SOURCE :- BBC NEWS

سی سی ٹی وی

،تصویر کا ذریعہZahra’s Uncle Usman

  • مصنف, آسیہ انصر
  • عہدہ, بی بی سی اردو
  • 15 جنوری 2025

    اپ ڈیٹ کی گئی 8 گھنٹے قبل

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

سرائے عالمگیر میں چار سالہ زہرہ کے ریپ اور قتل کا مقدمہ جتنے ڈرامائی انداز میں حل کرنے کا دعوی کیا گیا، بظاہر اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز طریقے سے اس کیس کا اختتام بھی ہو چکا ہے۔

گزشتہ روز پولیس حکام نے دعوی کیا تھا کہ وہ مرکزی ملزم کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو پہلے سے ہی ان کی حراست میں تھا۔ تاہم چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر یہ مرکزی ملزم پراسرار حالات میں فرار ہونے کے بعد اتنے ہی پراسرار طریقے سے ہلاک ہو گیا۔

ڈی ایس پی گجرات عامر شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’ملزم کو نامعلوم افراد نے سر میں ایک گولی ماری جس سے وہ ہلاک ہوا ہے اور اس کی تفتیش کی جا رہی ہے۔‘

لیکن یہ سب ہوا کیسے؟

یاد رہے کہ گزشتہ روز وسطی پنجاب کے ضلع گجرات کی پولیس نے تصدیق کی تھی کہ چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل کے واقعے کے 11 روز بعد ڈی این اے میچ ہونے پر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور جمعے کے روز اسے مقامی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ 34 سالہ ملزم ان پانچ مشتبہ افراد میں سے ایک تھا جنھیں واقعے کی تحقیقات کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

سرائے عالمگیر کے گاؤں کھوہار میں ریپ اور قتل کا یہ واقعہ پانچ جنوری کو پیش آیا تھا جس میں زہرہ جنید نامی چار سالہ بچی کو اغوا و ریپ کے بعد قتل کر کے اس کی لاش کو بوری میں بند کر کے ایک غیر آباد علاقے میں پھینک دیا گیا تھا۔

دھند اور تاریکی میں فرار اور پھر لاش کی برآمدگی

پولیس حکام کے مطابق سرائے عالمگیر میں کم سن زہرہ کے قتل کے مرکزی ملزم محمد ندیم کو پولیس وقوعہ کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں کی برآمدگی کے لیے کھوہار گاؤں لے کر جا رہی تھی لیکن اسی دوران ملزم فرار ہو گیا جس کے بعد رات گئے اس کی لاش ایک ویران علاقے سے ملی۔

پولیس کے بیان کے مطابق 16 جنوری 2025 کی رات گئے ملزم سرائے عالمگیر پولیس حراست سے دھند اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کانسٹیبل کو دھکا دیکر گاڑی سے چھلانگ مار کر اترا اور ہتھکڑی سمیت فرار ہو گیا۔

اس واقعے کے حوالے سے درج ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس نے ملزم کا پیچھا کیا اور اسی دوران ایک مقام پر دو سے تین افراد کے شور، گالی گلوچ اور پھر فائر کی آوازیں سنیں۔‘

ایف آیی آر کےمطابق ’پولیس کے للکارنے پر نامعلوم افراد فرار ہو گئے تاہم اس مقام سے انھیں ایک شخص شدید زخمی حالت میں ملا جس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا اور اس کی شناخت زہرہ کیس کے ملزم کی حیثیت سے ہوئی۔‘

ملزم پکڑا کیسے گیا تھا؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس سے قبل جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’ملزم کی شناخت معلوم کرنے کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ماہرین کو موقع پر بلا کر جائے وقوعہ اور اس کے اردگرد سے ڈی این اے سیمپلز اور دیگر شواہد اکٹھے کیے گئے تھے۔‘

پولیس کے مطابق اس دوران 73 مختلف جگہوں سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے 24 جگہوں پر انسانی ڈی این اے کے نشانات پائے گئے جس پر ملحقہ گھروں سے پانچ مشکوک افراد کو شامل تفتیش کر کے تحقیقات کی گئیں اور ان میں سے تین مشکوک افراد کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی لیے گئے۔

پولیس کے مطابق ’پھر ڈی این اے نمونوں کو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوایا گیا اور ملزم کا ڈی این اے مقتولہ بچی کے نمونے سے میچ کر گیا۔‘

لیکن پولیس کو اس مقدمے کے دوران ملزم تک پہنچنے میں صرف ڈی این اے کے نمونوں سے ہی مدد نہیں ملی بلکہ ڈی ایس پی سٹی گجرات عامر شیرازی کے مطابق واردات کے بعد ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی 77 سیکنڈ کی آڈیو نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔

پولیس نے بی بی سی کو اس بارے میں ان اہم تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جس سے پولیس وقوعہ کے 11 روز بعد ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔

