SOURCE :- BBC NEWS

کِم کارڈیشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, لارا گوزی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، پیرس
  • 20 منٹ قبل

ڈکیتی کے بعد یونس عباس گھر جا کر سو گئے۔ جب وہ اٹھے تو ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ معروف امریکی شخصیت کم کارڈیشیئن کو پیرس کے ایک لگژری ہوٹل میں بندوق کی نوک پر باندھ کر لوٹ لیا گیا۔

اس واردات میں تقریبا دس ملین ڈالر، یعنی ایک کروڑ امریکی ڈالر مالیت کے زیورات لوٹے گئے تھے۔ ان میں وہ انگوٹھی بھی شامل تھی جو امریکی گلوکار کینی ویسٹ نے کم کو منگنی کے وقت بطور تحفہ دی تھی۔ اس انگوٹھی کی مالیت ہی چار ملین ڈالر تھی۔

یونس کی بیوی نے انھیں دیکھا اور کہا ’یہ تمھارا ہی کام لگتا ہے۔‘ وہ غلط نہیں کہہ رہی تھیں۔ 62 سالہ یونس کی زندگی جرم کی دنیا میں ہی گزری تھی۔ بعد میں شائع ہونے والی اپنی یادداشت میں انھوں نے لکھا کہ اس واردات کے بعد وہ ریٹائر ہونے والے تھے۔

2017 میں ہونے والی یہ واردات واقعی ان کا آخری جرم ثابت ہوا کیوں کہ تین ماہ کے بعد ہی یونس اپنے ساتھیوں سمیت پکڑے گئے۔

یونس عباس

،تصویر کا ذریعہGetty Images / Marc Piaseck

دس ملزمان کے خلاف پیرس کی عدالت میں مقدمہ چلایا جانے والا ہے جو تین ہفتوں تک جاری رہے گا۔ ان میں سے پانچ واردات میں شامل تھے جبکہ دیگر پر سہولت کاری کرنے کا الزام ہے۔

یہ سب ہی 1950 کے عشرے میں پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے فرانسیسی میڈیا میں انھیں عمر کی وجہ سے ’گرینڈپا (دادا) ڈکیت‘ کہا جا رہا ہے۔

ان میں سے یونس سمیت ایک اور ملزم اعتراف جرم کر چکے ہیں۔ ایک ملزم وفات پا چکا ہے اور ایک 81 سالہ ملزم کی یادداشت کھو چکی ہے اور اسی بنا پر انھیں استثنی دیا گیا ہے۔

جب یہ مقدمہ شروع ہو گا تو اس واردات کو نو سال گزر چکے ہوں گے۔

واردات کیسے ہوئی تھی؟

اکتوبر 2016 میں یونس عباس اور دیگر ملزمان نے پیرس کے پرتعیش علاقت میں کم کارڈیشیئن کے ہوٹل کمرے کا سراغ لگانے کے بعد رات کے تین بجے پولیس کی وردی میں واردات کا آغاز کیا۔

مسلح ملزمان ریسیپشن پر کام کرنے والے عبدالرحمان، جو الجزائر سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی طالب علم بھی تھے، کو اسلحہ کے زور پر کم کے کمرے تک لے گئے جو پیرس فیشن ویک کی مصروفیات سے تھک ہار کر بستر پر آرام کر رہی تھیں۔

جب انھیں سیڑھیوں پر کسی کے آنے کی آواز آئی تو انھوں نے اپنی بہن اور سٹائلسٹ کو آواز دی۔ کوئی جواب نہ ملنے پر وہ پریشان ہو گئی تھیں۔

کِم کارڈیشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

کئی سال بعد ڈیوڈ لیٹرمین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میں جانتی تھی کہ کوئی میرے پیچھے وہاں آیا ہے ، میں محسوس کر سکتی تھی۔‘

کِم نے911 پر فون کیا لیکن یہ نمبر صرف امریکہ میں ہنگامی صورتحال کے لیے کام کرتا تھا۔ اتنی دیر میں انھیں بستر پر دھکیل دیا گیا۔

’وہ کہتے رہے انگوٹھی، انگوٹھی، اور میں اتنی حیران تھی کہ ایک منٹ کچھ سمجھ نہیں آیا۔‘

زبان مختلف ہونے کی وجہ سے ایک ملزم کو مترجم کے طور پر کام کرنا پڑا۔ انھوں نے انگوٹھی برآمد کی اور اسے ایک بیگ میں ڈالا جس میں کئی دیگر زیورات کے ساتھ ساتھ 1000 یورو نقد بھی تھے۔

