SOURCE :- BBC NEWS

کھلونا

  • مصنف, لورا بکر
  • عہدہ, نامہ نگار برائے چین
  • 3 مئ 2025

’ہمیں یہ فکر نہیں کہ ہمیں اپنی مصنوعات صرف امریکہ کو ہی فروخت کرنی ہیں۔‘

یہ کہنا ہے ہو تیاگچنگ کا جن کی کھلونوں کی دکان ہے۔ اور جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو ان کی دکان میں موجود ایک کھلونا جنگی طیارہ ہمارے سر کے اوپر سے گزر رہا تھا۔

ان کی دکان میں موجود کھلونوں کی آوازوں میں ان کی بات سننے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ یہ تمام کھلونے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے چل رہے تھے۔

ہو تیاگچنگ کی ژیاچنگ ٹوائز نامی دکان دنیا کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹوں میں سے ایک میں ہے جو چین کے ایک چھوٹے سے شہر ییوو میں قائم ہے۔

اس ہول سیل مارکیٹ میں 750000 سے زائد دکانیں ہیں جہاں خریدار چمکتی کرسمس لائٹس اور کچن کے سامان سے لے کر چھتریوں اور مساج گن تک ہر چیز کی تلاش میں آتے ہیں۔

دن کا زیادہ تر وقت صرف مارکیٹ کے ایک حصے کو دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے پاس اتنا سامان موجود ہے جتنا ہوائی اڈے پر طیاروں کے لیے بنے ہینگر میں پورا آ جائے۔

ییوو چین کے مشرقی ساحلی صوبہ زی جیانگ کا شہر ہے۔ اس صوبے کو چین کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے یہاں 30 سے زیادہ بندرگاہیں ہیں پچھلے سال امریکہ کو ہونے والی تمام چینی برآمدات کا 17 فیصد یہاں سے گیا تھا۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

امریکہ چین تجارتی جنگ میں ییوو اور یہ صوبہ فرنٹ لائن پر سمجھا جا رہا ہے۔

کھلونا طیاروں، سٹف ٹوائز اور موٹر سائیکل پر سوار سپائڈرمین سمیت طرح طرح کے کھلونے کے ڈھیر میں بیٹھے ہو تیاگچنگ بھی اس تجارتی تنازع میں فرنٹ لائن پر آ گئے ہیں۔ چین نے سال 2024 میں 34 ارب ڈالر کے کھلونے برآمد کیے تھے۔

اس میں سے تقریباً 10 ارب ڈالر مالیت کے کھلونے صرف امریکہ بھیجے گئے۔ لیکن اب ان چینی برآمدات پر امریکہ نے 245 فیصد تک محصولات عائد کر دی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ وہ بیجنگ کو عالمی منڈی پر بہت زیادہ حاوی ہو جانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

لیکن چین کے خلاف ٹرمپ کی پہلی تجارتی جنگ جس کا آغاز 2018 میں ہوا تھا کے بعد سے یہاں چیزیں بدل گئی ہیں۔ اس نے ییوو جیسے شہر کو ایک سبق سکھایا تھا جس کا خلاصہ ہو نے کچھ یوں کیا کہ ‘دوسرے ممالک کے پاس بھی پیسہ ہے!’

یہ جارحانہ اقدام دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین میں ایک جانا پہچانا موضوع بن گیا ہے۔ جو ٹرمپ کے ایک اور ہنگامہ خیز دور صدارت کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔

بیجنگ جو دنیا کو بار بار بتاتا رہا ہے کہ امریکہ دیگر ممالک سے دھونس کے ذریعے تجارتی مذاکرات کر رہا ہے، ابھی تک امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد ملک میں آن لائن پراپیگنڈہ نے زور پکڑا ہے جس میں ٹرمپ کی طرف سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے برعکس چینی جدت اور سفارت کاری کی تعریف کی گئی ہے۔ ملک کے انتہائی کنٹرول شدہ سوشل میڈیا پر چینی قیادت کے اس وعدے سے متعلق بہت سی پوسٹس دکھائی دیتی ہیں کہ چین اس کے خلاف لڑتا رہے گا۔