زہرہ جنید

،تصویر کا ذریعہSaba Junaid

77 سیکنڈ کی آڈیو، کنڈی کے کھٹکے کی بھاری آواز اور دکان کا سی سی ٹی وی کیمرہ

پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں تین بج کر سات منٹ پر کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہونے والی زہرہ اور 77 سیکنڈز بعد یعنی تین بج کر آٹھ منٹ پر بچی کی چیخ سنائی دی۔

زہرہ کہہ رہی تھی ’چاچو۔۔۔ چاچو نہیں جانا۔۔۔ نہیں جاؤں گی‘ اور پھر کنڈے کی آواز ریکارڈنگ میں بھی سنائی دی۔

یہ پتا چلانے کے لیے کہ یہ چیخیں کہاں ختم ہوتی ہیں پولیس نے ایک غیر روایتی طریقہ اپناتے ہوئے اسی عمر کے ایک مقامی بچے کو اس مقام سے 77 سیکنڈ تک چلایا جہاں سے زہرہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہوئی تھی۔

ڈی ایس پی گجرات سٹی عامر عباس شیرازی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بچہ اس کنڈی کی آواز کے سنائی دینے کے وقت پر جس دروازے پر رکا وہ ملزم کا دروازہ تھا۔۔۔‘

تاہم یہاں پولیس کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا، اسی گھر کے بالکل سامنے ایک اور گھر بھی موجود ہے، تو یہ کیسے پتا چلایا جائے کہ بچی کس گھر میں گئی۔

یہاں پولیس نے دونوں گھروں کے دروازوں کی کنڈیوں کے کھٹکے کی آوازیں ریکارڈ کیں اور پھر اس کا سی سی ٹی وی میں موجود آواز کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔

اس واقعے کی تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی عامر عباس شیرازی نے بتایا کہ ’ملزم کا دروازہ وزنی تھا اور اس کی آواز ریکارڈڈ آڈیو سے مل گئی، دوسرا دروازہ ہلکا تھا اس کی آواز نہیں ملی۔‘

گھر کی نشاندہی ہونے کے بعد پولیس کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ملزم اس وقت موقع پر موجود تھا بھی یا نہیں۔ یہاں ملزم کا وہ بیان کام آیا جس میں اس نے پولسی کو بتایا تھا کہ وہ وقوعہ کے وقت ایک دکان پر گیا ہوا تھا، تاہم جب اس دکان کے کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا تو ملزم وہاں موجود ہی نہیں تھا۔

ڈی ایس پی عامر شیرازی کے مطابق ‘ملزم اس وقت گھر میں اکیلا تھا، اور اس کے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ سے پتا چلا کہ اس کا موبائل اس دوران استعمال ہی نہیں ہوا۔‘

یہ سب جاننے کے بعد پولیس کو جس غیر آباد جگہ سے لاش ملی تھی، ملزم کے گھر کی دیوار اس سے ملحقہ تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم اس بچی کی لاش کو دور نہیں لے جا سکا اور گھیرا تنگ ہونے پر اس نے کسی وقت اس کی لاش بوری میں بند کر کے ایک خالی گھر میں چھت سے نیچے پھینک دی تھی۔

ڈی ایس پی عامر شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ ’جس قسم کی بوری سے ہمیں بچی کی لاش ملی، وہ ملزم کے گھر پر بھی موجود تھی۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب اسے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیجا گیا تاکہ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ کروایا جائے، تو وہاں پر اس نے خواتین اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ساری کہانی بتائی۔

’اس دوران وہ خواتین اہلکار بھی آبدیدہ ہو گئیں اور یہ شخص بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، جس کے بعد اس کا پولی گرافک ٹیسٹ دوبارہ ہوا۔‘

اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے زہرہ کی والدہ سے بھی بات کی ہے جو اس وقت شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔

بچی، ریپ

،تصویر کا ذریعہThinkstock

’بیٹا کہتا ہے کہ سارے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے گھر نہ آئیں‘

ننھی زہرہ پانچ جنوری کی سہ پہر اپنے گھر سے قریب واقع اپنی خالہ کے گھر جانے کے لیے نکلی تھی اور اگلے روز محلے کے ایک غیر آباد گھر سے اس کی بوری میں بند لاش ملی۔

’اس دن میں نے زہرہ کو سیب کھلایا اور فیڈر پلائی اور پھر وہ ٹیوشن پڑھنے کے شوق میں خوشی خوشی چھوٹا سا بستہ اٹھا کر بھائی کے پیچھے نکل گئی اور پھر۔۔۔ ہماری زندگی ویران ہو گئی۔ اب ہم ایک زندہ لاش کی طرح ہیں، ایسے مردے ہیں جو کھلی اور ویران آنکھوں سے دنیا دیکھ رہے ہیں۔‘

زہرہ اپنے والدین کی شادی کے 13 سال بعد پیدا ہوئی تھی اور ان کی والدہ صبا جنید اس واقعے کے بعد سے سنبھل نہیں پائی ہیں۔

سسکیوں، ہچکیوں اور شدت غم سے بھرائی آواز میں صبا نے اپنی بیٹی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس دن میں بہت خوش تھی کہ اس نے اتنے آرام سے کھانا کھایا۔ پھر اس نے کہا کہ ماما میں نے بھی پڑھنے جانا ہے۔ مجھ سے پوچھے بغیر وہ کہیں نہیں جاتی تھی۔‘