ان میں سے ایک آدمی نے انھیں پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچ لیا۔ کم نے بعد میں آنسو پونچھتے ہوئے لیٹرمین کو بتایا کہ چونکہ انھوں نے ایک ایسا لباس پہنا ہوا تھا جس کے نیچے کچھ بھی نہیں تھا، اس لیے انھیں لگا کہ وہ ان پر حملہ کرے گا۔

لیکن اس کے بجائے اس شخص نے انھیں زپ ٹائی اور ڈکٹ ٹیپ سے باندھ دیا اور انھیں باتھ روم میں چھوڑ دیا۔ اس کے بعد، وہ اور باقی چور موٹر سائیکلوں اور پیدل فرار ہو گئے۔

کِم نے خود کو آزاد کیا اور کچھ ہی دیر بعد ان کا سکیورٹی گارڈ وہاں پہنچ گیا۔

کم 2 اکتوبر 2016 کو باڈی گارڈ پاسکل ڈیویئر کے ساتھ ریستوراں میں آتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہGetty / Marc Piasecki

صدمے سے دوچار کِم نے صبح سویرے فرانسیسی پولیس کو ایک بیان دیا اور واپس امریکہ روانہ ہو گئیں۔

اس دن جب یونس عباس نے اس ٹی وی سکرین کی ایک جھلک دیکھی جو اس کی بیوی دیکھ رہی تھی، تو اسے سمجھ میں آیا کہ ان کا شکار کون تھا۔

لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے انٹرٹینمنٹ جرنلسٹ کے جے میتھیوز کا کہنا ہے کہ ’بریکنگ نیوز الرٹس میں کہا گیا تھا کہ کم کارڈیشیئن کو بندوق کی نوک پر لوٹ لیا گیا ہے۔‘

میتھیوز کہتے ہیں ’ہم ان کے اور ان کے خاندان اور ان کی شہرت سے بہت متاثر تھے۔۔۔ جب چوری کا واقعہ پیش آیا تو ہم بہت حیران ہوئے۔ چور اس کے اتنے قریب کیسے آ سکتے تھے؟‘

لیکن جہاں کارڈیشیئن کی سکیورٹی کے حوالے سے غلطیاں کی گئیں وہیں چوروں کی طرف سے بھی سنگین غلطیاں کی گئیں۔

کرائم رپورٹر اور ’کم اینڈ دی گرینڈ پا رابرز‘ نامی کتاب کی مصنفہ پیٹریشیا ٹورنچاؤ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے پولیس کی تکنیکوں کے ذریعے کی جانے والی پیش رفت کو مدنظر نہیں رکھا، جس سے اب کہیں بھی ڈی این اے کے چھوٹے نشانات مل سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب انھوں نے پولیس کا لباس پہنا تو انھوں نے سوچا کہ کوئی بھی ہمیں پہچان نہیں پائے گا۔‘

لیکن 2016 میں پیرس اب بھی پچھلے سال کے دہشت گرد حملوں کی زد میں تھا اور شہر بھر میں بڑی تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود تھے، جس کا مطلب تھا کہ پولیس چوروں کا پتہ لگانے اور انھیں زیورات کے ساتھ بھاگتے ہوئے دیکھنے میں کامیاب رہی۔

اس کہانی کی دیگر تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ چوروں کی منصوبہ بندی بے ترتیب تھی۔ موٹر سائیکل پر موقع سے فرار ہوتے ہوئے یونس عباس گر گئے اور زیورات سے بھرا ایک بیگ گرا دیا۔

اگلے دن ایک راہگیر کو بیگ سے ہار ملا اور جب اس نے دفتر میں خبر دیکھی تو اسے احساس ہوا کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔

پولیس نے جنوری 2017 میں عباس اور کئی دیگر افراد کو گرفتار کیا تھا۔ فرانسیسی میڈیا نے پولیس کی جانب سے ایک تصویر شائع کی جس میں متعدد افراد کو گرفتاری سے قبل پیرس کے ایک کیفے میں کافی پیتے اور گپ شپ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس گینگ کو کم کے شیڈول کی معلومات کیسے ملیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اس پر غور کیا جائے گا۔