کھلونا

چینی کارخانوں اور بازاروں میں تاجر اور برآمد کنندگان اب کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ان کے پاس ٹرمپ کے امریکہ کے علاوہ اور بھی متبادل ہیں۔ مثال کے طور پر کھلونوں کے دکاندرا ہو کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ امریکی خریداروں پر مشتمل تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس 20، 30 فیصد کی پرواہ نہیں ہے، اب ہم زیادہ تر اشیا جنوبی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کو فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے، ہم امیر ہیں۔‘

جب ہم نے ان سے ٹرمپ کے بارے میں سوال کیا تو ان کے ایک ساتھی چن لینگ نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے اپنی آنکھیں چڑھاتے ہوئے کہا کہ ’وہ بین الاقوامی سطح پر لطیفے سنا رہے ہیں، ہر ایک دن ایک نیا لطیفہ۔ ان کے لیے ٹیرف عائد کرنا لطیفہ سنانے کے مترادف ہے۔‘

قریب ہی ان ہزاروں خریداروں میں سے ایک جو روزانہ اس مارکیٹ میں آتے ہیں، 100 سے زیادہ ایسی کھلونا کاریں جو ربوٹ بن جاتی ہیں خریدنے کے لیے قیمت پر بہاؤ تاؤ کر رہے ہیں۔ کیلکولیٹر میں مختلف عددوں کو دبانے کے بعد آخری قیمت فرش پر چاک سے لکھی دی جاتی ہے۔

ہمیں بتایا گیا کہ یہ خریدار دبئی سے ہے۔ بی بی سی کو ایسے بہت سے خریدار ملے جو افریقہ اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتے تھے۔

لِن زیاوپنگ کہتے ہیں کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران انھوں نے کھلونوں کے کاروبار میں امریکی خریداروں کے متبادل آتے دیکھے ہیں۔

انھوںں نے ہمیں چائے کے کپ کی آفر کرتے ہوئے بتایا کہ ‘کچھ دن پہلے میرے ساتھ والے دکاندار کے پاس ایک امریکی خریدار کا دس لاکھ چینی یوان سے زیادہ کا آرڈر آیا لیکن ٹیرف کی وجہ سے اس نے یہ آرڈر کینسل کرنے کا فیصلہ کیا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں چین کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ میں زیادہ تر کھلونے چینی تیار کردہ ہے۔‘

’میرے خیال میں آجکل امریکہ میں بہت سے کاروباری افراد اور کمپنیاں اس متعلق احتجاج کر رہی ہیں۔‘

زیاوپنگ درست کہتے ہیں۔ امریکہ میں کچھ کھلونوں کے کاروبار سے منسلک افراد نے وائٹ ہاؤس کو ایک خط لکھا ہے جس میں عائد ٹیرف کو ان کے کاروبار کے لیے تباہ کن قرار دیا گیا ہے۔

لاس اینجلس میں کھلونوں کی ایک کمپنی کے مالک جوناتھن کیتھی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹیرف پورے امریکہ میں چھوٹے کاروباروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘

انھوں نے سنہ 2009 میں اپنے تمام جمع پونجی بھی اس کاروبار میں لگا دی تھی اور انھوں نے ویسٹ ہالی وڈ میں اپنے دو کمروں کے گھر سے اس کاروبار کی شروعات کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آج ان کا کاروبار لاکھوں ڈالر کا ہے مگر ی ٹیرف والا معاملہ اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

وہ خبردار کرتے ہیں کہ ’اس سے امریکہ کی پوری کھلونوں کی صنعت متاثر ہو سکتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے اس سے پوری سپلائی چین ہی بیٹھ جائے گی اور یہ اس کاروباری شعبے کے لیے بہت برا ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سپلائرز کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا کام ہے، ’آپ کو کھلونے تیار کرنے کے لیے بہت سی مہارت اور وسائل کی ضرورت ہے اور بہت سے چینی کمپنیوں نے اس فن میں مہارت حاصل کرنے میں 40 سال گزارے ہیں۔‘

