SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, بی بی سی مانیٹرنگ
- عہدہ,
-
4 منٹ قبل
انڈین میڈیا میں پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کے حوالے سے جو نام بار بار لیا گیا ہے وہ ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا ہے۔
ان دعووں کی بنیاد اس تنظیم کے نام سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک بیان ہے۔
بی بی سی مانیٹرنگ نے ٹی آر ایف سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ نہ صرف اس بیان میں نہ تو ٹی آر ایف کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی گروپ کا لوگو موجود ہے جبکہ گروپ نے ماضی میں مسلسل بیانات میں اپنا نام اور لوگو استعمال کیا۔
یہی نہیں بلکہ وہ ماضی میں گروپ کے جاری کردہ ایسے بیانات سے بالکل مختلف بھی ہے جن میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
اگرچہ انڈین میڈیا نے بڑے پیمانے پر ٹی آر ایف کا نام لیا لیکن بیان میں اس نام کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے وہ اپنی شناخت صرف ’کشمیر ریزسٹنس‘ کے طور پر کروا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ گروپ نے سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کا نام استعمال کیا تاہم، اس گروپ نے ماضی میں اپنے پروپیگنڈے میں ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام استعمال کیا اور ’کشمیر ریزسنٹس‘ کی اصطلاح گذشتہ بیانات میں اس گروپ کی جانب سے استعمال ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
تازہ ترین بیان، جو سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر کچھ حامی جہادی اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کیا گیا، آپریشن کی نوعیت یا حملہ آوروں کے بارے میں بھی تفصیلات نہیں دیتا۔

،تصویر کا ذریعہSocial Media

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ٹی آر ایف، جسے انڈین حکومت نے کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم یا پراکسی قرار دیا ہے، ماضی میں عام شہریوں، خاص طور پر دوسری ریاستوں سے آنے والے تارکین وطن کارکنوں اور کشمیر میں اقلیتی ہندو برادری پر حملوں کا دعویٰ کرتی رہی ہے تاہم گروپ نے ماضی میں بڑے پیمانے پر اس سے منسوب حملوں کی تردید بھی کی۔
جون 2024 میں، جموں میں ہندو زائرین کو لے جانے والی بس کو نشانہ بنانے والے حملے کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس گروپ سے منسوب کیا تھا لیکن ٹی آر ایف نے بعد میں ایک بیان جاری کیا، جس میں حملے سے تعلق کی تردید کی گئی اور اس کے نام سے بیان جاری کرنے والے ’جہلم میڈیا ہاؤس‘ سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی آر ایف سے منسوب تازہ ترین بیان کو علاقے یا عسکریت پسند گروپوں پر نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں یا ماہرین نے بھی شیئر نہیں کیا۔
بی بی سی مانیٹرگ کے مطابق نامناسب برانڈنگ اور محدود مواد کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر جہادی گروپوں، جیسے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے برعکس ٹی آر ایف کا میڈیا آپریشن زیادہ مربوط نہیں اور یہ گروپ ٹیلی گرام کے ذریعے ’ریزٹسنس میڈیا‘ کے نام سے اپنا پروپیگنڈا کرتا ہے۔
ماضی میں ٹی آر ایف کے بیانات ’جہلم میڈیا ہاؤس‘ کے ذریعے آتے تھے لیکن، گذشتہ برس جموں حملے کے بعد، ٹی آر ایف نے جہلم میڈیا ہاؤس کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس میڈیا آؤٹ لیٹ کا گروپ سے ’براہ راست یا بالواسطہ‘ کوئی تعلق نہیں۔

،تصویر کا ذریعہSocial Media
پہلگام حملے کے فوری بعد انڈین میڈیا کی جانب سے ایک مشتبہ سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر کسی عسکریت پسند گروپ کو اس کارروائی کا ذمہ دار قرار دینے پر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انڈین صحافی شیبا اسلم فہمی کا کہنا تھا کہ ’وہ پہلگام ہو یا ماضی کے ایسے دیگر واقعات انڈین میڈیا بارہا خود کو شرمندہ کر چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ شاک ڈاکٹرائن ہے۔ ایسا کچھ کہہ دو کہ سب کی توجہ اس پر مرکوز ہو جائے۔ ٹی آر ایف جیسے گروپ کا نام ڈال کر ’شاک ویلیو‘ پیدا کی جا رہی ہے۔‘
انڈین صحافی نے یہ بھی کہا کہ ’انڈیا میں 2014 کے بعد سے میڈیا سیلف ٹریگر موڈ پر رہتا ہے۔ جب بھی کسی بڑے حادثے کے بعد حکومت سے سخت سوال کرنے کی اور یہ بتانے کی نوبت آتی ہے کہ آپ نے اپنا کام کیوں نہیں کیا تو میڈیا خود ہی حکومت کی طرف سے بیٹنگ کرنے لگتا ہے، اسے کور فائر دینے لگتا ہے تاکہ باقی سارے سوال چھپ جائیں اور وہ سوال جو حکومت سننا چاہتی ہے وہی سامنے آئیں۔‘
شیبا فہمی کا کہنا ہے کہ ’اس بار بھی کارپوریٹ میڈیا نے حکومت کو ایسے سوالات سے بچانے کی بھرپور کوشش کی کہ پہلگام میں سکیورٹی کیوں نہیں تھی، ردعمل میں تاخیر کیوں ہوئی لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سوال اب وہاں پوچھے جا رہے ہیں اور یہ صرف انڈیا تک محدود نہیں رہا۔‘
SOURCE : BBC