بی بی سی کو ملنے والی عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ عمر اور یونس عباس دونوں نے کہا کہ انھیں درکار تمام معلومات کارڈیشیئن نے خود آن لائن پوسٹ کی تھیں، جن کا کیریئر ہی ان کی زندگی اور حرکات و سکنات کے بارے میں تفصیلات شیئر کرنے پر مبنی تھا۔

لیکن گینگ کو کیسے پتہ چلا کہ دو اکتوبر کی رات وہ اپنے کمرے میں اکیلی ہوں گی؟

یونس عباس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کا ماننا ہے کہ گیری میڈر، جس کے بھائی مائیکل کی فرم نے کئی سالوں تک کارڈیشیئن خاندان کو ٹیکسی فراہم کی تھی، چوروں کا معاون تھا اور اس نے گینگ کو کِم کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔

میڈر کو جنوری 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے وکیل آرتھر ورکن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ مقدمہ مفروضوں، تھیسز اور نظریات پر مبنی ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ میڈر برادران نے فیشن ویک کے دوران کارڈیشین کے بارے میں پیغامات کا تبادلہ کیا تھا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’بور‘ تھے اور جب چوری ہوئی تو گیری سو رہے تھے۔

گیری کے بھائی مائیکل مدعا علیہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پانچ آدمیوں نے ایسا کیا۔ آپ کو نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی اس بات پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ ان کے ہوٹل سے کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’میڈر کو صرف یہ ثابت کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ فرانسیسی انصاف کا نظام کام کرتا ہے۔‘

مقدمے میں اس بات کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی کہ زیورات کہاں گئے۔

ڈائمنڈ انویسٹمنٹ آفس کے مطابق پولیس نے گینگ کے فونز کی ٹریکنگ سے پتہ چلا کہ چوری کے فورا بعد عمر نے پیرس سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ کا سفر کیا جہاں دنیا کے 50 فیصد پالش شدہ ہیرے اور 80 فیصد خام ہیرے فروخت کیے جاتے ہیں۔

بہت سے زیورات مبینہ طور پر پگھلا کر یا توڑ کر فروخت ہوئے۔ عباس کو 75,000 یورو ملے جبکہ دوسروں کو بہت کم۔

جہاں تک کِم کی منگنی کی انگوٹھی کا تعلق ہے تو عمر کا کہنا تھا کہ گینگ اسے فروخت کرنے سے بہت ڈرتا ہے کیونکہ اس کا آسانی سے سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ملی۔

چوری کے بارے میں کتاب کی مصنفہ پیٹریشیا ٹورنچاؤ کا کہنا ہے کہ وہ چوروں اور اس عالمی سوشل میڈیا سٹار کے درمیان تصادم سے کافی ’متاثر‘ ہیں۔

وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ موٹر سائیکلوں پر فرار ہو گئے اور وہ نجی جیٹ طیاروں پر پرواز کرتی ہیں، یہ عمر رسیدہ چوروں کا ایک گروپ ہے، وہ لوٹتے ہیں، وہ ہمیشہ پیچیدہ منصوبوں میں ملوث رہتے ہیں۔۔۔ اور وہ ایک بہت بڑی مشہور شخصیت کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کون ہے۔‘

’وہ واقعی بے وقوفوں کا ایک گروہ ہے۔ یہ اسی طرح کے لوگ ہیں جو 60 اور 70 کی دہائی میں بینکوں یا ڈاک خانوں میں چوری کرتے تھے اور پھر منشیات کی سمگلنگ کی طرف مائل ہو جاتے تھے اور پھر زیورات کی طرف چلے جاتے تھے کیونکہ یہ آسان تھا۔‘

مئی کے وسط کے آس پاس کم ان کئی سالوں میں پہلی بار مشتبہ افراد کا سامنا کریں گی جب وہ گواہ کے طور پر اپنا موقف دیں گی۔

فرانسیسی عدالتوں میں کیمروں کی اجازت نہیں ہے لیکن ان کی آمد لامحالہ میڈیا کے اسی جنون کو جنم دے گی جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ان کے ساتھ ہے۔

یونس عباس نے اپنی یادداشت میں اس امید کا اظہار کیا کہ اس کیس کی عالمی گونج ججوں پر غیر ضروری طور پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ مقدمے کے آخری دن وہ اپنے سامان کے ساتھ ایک بیگ لے کر آئیں گے، جو جیل جانے کے لیے تیار ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’ماضی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک آپ زندہ ہیں یہ آپ کے ساتھ رہتا ہے۔‘

SOURCE : BBC