SOURCE :- BBC NEWS

میاں بیوی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ملیسا ہوگنبوم
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر
  • 2 گھنٹے قبل

ڈیو کہتے ہیں ’جب بیوی سارا خرچ اٹھا رہی ہو تو مرد کی انا کو تھوڑی ٹھیس تو پہنچتی ہے۔‘

وہ گھر پر رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ٹام بھی ایسی ہی صورتحال میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ میں گھر پر رہتا ہوں تو وہ مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔

برینڈن کہتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار تو انھیں مذاق میں ’گھر کا نوکر‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

یہ تاثرات ان مردوں کے ہیں جو باہر نوکری نہیں کرتے اور جن کی بیویاں گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ زیادہ خواتین معاشی طور پر خودمختار ہو رہی ہیں مگر معاشرے کی پرانی سوچ اب بھی زندہ ہے کہ مرد ہی نان نفقے کے ذمے دار ہیں۔ یہی سوچ اکثر مردوں میں شرمندگی، احساسِ کمتری اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہے۔

پیسے اور طاقت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جب مرد کم کمانے لگیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ رشتے میں ان کی اہمیت یا ’مردانگی‘ کم ہو رہی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایسے شوہر جن کی بیوی زیادہ کماتی ہے، خود کو کم مطمئن اور کم خوداعتماد محسوس کرتے ہیں۔

مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ زیادہ کمائی کے باوجود خواتین ہی اکثر گھر کا کام اور بچوں کی پرورش سنبھالتی ہیں۔ صنفی توقعات میں بہت آہستہ رفتار سے تبدیلی آ رہی ہیں۔

کچھ مردوں کو جب مجبوری میں یعنی نوکری چھوٹنے یا شہر بدلنے پر گھر کی دیکھ بھال کا کردار نبھانا پڑ جائے تو وہ شرمندگی اور ناکامی محسوس کرتے ہیں۔

میاں بیوی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہیری بنٹن جو پہلے بطورِ کنسلٹنٹ کام کرتے تھے اور اب گھر پر رہنے والے والد ہیں، کہتے ہیں کہ نوکری کھونے کے بعد انھیں لگا جیسے ایک مرد، شوہر اور باپ کے طور پر ان کی شناخت چیلنج ہو گئی ہو۔

بعد میں وہ اپنے نئے کردار سے مطمئن ہو گئے لیکن اکثر مرد ایسے حالات میں ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سویڈن میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ جن مردوں کی بیویاں زیادہ کمانے لگیں ان میں ذہنی بیماریوں کی تشخیص میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ خواتین پر ایسا اثر کم دیکھنے میں آیا۔

کچھ مرد اپنی مردانگی یا ’برتری‘ واپس پانے کے لیے غلط راستے چنتے ہیں، جیسے بے وفائی۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جن مردوں کی بیویاں زیادہ کماتی ہیں، ان میں بے وفائی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ شاید اپنی انا بچانے کے لیے وہ ایسے راستے چنتے ہیں۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

خواتین کے مقابلے میں مردوں کی ذہنی صحت، خوشی اور خوداعتمادی کا رشتہ ان کی نوکری سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ کمزور سماجی روابط یا معاشرتی دباؤ بھی ہو سکتی ہے۔ گھر پر رہنے والے والد عموماً ماں کے مقابلے میں زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔

اور یہ سوچ کہ جو خواتین زیادہ کماتی ہیں وہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہیں، غلط ہے۔۔۔ اکثر یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مرد کی نوکری چلی جاتی ہے اور مجبوری میں عورت کو آگے آنا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ خواتین کی اوسط تنخواہ مردوں سے کم ہوتی ہے، اس لیے ایسے گھرانوں کی مجموعی آمدنی بھی اکثر کم ہوتی ہے۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود، کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ ایسے والد جو کیریئر سے وقتی کنارہ کشی کرکے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، وہ بچوں سے زیادہ قریبی رشتہ بناتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب والدین بچے کی پیدائش پر چھٹی لیتے ہیں تو ان کی ازدواجی زندگی بھی زیادہ خوشگوار ہوتی ہے اور یہ رویہ آنے والی نسلوں میں برابری کی سوچ کو فروغ دیتا ہے۔

