SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, عزیز اللہ خان
- عہدہ, بی بی سی اردو، پشاور
-
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے حکام کا کہنا ہے کہ کرم کے بعض علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے جس دوران سکیورٹی فورسز نے نہ صرف شرپسندوں کی موجودگی کے خدشات کے پیش نظر علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے بلکہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے گشت کیا جا رہا ہے اور بعض مقامات پر گولہ باری کی گئی ہے۔
حکام کے مطابق لوئر کرم کے جن علاقوں میں مشتبہ شدت پسند موجود ہیں وہاں ان کے خلاف کارروائیاں ناگزیر ہو چکی تھیں۔
ان کارروائیوں کا مقصد شرپسندوں کے بنکر مسمار کرنا اور پشاور تا کرم راستے کو محفوظ بنانا ہے جو فرقہ ورانہ تشدد کے پیش نظر 100 سے زائد دنوں سے عام ٹریفک کے لیے بند ہے۔
صوبائی حکومت کو خدشہ ہے کہ مسلح شدت پسند ’مقامی آبادی میں شامل ہو گئے ہیں‘ اور اس کے بقول یہ کارروائیاں انھی عناصر کے خلاف کی جا رہی ہے۔
لوئر کرم کے علاقے بگن، چھپری، اوچت، ڈاٹ کمر، مندوری اور قریبی علاقوں میں فوج اور ایف سی کے جوان موجود ہیں اور مقامی افراد کے مطابق انھوں نے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی ہیں۔
بگن کے صحافی محمد ریحان نے بتایا کہ زیادہ تر کارروائیاں بگن میں پستوانہ، رزغائے، میدانی، خا چینہ، تودہ چینہ، مندارہ اور قریبی علاقوں میں جاری ہیں۔
بگن سے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ان کارروائیوں کے دوران گولہ باری کی گئی ہے تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔
تو بات یہاں تک پہنچی کیسے اور کیا یہاں فوجی آپریشن ہی اس مسئلے کا دیرپا حل ہے؟
لوگوں کی نقل مکانی اور خیمے قائم
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اپر کرم سے لوئر کرم میں آئیں تو پہلا گاؤں بگن ہے اور یہ اپر کرم کے علاقے علیزئی کے ساتھ واقع ہے۔
مقامی صحافی محمد ریحان نے بتایا کہ بگن اور اس کے ساتھ دیگر علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے کہیں اور منتقل ہو چکے ہیں۔
اب ان گھروں میں کہیں کہیں ایک یا دو افراد موجود ہیں جو اپنے گھریلو سامان کی حفاظت کے لیے اپنے مکان میں رُک گئے ہیں۔ ’بیشتر لوگ تو پہلے ہی نقل مکانی کر چکے تھے جب 22 نومبر کو بگن بازار پر حملہ کیا گیا تھا۔‘
ضلع کرم کے ساتھ واقع ضلع ہنگو میں متاثرین کے لیے کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ ہنگو کے ڈپٹی کمشنر گوہر زمان وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی طرف سے تمام تیاریاں مکمل ہیں اور صوبائی حکومت کے جانب سے ریلیف کا سارا سامان بھی پہنچ گیا ہے جو تحصیل دفتر میں رکھا گیا ہے لیکن اب تک ان کے کیمپ میں لوگ نہیں آئے۔
انھوں نے بتایا کہ عام طور یہ لوگ کیمپس میں نہیں آتے بلکہ اپنے رشتہ داروں یا کرائے کے مکانات میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جن مقامی افراد سے ہماری بات ہوئی انھوں نے ہمیں بتایا کہ لوئر کرم سے نقل مکانی کرنے والے افراد ہنگو، ٹل، کوہاٹ اور پشاور کی جانب گئے ہیں۔
کرم میں سکیورٹی آپریشن کا فیصلہ کیوں کیا گیا اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
صوبائی حکومت کی جانب سے ضلع کرم میں کوئی ساڑھے تین ماہ سے جاری کشیدگی کم کرنے اور امن کے قیام کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں اور اس کے لیے مخالف دھڑوں سے جرگے میں مذاکرات اور معاہدے بھی کیے گئے۔
سنیچر کے روز کرم میں محدود پیمانے پر ٹارگٹڈ فوجی کارروائی شروع کی گئی اور اس سے پہلے 17 جنوری کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا جس میں بگن، مندوری، اوچت اور قریبی علاقے خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
گذشتہ روز ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکریٹری، آئی جی اور دیگر حکام نے شرکت کی ہے۔
اس اجلاس کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شرپسند عناصر کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے، امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عملدرآمد کروایا جائے گا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے سکیورٹی فورسز سپورٹ میں موجود ہوں گی۔ ’خدشہ ہے کہ امن پسند لوگوں کے درمیان کچھ شرپسند گُھس گئے ہیں۔۔۔ اپنے درمیان موجود شرپسندوں کی نشاندہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کرم میں چند شرپسند عناصر نے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی، شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر پر قاتلانہ حملہ کیا، جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے، شرپسند عناصر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور امدادی سامان کے قافلوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوئی تین ماہ سے زیادہ وقت گزر گیا ہے لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا جس کے بعد ایک محدود سطح پر ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ضلع کرم ایک مشکل علاقہ ہے اور اس مرتبہ کرم میں متعدد سٹیک ہولڈرز شامل ہیں۔