کھلونا

ٹرمپ کی جنگ

ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں چین کا بڑا حصہ رہا ہے، ان کی انتظامیہ بیجنگ کے ساتھ آمنے سامنے ہے۔

پیپلز لبریشن آرمی میں خدمات انجام دینے والے سابق سینئر کرنل ژاؤ بو کہتے ہیں کہ ’لگتا ہے کہ وہ پوری دنیا کے خلاف صلیبی جنگ شروع کر رہے ہیں لیکن یقینا وہ چین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ٹرمپ نے چین پر پاناما کینال کا انتظام دیکھنے کا الزام لگایا، جسے ہانگ کانگ کی ایک فرم چلاتی ہے، اور اسے واپس لینے کا عزم ظاہر کیا۔ وہ نایاب معدنیات کی کان کنی کے طریقوں کی تلاش میں ہیں جس پر چین کی موثر طریقے سے اجارہ داری ہے، یہ یوکرین کے ساتھ کسی بھی معاہدے کا کلیدی حصہ ہے۔ گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی ان کی دھمکیوں کا مقصد آرکٹک میں چین کے عزائم کو روکنا بھی ہے۔

اور یقیناً انھوں نے ایک اور تجارتی جنگ شروع کی ہے جس کا مقصد چین کے پڑوسیوں جیسے ویتنام اور کمبوڈیا پر اثر انداز ہونا ہے جو اس کی سپلائی چین کے لیے اہم ہیں۔

گذشتہ ہفتے انھوں نے تجویز دی کہ وہ چینی مصنوعات پر محصولات کو آدھا کر سکتے ہیں اور انھوں نے ’چین کے ساتھ کسی اچھے معاہدے‘ سے متعلق بھی بات کی جس پر ان کی انتظامیہ متحرک انداز سے مذاکرات کر رہی ہے۔

لیکن چین کی وزارت تجارت نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس دعوے کو ‘بے بنیاد’ قرار دیا۔ سرکاری میڈیا کی شہ سرخیوں نے بھی ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ شاید امریکی تاریخ کے بدترین صدر ہیں۔‘

ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اس انتظار میں ہیں کہ چینی صدر شی جن پنگ ان کا فون اٹھا لیں۔

کرنل زو کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہاں چین میں کہاوت ہے کہ کچھ دیر گولی کو ہوا میں رہنے دو۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ جب جنگ میں دھند چھائی ہو تو کچھ دیر انتظار کیا جائے کیونکہ ہمیں نہیں علم ہوتا کہ آگے کیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ جیسے کو تیسے والی پالیسی ایک دو ماہ چلے گی، امید ہے تین ماہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘

یہ زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی کیونکہ اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

یہ یقینی طور پر چین کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔ ٹرمپ کے محصولات ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج نہیں ہیں، بلکہ چین اندرونی اقتصادی مسائل سے بھی دوچار ہے، کم کھپت سے لے کر ہاؤسنگ بحران تک جس نے لوگوں کی بچت اور اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔

اس سارے حالات کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو بھی امریکی ٹیرف چینی کاروبار کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ گولڈ مین ساچ نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں برس چین کی معاشی ترقی حکومتی ہدف پانچ فیصد سے کم رہ کر 4.5 فیصد رہے گی۔

بی بی سی نے اپریل کے وسط میں گوانگزو کے تجارتی مرکز سے رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ اور چین کی تجارت رک رہی ہے، امریکی گھرانوں کو برآمد کی جانے والی اشیا سے چینی کارخانوں کے فرش بھرے پڑے ہیں۔ اس کا اندازہ اس ماہ کے معاشی اعداد و شمار سے ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کارخانوں اور فیکٹریوں میں سرگرمیوں میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

