SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, تھامس میکنٹاش
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
47 منٹ قبل
جرمنی کے شہر ماگڈیبرگ کی کرسمس مارکیٹ میں چار خواتین اور ایک نو سالہ لڑکے کو کار سے کچلنے کے الزام میں ایک سعودی شہری کو ریمانڈ پر بھیجا گیا ہے۔
50 سالہ مبینہ حملہ آور کو سنیچر کی شام جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ جمعے کو ایک سیاہ بی ایم ڈبلیو کار کے ڈرائیور نے بازار کی بھیڑ پر گاڑی چڑھا دی۔ اس واقعے میں 200 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔
ماگڈیبرگ پولیس کے مطابق تفتیش کار عینی شاہدین سے واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کی اپیل کر رہے ہیں ۔
جرمنی کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مبینہ حملہ آور کی شناخت 50 سالہ سعودی شہری طالب العبدالمحسن کے نام سے ہوئی ہے جو 2006 میں جرمنی آئے اور یہاں بطور ڈاکٹر کام کرتے تھے۔
ماگڈیبرگ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والی چار خواتین کی عمریں 45، 52، 67 اور 75 تھیں۔
ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ ‘جج نے قتل، متعدد قاتلانہ حملوں کی کوشش اور متعدد لوگوں کو سفاکانہ انداز میں زخمی کرنے جیسے پانچ جرائم پر ان کی قبل از ٹرائل حراست کا حکم دیا۔’
حملہ تین منٹ تک جاری رہا
جمعے کی شام اس حملے میں 200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے کم از کم 41 کی حالت نازک ہے۔
ایک کالے رنگ کی بی ایم ڈبلیو ایس یو وی نے 400 میٹر تک پھیلی بازار کی بھیڑ پر تین منٹ تک گاڑی چڑھائے رکھی۔
حکام کے مطابق پولیس، طبی عملے اور فائر فائٹر سمیت قریب 100 اہلکار اور ریسکیو کے 50 اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے بڑی مشکل سے حملے کے دوران چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔
جرمن اخبار کو دیے انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ مارکو کے ساتھ کرسمس مارکیٹ میں تھیں جب ایک تیز رفتار کار ان کی طرف آئی۔
32 سالہ خاتون نے اخبار کو بتایا کہ ‘کار ان سے ٹکرائی اور وہ میرے سے دور جا گرے۔ یہ خوفناک منظر تھا۔’
جرمن سرکاری نشریاتی ادارے کے رپورٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے زمین پر خون دیکھا اور واقعے کے بعد کئی ڈاکٹر ‘لوگوں کو گرم رکھنے اور ان کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔’
سنیچر کی شام ماگڈیبرگ کیتھیڈرل میں حملے کے متاثرین کے لیے ایک میموریل سروس منعقد کی گئی جس میں چانسلر اولف شولز بھی شریک ہوئے۔
شولز نے اس واقعے کو دردناک قرار دیا اور کہا کہ ‘اس قدر سفاکی سے کئی لوگوں کو ایسے مقام پر ہلاک اور زخمی کیا گیا ہے جہاں وہ لطف اندوز ہونے آئے تھے۔’
انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بعض زخمی افراد کی حالت تشویش ناک ہے جبکہ مبینہ حملہ آور کی تحقیقات کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
مبینہ حملہ آور کون ہے؟
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ریاست زاکسن انہالٹ کے سربراہ رینر ہاسلوف نے صحافیوں کو بتایا کہ جائے وقوعہ سے 50 سالہ سعودی شہری کو گرفتار کیا گیا ہے جو 2006 میں جرمنی آیا تھا اور بطور ڈاکٹر کام کر رہا تھا۔
ان کے مطابق ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مبینہ حملہ آور اکیلا تھا۔
پراسیکیورٹر ہورسٹ والٹر نوپنز نے سنیچر کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ مبینہ حملہ آور ‘جرمنی میں سعودی عرب سے آنے والے پناہ گزین کے ساتھ سلوک پر مشتعل ہوا۔’
پولیس کا خیال ہے کہ العبدالمحسن اپنی کار میں ایک ایسے داخلے کے راستے سے کرسمس مارکیٹ میں داخل ہوئے جو ایمرجنسی سروسز کی گاڑیوں کے لیے مختص تھا۔
ملزم ایک ماہرِ نفسیات ہے جو ماگڈیبرگ سے 40 کلو میٹر جنوب میں واقع برنبرگ میں رہائش پذیر تھا۔
ان کا تعلق سعودی عرب سے ہے مگر وہ 2006 میں جرمنی آئے تھے اور 2016 میں انھیں پناہ گزین کا درجہ ملا تھا۔
وہ ایک ویب سائٹ چلاتے تھے جس کے ذریعے خلیجی ممالک میں تشدد سے بچ کر جرمنی میں پناہ لینے والے مسلمانوں کی مدد کی جاتی تھی۔
مبینہ حملہ آور کا شدت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوسکا۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ اسلام کے ناقد ہیں۔
سعودی حکومت کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے جرمن حکام کو چار مرتبہ بذریعہ آفیشل نوٹیفیکیشن متنبیہ کیا تھا کہ یہ شخص ‘بہت شدت پسند خیالات کا حامل ہے۔’
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سعودی ذرائع نے کہا کہ ان انتباہ کو نظر انداز کیا گیا۔
تاہم انسداد دہشتگردی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے سعودی حکام کسی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلانے کی مہم چلا رہے ہوں کیونکہ وہ جرمنی میں نوجوان سعودی خواتین کو اسائلم دلانے میں مدد کرتے تھے۔
SOURCE : BBC