’اسی وقت میرا بیٹا بھی میری بہن کے گھر جانے کے لیے نکلا تھا جو قریب ہی تھا۔ میں اس کو خوش دیکھ کر خود بھی خوش تھی مگر بس اس کو نظر لگ گئی، بیٹی باہر گئی مگر زندہ واپس نہ آئی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کا ان کے سات سالہ بیٹے پر بھی اتنا اثر پڑا کہ آنے جانے والوں سے گھبرا رہا ہے۔ ’اب وہ کہتا ہے کہ سارے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے گھر نہ آئیں۔‘

زہرہ کے والد جنید اقبال بیرون ملک رہتے ہیں اور ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ صبا کا کہنا ہے کہ زہرہ نے انھیں ضد کر کے بلایا تھا۔

’میری بچی شادی کے 13 سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ میں نے اللہ سے رو، رو کر بیٹی کی دعا کی تھی۔ وہ ہم سب کو بہت زیادہ پیاری تھی۔ اس کے بابا اس سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ بابا کو اس نے رو، رو کے بلایا تھا کہ آپ میرے پاس آئیں۔‘

پانچ جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟

زہرہ جنید کے چچا عثمان نے بی بی سی سے اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس دن ہم سب شادی پر گئے تھے اور گھر پر میری بھابھی اور اہلیہ تھیں۔ زہرہ کو بھیجنے کے بعد بھابھی نے اپنی بہن کے گھر فون کیا تو پتا چلا کہ زہرہ کا بھائی ان کے گھر پہنچ گیا ہے لیکن زہرہ نہیں پہنچی۔‘

جب زہرہ اپنی خالہ کے گھر نہیں پہنچی تو صبا اسے ڈھونڈنے نکلیں۔ صبا کے مطابق ’ہماری گلی میں بچے آتے جاتے، کھیلتے رہتے ہیں، رونق ہوتی ہے۔ بچوں کی چھٹیاں ہیں سو آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس بات کا وہم و گمان نہیں تھا کہ اس طرح کا کچھ ہمارے محلے میں ہو سکتا ہے۔‘

عثمان کا کہنا ہے کہ ’بھابھی کے کہنے پر ہم نے کیمرے کی ویڈیو چیک کی تو اس میں زہرہ کے گھر سے نکلنے کی ویڈیو ہے لیکن آگے گلی مڑ جاتی ہے۔ ہم نے ہر جگہ دیکھا۔ 15 پر کال کی اور میں تھانے بھی گیا تو پولیس ساتھ آئی انھوں نے چیک کیا، محلے میں تلاشی لی۔ سب کیمرے دیکھے مگر اس کا پتا نہ چلا۔’

پیلے رنگ کی بوری اور بچی کی مسخ لاش

سرائے عالمگیر کے تھانہ صدر میں مقتولہ کے والد جنید اقبال کی جانب سے درج کروائی گئی ابتدائی ایف آئی آر تو بیٹی کی گمشدگی کی درج کروائی گئی تاہم لاش ملنے کے بعد انھوں نے پولیس کو ایک ضمنی درخواست بھی دی جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی بیٹی زہرہ کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور چھ جنوری کی صبح جب دیگر افراد کے ہمراہ وہ محلے کے ایک غیر آباد مکان تک پہنچے تو ان کو مغربی کونے میں پیلے رنگ کی پلاسٹک کی ایک بوری ملی جس پر گانٹھ لگی تھی۔

درخواست کے مطابق جب اس بوری کو کھولا گیا تو اس میں زہرہ جنید کی خون آلود لاش تھی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ملزمان کو تلاش کر کے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے اور اس درخواست کو ایف آئی آر کا حصہ سمجھا جائے۔

پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ سے بچی کے ساتھ ریپ بھی ثابت ہوا۔ ڈی ایس پی گجرات کے مطابق ابتدائی طور پر ایف آئی آر نابالغ بچی کے اغوا کے جرم کی کاٹی گئی پھر لاش ملنے پر اس میں قتلِ عمد اور میڈیکل رپورٹ میں ریپ ثابت ہونے پر دفعہ 376 کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق زہرہ کے چہرے، سر کے پچھلے حصے، کمراور وجائنا پر زخموں کے مجموعی طور پر 0.5 سینٹی میٹر سے لے کر تین سینٹی میٹر تک کے چھ نشانات ہیں۔

صبا جنید ایک جانب جہاں اپنی بیٹی کے قتل کے صدمے سے نڈھال ہیں وہیں وہ حکام سے انصاف کی اپیل بھی کرتی دکھائی دیں۔

’زندگی کے چند سال تھے جو ہم نے خوشیوں کے گزارے، اب زہرہ ہماری زندگی ویران کر کے چلی گئی۔ بس ہماری بیٹی کو انصاف ملے اور ایسا کہ کوئی دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کرے۔‘

SOURCE : BBC