جب بی بی سی نے سپلائی کنندہ سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ آیا امریکہ کو مصنوعات کی ترسیل دوبارہ شروع ہو گئی ہے تو جو بات سامنے آئی وہ ایک گندی تصویر تھی۔ ایک سپلائر نے کہا کہ ان کے پاس پانچ لاکھ کپڑے ایسے ہیں جنھیں والمارٹ کو بھیجنا ہیں، اور کچھ دیگر نے اس غیر یقینی صورتحال کی بات کی۔ لیکن دو برآمد کنندگان جن سے ہم نے بات کی انھوں نے بتایا کہ امریکی خریداروں کو کچھ کھیپ واقعی دوبارہ جانا شروع ہو چکی ہے۔

دونوں معیشتوں کے درمیان پیچیدہ تجارت جس میں کارگو کرینوں سے چھتریوں تک کی تجارت شامل ہے، کا مطلب ہے کہ یہ اکثر مختلف کاروباروں اور سپلائی چینز پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹیرف سے کیسے نمٹتے ہیں۔

کاروبار بھلے کوئی بھی ہو مگر یہ بات درست ہے کہ امریکی کاروباری افراد چینی اشیا کی کمی اور ممکنہ طور پر زیادہ مہنگی چیزوں کو محسوس کریں گے۔

کھلونا

امریکہ کے علاوہ مواقع

امریکہ اب بھی اپنی گھریلو مانگ کو پورا کرنے کے لیے چینی مینوفیکچرنگ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ فون، کمپیوٹر، سیمی کنڈکٹرز، فرنیچر، کپڑے اور یقیناً کھلونے ہی نہیں بلکہ امریکی درآمدات کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف چین میں تیار کردہ الیکٹرانکس اور مشینری کا حصہ ہی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

وال مارٹ اور ٹارگٹ جیسی بڑے سٹور چینز نے مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کو ایک میٹنگ میں بتایا کہ خریداروں کو اگلے مہینے سے خالی شیلف اور زیادہ قیمتیں دیکھنے کو ملیں گیں۔ انھوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ طلب و رسد کا فرق رواں برس کرسمس تک جاری رہ سکتا ہے۔

امریکہ میں کرسمس کے موقع پر سجاوٹ کے لیے لگائی جانے والی تقریباً 90 فیصد اشیا چین کے شہر ییوو سے آتی ہیں۔ جہاں اب دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ ان چیزوں کی فروخت کے لیے جنوبی امریکہ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

اور ییوو میں اس کوشش کو بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

صبح سویرے یہاں ہول سیل مارکیٹ کے دکانوں کے شٹر کھلنے سے پہلے ہی اس کی راہداریوں میں کچھ ایسے اہم جملوں اور فقروں کی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں۔

عربی زبان کے استاد کہتے ہیں ‘شکراً ‘ اور طلبا اس کا تلفظ پکا کرنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے دہراتے ہیں۔ جب کہ اس کے جواب میں انھیں ‘عفواً ‘ یعنی آپ کا شکریہ بھی سکھایا جا رہا ہے۔

مقامی حکومتی ایسوسی ایشن کی طرف سے اس متعلق مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔ زیادہ تر طالبات خواتین ہیں جو اپنے گاہکوں کو متاثر کرنے کے لیے بہترین لباس زیب تن کرتی ہیں۔

ایک دکاندار جو کہ اصل میں ایران سے ہے اور ایک شوقین طالب علم کو عربی زبان کی پرائیویٹ تعلیم دے رہی ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ خواتین پورے چین کی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘

وہ یہ زبان اس لیے سیکھ رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے سکیں اور گاہکوں کو جیت سکیں۔

زیادہ تر تاجر انگریزی زبان کے کچھ الفاظ بول سکتے ہیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ انھیں اب نئے گاہکوں کو ہسپانوی اور عربی زبان میں خوش آمدید کرنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ معمولی مگر چین کے بدلتے تجارتی تعلقات میں یہ ایک اہم قدم ہے۔

آسکر جو کہ کولمبیا کے شہری ہے نے اس مارکیٹ میں گھومتے ہوئے اپنے بیگز کو سٹف ٹوائز سے بھر رکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ چین تجارتی جنگ نے دیگر ممالک کے تاجروں کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل چین سے کاروبار کرنا فائدہ مند جبکہ امریکہ سے کاروبار کرنا نقصان دہ ہے۔

SOURCE : BBC