سویڈن کی مثال اہم ہے جہاں پیٹرنٹی لیو نہ صرف لازمی ہو گئی بلکہ ان سے انکار اب سماجی طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ چاہے ابتدا میں مزاحمت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو، پالیسیاں ثقافتی رویوں کو بدل سکتی ہیں۔

خواتین کی کمائی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عالمی سطح پر نئی نسل اب بھی تقسیم کا شکار ہے۔ ایک سروے کے مطابق جنریشن زی (18-28 سال کی عمر) کے نوجوان، لڑکیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اس بات سے متفق ہیں کہ گھر پر رہنے والے باپ کی شخصیت میں تبدیلی آتی ہے۔

کئی نوجوان مرد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں برابری کے لیے بہت زیادہ قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔۔۔ شاید اس لیے کہ نوجوان خواتین تعلیم اور کیریئر میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

کنگز کالج لندن کی پروفیسر ہیجونگ چونگ کہتی ہیں کہ یہ سوچ نوجوان مردوں کے ’پیچھے رہ جانے‘ کے احساس سے جنم لیتی ہے۔ ایک اور پروفیسر روزی کیمبل کہتی ہیں کہ مردانگی کا تعریف دوبارہ اس انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو برابری کی حمایت کرے اور اس کے لیے کھلے الفاظ میں گفتگو اور مثبت مردانہ رول ماڈلز ضروری ہیں۔

وہ خبردار کرتی ہیں کہ اگر نسوانیت (فیمنزم) کی تعریف مبہم، ناقابلِ رسائی یا صرف چند طبقات تک محدود رہی، تو یہ ممکن ہے کہ کچھ مرد ایسے افراد کے اثر میں آ جائیں جو نفرت اور تعصب پر مبنی بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔

تاہم امید کی کرن بھی موجود ہے۔ ایک نئی سوچ ابھر رہی ہے جسے ’رحم دل مردانگی‘ کہا جا رہا ہے جس میں مرد طاقت اور کنٹرول کے بجائے ہمدردی، محبت اور دیکھ بھال جیسے جذبات کو بھی خوش دلی سے اپناتے ہیں۔

صنف پر تحقیق کرنے والی محقق کارلا ایلیٹ کے مطابق اس سوچ کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ مرد پرانی دقیانوسی سوچوں کو ترک کریں اور گھر کے مشکل، تھکا دینے والے کاموں میں برابری سے حصہ لیں۔

مردوں کے لیے مخصوص پیٹرنٹی لیو والی پالیسیاں اس تبدیلی کو فروغ دے سکتی ہیں۔ لیکن صرف قوانین کافی نہیں۔۔۔ سماجی اور ثقافتی بیانیے بھی اسی قدر اہم ہیں۔

ایلیٹ کہتی ہیں ’اگر مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کی خود اعتمادی بیوی کی آمدن سے متاثر ہو رہی ہے تو یہ دراصل اپنی سوچ پر غور کرنے اور روایتی صنفی خیالات کو چیلنج کرنے کا ایک موقع ہے۔‘

جیسے جیسے خواتین کمائی کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں، مردوں کو بھی ناصرف خاندان کی بہتری کے لیے بلکہ اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے اپنی سوچ، کردار اور رویے بدلنے ہوں گے۔

ایک ایسا مستقبل جس میں کمائی اور دیکھ بھال کی ذمہ داریاں مرد و زن کے درمیان برابر تقسیم ہوں، یہ پرانی فرسودہ سوچ کو ختم کر سکتا ہے کہ ’گھر کا واحد کفیل صرف مرد ہے‘ اور اس کے نتیجے میں رشتوں میں زیادہ توازن اور خوشی ممکن ہو گی۔

SOURCE : BBC