون کے انجن کی صلاحیت مزید بڑھا دی جائے تو اس میں ایک کے بجائے کئی کیمرے نصب کیے جا سکتے ہیں یا ایک ایسا کیمرہ لگایا جا سکتا ہے جو چاروں اطراف گھومتا رہتا ہے اور تصاویر اتارتا رہتا ہے۔‘
بریگیڈیئر راشد کے مطابق یہ ڈرون کوارڈ ڈرون ٹیکنالوجی سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق ’فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے ڈرون پے لوڈ والے ہوتے ہیں اور ان کا انجن بھی بڑا ہوتا ہے، جنھیں ریموٹلی پائلٹ وہیکل کہا جاتا ہے۔‘
ان کی رائے میں ’کواڈکاپٹر کا مقصد محدود مقاصد کے لیے ہی کیا جاتا ہے اور ان کاپٹرز میں صرف کیمرہ اور کمیونیکشن لنکس ہوتے ہیں اور ان کا پہاڑی علاقوں میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔‘
پاکستان کی فضائیہ کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طیارے پر ویڈیو والے کیمرے سے بڑے سائز کا کیمرہ نصب ہوتا ہے جو 20 ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی سے اپنے کمیرے سے زوم کر کے نیچے کی اچھی تصویر یا ویڈیو بنا لیتا ہے۔
ان کے مطابق اس ڈرون طیارے کا اس سے زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ایک محقق کے مطابق انڈیا عموماً اس ڈرون کو ہمسائیہ مملک کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ استعمال حالیہ عرصے میں یوکرین میں ہوا ہے اور اسرائیل نے غزہ میں بھی ان کا استعمال کیا ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل اس ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔
کراچی کی صفہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر برگیڈئیر ڈاکٹر احمد سعید منہاس کے مطابق ’انڈیا کا یہ کواڈ کاپٹر پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے رائفل سے مار گرایا ہے اور اس کے لیے کوئی میزائل وغیرہ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق چار پنکھوں والے اس طیارے کو عام طور پر سرحدوں پر تعینات فوجیوں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ دشمن کی نقل و حمل پر نظر رکھ سکیں۔
ڈاکٹر احمد سعید کے مطابق ’پاکستان کو گرائے جانے والے انڈین کواڈ کاپٹر سے تین بنیادی معلومات حاصل ہوں گی: اس طیارے کی ریکارڈنگ، انڈیا کے ارادے اور ٹیکنالوجی کی نوعیت۔‘

ایل او سی کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد کا مجموعی فاصلہ 3323 کلومیٹر ہے جس میں سے جموں کشمیر میں 744 کلومیٹر طویل اور 34 کلومیٹر چوڑی دنیا کی سب سے خطرناک عبوری سرحد ہے جسے 1949 میں اقوامِ متحدہ نے سیز فائر لائن قرار دیا تھا، لیکن دونوں ملک شملہ معاہدے کے تحت اسے اب لائن آف کنٹرول یا ایل او سی کہتے ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان سنہ 2021 میں ہونے والے معاہدے کے بعد سنہ 2022 سے ستمبر 2024 کے درمیان جنگ بندی کی صرف دو خلاف ورزیاں ہی ہوئی ہیں۔
جموں کے بعد سانبہ، کٹھوعہ اور جموں سے گزرنے والی اسی لائن کو انڈیا انٹرنیشنل بارڈر کہتا ہے جبکہ پاکستان اسے ورکنگ باونڈری کہتا ہے۔
جموں کے سانبہ، کٹھوعہ، جموں، آرایس پورہ ، راجوری اور پونچھ میں سیز فائر کے تازہ معاہدے سے قبل انڈین حکومت نے ایل او سی کے قریب رہنے والی بستیوں میں 19 ہزار سے زیادہ پختہ زیرزمین بنکر تعمیر کیے تھے۔
اسلام آباد میں مقیم صحافی اور کتاب ’آزادی کے بعد‘ کے مصنف دانش ارشاد کے مطابق یہ ایل او سی سنہ 1948 میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب اقوام متحدہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر جنگ بندی کرائی تھی۔ ان کے مطابق اس وقت یہ سیز فائر لائن کہلاتی تھی مگر بعد میں شملہ معاہدے کے تحت اسے ایل او سی کا نام دیا گیا ہے۔
دانش کے مطابق پرویز مشرف کے دور میں اس لائن پر باڑھ لگائی گئی تھی۔ ان کے مطابق ایل او سی پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، گلگلت بلتستان اور لداخ میں ہے۔ ان کے مطابق چین اور انڈیا کے درمیان جو سرحد ہے اسے ’ایل اے سی‘ کہا جاتا ہے۔
دانش ارشاد کے مطابق ’تقسیم کے وقت انڈیا اور پاکستان میں کشمیر پر لڑائی چھڑ گئی تھی جس کے خلاف انڈیا نے اقوام متحدہ کا رخ کیا تھا اور پھر اقوام متحدہ نے قراردادوں کے ذریعے جو علاقے جس ملک کے پاس تھے انھیں ان کے پاس ہی رہنے دیا اور تنازع کے حل تک اس کا درجہ متنازع ہی رہے گا۔‘
دانش کے مطابق ورکنگ باؤنڈری ان علاقوں کی سرحد کو کہتے ہیں جہاں پاکستان اور انڈیا کے علاقے ہیں جیسے پاکستان میں سیالکوٹ اور سرحد کے اس طرف انڈیا کے علاقے کو جدا کرنے والی سرحد کو ورکنگ باؤنڈری کہتے ہیں۔
SOURCE : BBC