’ان میں اگر کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے لوگوں کی بات ہو رہی ہے تو دوسری جانب زینبیون اور فاطمیون جیسی تنظیموں کے لوگوں کی موجودگی کی باتیں ہو رہی ہیں تو اس مرتبہ سٹیک ہولڈرز شیعہ سنی نہیں بلکہ بہت سارے سٹیک ہولڈرز ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ فوجی آپریشن ’کسی بھی مسئلے کا حل نہیں‘ لیکن گذشتہ تین ماہ سے جو کشیدگی اور راستے بند ہیں تو وقتی طور پر یہ کارروائی شروع کی گئی ہے تاکہ ’اتنا امن قائم ہو سکے تاکہ راستے کھل سکیں اور اس کے بعد پھر امن کمیٹیوں اور مقامی قبائلی عمائدین کو اتنا موقع مل سکے کہ وہ اپنا کردار ادا کر کے حالات کو سازگار بنا سکیں۔‘
تنازع 2024 میں کیسے بھڑکا؟
ضلع کرم میں مختلف قبائل کے درمیان تنازعات اور جھڑپوں اور پھر اس میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا پیش آنا یہاں دہائیوں سے جاری لیکن اس مرتبہ کشیدگی 12 اکتوبر 2024 کو شروع ہوئی جب ایک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد ایک قافلے پر حملہ ہوا جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
یہ دونوں واقعات مخالف دھڑوں پر ہوئے جن میں سے ایک کا تعلق اہلِ تشیع سے تھا اور دوسرے حملے میں ہلاک ہونے والے اہلِ سنت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
ان واقعات کے بعد لوئر کرم یعنی اہل سنت کے علاقوں سے اپر کرم یعنی اہل تشیع کے علاقوں تک جانے والے راستے مقامی لوگوں نے بند کر دیے تھے جس سے اپر کرم یعنی پاڑہ چنار اور دیگر علاقوں کو رسد بند کر دی گئی تھی۔
21 نومبر کو سکیورٹی اہلکاروں کے تحفظ میں ایک قافلہ کرم بھیجا گیا لیکن اس قافلے پر اوچت کے قریب مسلح افراد نے حملہ کر دیا جس میں 50 کے قریب ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
اس کے بعد 22 نومبر کو بگن بازار پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا جس میں بازار میں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا دی گئی اور اس میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس میں کچھ لوگوں کے گلے کاٹے گئے اور خواتین کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا۔
علاقے میں کشیدگی برقرار رہی تو حکومت کی جانب سے معاملات کو سلجھانے اور امن کے قیام کے لیے جرگے اور کمیٹیاں قائم کی گئیں اور دونوں جانب سے فریقین کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پا گیا۔
اس کے بعد دو مرتبہ اشیائے ضروریہ پاڑہ چنار تک پہنچانے کے لیے اقدامات کیے گئے اور کئی ٹرک پاڑہ چنار پہنچ گئے لیکن تین روز پہلے ایک مرتبہ پھر جب سامان سے لدے 34 ٹرک پاڑہ چنار جا رہے تھے تو ان پر پھر حملہ ہوا جس میں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ اس دوران کچھ گاڑیوں کو لوٹا گیا اور پانچ ڈرائیورز سمیت سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
قافلے پر حملے کے بعد جب بگن بازار پر حملہ ہوا تو اس کے بعد لوئر کرم کے لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا اور بگن بازار میں دھرنا دے دیا گیا۔ ان کی جانب سے مطالبات حکام کو پیش کیے گئے۔
حکومت نے اس کے جواب میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کروایا جس میں دونوں جانب سے عمائدین اور منتخب نمائندوں نے شرکت کی اور معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن بگن کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات کو نہیں سنا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ احتجاج میں شامل لوگ اس راستے کے کھلنے کے خلاف تھے۔
ان مظاہرین کے مطالبات ہیں کہ ضلع کرم میں تمام فریقین سے اسلحہ بلا تفریق لے لیا جائے، علاقے میں تمام مورچے اور بنکرز مسمار کر دیے جائیں، بگن کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے، بگن پر حملہ کرنے والے افراد کو سزا دی جائے اور تمام اہل سنت کے قائدین کو رہا کیا جائے۔
پاڑہ چنار کی کیا صورتحال ہے؟
کرم کے سینیئر صحافی علی افضل جو پاڑہ چنار میں مقیم ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں بازار بند ہیں، ضروری اشیا کا ملنا مشکل ہو گیا ہے اور علاقے میں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جو سامان آ رہا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور نجی سطح پر میڈیکل سٹورز پر بنیادی ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
دو روز پہلے ایک اطلاع یہ موصول ہوئی کہ پاڑہ چنار سے دور ایک دیہات میں ایک حاملہ خاتون کو پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال نہیں پہنچایا گیا جس کے باعث خاتون کے دونوں بچے پیدائش کے وقت دم توڑ گئے تھے۔
اس بارے میں پاڑہ چنار ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر میر حسن جان نے دو روز قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’خاتون ہسپتال نہیں پہنچ پائیں اور وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ضروری اشیا کی اتنی قلت پیدا ہو گئی ہے لیکن اب پاڑہ چنار سے پشاور یا کوہاٹ تو دور کی بات ہے لوگ گاؤں اور دیہات سے پاڑہ چنار ہسپتال بھی نہیں پہنچ سکتے۔‘
گذشتہ روز پاڑہ چنار میں قبائلی عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا جس میں سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی اور خطیب جامعہ مسجد علامہ فدا مظاہری سمیت دیگر عمائدین نے شرکت کی تھی۔
اس جرگے میں انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے باعث راستے کھولنے کے لیے دی گئی تین روز کی ڈیڈ لائن مؤخر کر دی ہے اور کہا ہے کہ اس کارروائی سے راستے کھلنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
SOURCE : BBC