SOURCE :- BBC NEWS

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جین ڈیتھ اور ایما فورڈ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

ایک شام جب کیٹ اور اُن کے شوہر ایک ساتھ بیٹھے اور بات چیت کا آغاز ہوا تو وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کے شوہر انھیں اب کیا بتانے والے ہیں۔

’میں گزشتہ کئی سالوں سے آپ کا ریپ بھی کر رہا ہوں اور اس سب کے دوران آپ کی تصاویر بھی لے رہا ہوں۔‘

کیٹ (فرضی نام) کے پاس یہ سُننے کے بعد کہنے کو کُچھ نہیں تھا۔ اُن پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ وہ (اُن کے شوہر) کیا کہہ رہے ہیں۔

’انھوں نے مجھ سے یہ سب اتنی آسانی سے کہا دیا کہ جیسے یہ کوئی بہت ہی معمولی سی بات ہو۔‘

انتباہ: اس تحریر میں شامل چند معلومات آپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

برسوں بند دروازوں کے پیچھے ان کے شوہر اُن پر یہ ظلم ڈھا رہے تھے۔ اُن کا رویہ پرتشدد تھا، وہ نسخے پر لکھی گولیوں کا غلط استعمال کر رہے تھے۔

اس دوران ایسا وقت بھی آیا کہ جب کیٹ نے ہوش میں آنے پر اپنے شوہر کو اُن کے ساتھ سیکس کرتے پایا مگر وہ ادویات کے استعمال کی وجہ سے ایسی حالت میں تھیں کہ وہ انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکیں، ایک ایسے فعل سے جس میں اُن کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔ یعنی اُن کا ریپ ہوا۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

کیٹ کے شوہر نے اپنے کیے پر ندامت کے احساس کو باتوں میں گھماتے ہوئے انھیں بس یہی کہا کہ ’میں تو ہوش میں نہیں تھا، نہیں جانتا کہ کیا ہوا اور میں کیا کرتا رہا۔ میں تو بیمار تھا اور نہیں سمجھ پایا کیا ہو رہا ہے۔‘

کیٹ اُن کی باتوں میں آ جاتیں، حتیٰ کے انھیں ڈاکٹرز کے پاس بھی لے کر جاتیں کہ اُن کا علاج کروایا جا سکے۔

لیکن کیٹ اُس وقت تک یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کے شوہر رات میں انھیں چائے کے کپ میں نیند کی دوا دے کر گہری نیند سُلانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ جب وہ سو جائیں تو وہ اُن کا ریپ کر سکیں۔

اپنے اس جُرم کے اعتراف کے بعد، کیٹ کے شوہر نے انھیں دھمکایا اور انھیں کہا کہ اگر وہ پولیس کے پاس گئیں تو وہ اُن کی زندگی کا آخری دن ہوگا جس کے بعد کیٹ ایسا نہیں کر سکیں۔

وجہ یہ تھی کہ وہ اُن کے بچوں کا باپ تھا، اور وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ حالات خراب ہوں۔

تاہم یہ سب سننے کے چند مہینوں بعد کیٹ کو ہولناک جسمانی اثرات کا سامنا تھا۔ کیٹ نے بتایا کہ وہ شدید بیمار ہو گئیں، ان کا وزن تیزی سے کم ہونے لگا اور انھیں ’پینک اٹیک‘ یعنی خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے دورے پڑنے لگے۔

اپنے شوہر کے ’اعترافِ جرم‘ کے تقریباً ایک سال بعد جب کیٹ کی حالت انتہائی خراب ہوئی تو انھوں نے اپنی بہن کو سب کچھ بتایا۔

ان کی بہن نے اپنی والدہ کو فون کیا جنھوں نے پولیس سے رابطہ کیا۔ کیٹ کے شوہر کو گرفتار کر کے اُن سے پوچھ گچھ کی گئی۔

تاہم چار دن بعد کیٹ نے پولیس سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں اور پیش رفت نہیں کرنا چاہتی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ابھی اس سب کے لیے تیار نہیں تھی۔‘ یہ وقت اُن کے لیے اور اُن کے بچوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا، کیونکہ اس سب کے بعد اُن کے شوہر اور اُن کے بچوں کے والد کے درمیان تعلق کبھی بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا تھا۔

اس کے باوجود کیٹ اپنے شوہر کو مزید گھر میں نہیں دیکھنا چاہتی تھیں، جس کی وجہ سے اُن کے شوہر کو اپنے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرنا پڑا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جس کے بعد کیٹ نے اس معاملے پر اطمینان سے سوچا اور چھ ماہ کے بعد انھوں نے پولیس سے پھر رابطہ کیا جس کے بعد ڈیٹ کون مائیک سمتھ کی سربراہی میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔

کیٹ کہتی ہیں کہ اس معاملے کے تفتیش کرنے والے اہلکار نے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایک سنگین جرم کا شکار ہوئیں اور خوش قسمتی سے بچ گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے (پولیس اہلکار نے) مجھے ہمت اور حوصلہ دیا۔ مجھے شعوری طور پر احساس نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ یہ ریپ تھا۔‘

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کے (اب سابق) شوہر کے میڈیکل ریکارڈ نے ایک اہم ثبوت فراہم کیا۔ کیٹ کے سامنے اعتراف جرم کے بعد، انھوں نے ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا تھا اور معائنے کے لیے خفیہ طور پر انھیں ادائیگی کی تھی۔

نفسیاتی ماہر کے ساتھ سیشن کے دوران انھوں نے (کیٹ کے شوہر نے) بتایا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ’جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے نشہ آور دوا دیتے تھے‘ اور جب وہ نیم غنودگی میں ہوتیں یا جب وہ سو جاتیں تب وہ ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے۔

کیٹ کے شوہر کا یہ اعترافِ جُرم اُن کے ماہر نفسیات کے نوٹس میں درج پایا گیا۔

کیٹ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے نارکوٹکس اننامس نامی منشیات کے استعمال کے خلاف کام کرنے والے ادارے میں کچھ لوگوں کے ساتھ ساتھ چرچ کے دوستوں کے سامنے بھی اعتراف کیا۔

اس کیس سے متعلق پولیس فائلوں کو بالآخر کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کے سامنے پیش کیا گیا لیکن اس نے الزامات عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

کیٹ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا اور کیوں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا، اگر آپ کو میرے معاملے میں مجرم کو سزا دینے کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے ہیں، مجرم کے اعترافی بیانات کے ساتھ، تو پھر کسی اور کو کیسے موقع ملے گا؟‘

مایوس ہو کر انھوں نے سی پی ایس کے فیصلوں پر باضابطہ نظر ثانی کی درخواست دی۔ چھ ماہ بعد سی پی ایس نے کہا کہ اب ان کے سابق شوہر پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ’ہمارے چارجنگ پراسیکیوٹر کی طرف سے لیا گیا اصل فیصلہ ناقص تھا۔‘

سی پی ایس کے ایک ترجمان نے فائل آن 4 انویسٹی گیشنز کو بتایا کہ ’اگرچہ ہمیں اپنے زیادہ تر چارجز کے فیصلے پہلی بار ملے ہیں، لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا اور ہم متاثرہ فرد سے اس تکلیف کے لیے معافی مانگتے ہیں جو اس سے پیدا ہوئی ہوگی۔‘

University of Bristol School for Policy Studies

،تصویر کا ذریعہUniversity of Bristol School for Policy Studies

کیٹ کے سابق شوہر کی جانب سے کیٹ کے سامنے اعتراف جرم کیے جانے کے پانچ سال بعد یہ معاملہ 2022 میں عدالت میں چلا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران انھوں نے دعویٰ کیا کہ کیٹ کو وہ سب پسند تھا جو وہ کرتے رہے یعنی نیند کی حالت میں جنسی تعلق قائم کرنا۔

انھوں نے کیٹ کو نشہ آور ادویات دینے کا بھی اعتراف کیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ وہ انھیں جگائے بغیر یہ سب کر سکیں۔ تاہم انھوں نے ریپ کے الزامات سے انکار کیا مگر جیوری نے ان پر یقین نہیں کیا۔

ڈیٹ کون سمتھ کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے انتہائی مضحکہ خیز اور تکلیف دہ تھا۔ یہ ان کی (کیٹ کی) زندگی کی سب سے تکلیف دہ بات تھی اور وہ اسے کسی نہ کسی قسم کی جنسی کشمکش کے لیے مکمل طور پر آمادگی کے ساتھ ایک عمل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔‘

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد کیٹ کے سابق شوہر کو ریپ، جنسی استحصال اور ارادتاً نشہ آور دوا دینے کا قصوروار پایا گیا۔

سزا سناتے ہوئے جج نے انھیں ’ایک خود غرض شخص‘ کے طور پر بیان کیا، جو اپنی مبینہ ضروریات کو لامحدود طور پر ترجیح دیتا ہے، ’جس نے کوئی حقیقی پچھتاوا ظاہر نہیں کیا تھا۔‘

انھیں 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور تاحیات حکم امتناع دیا گیا تھا۔

تین سال بعد کیٹ اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کے بعد سے انھیں ’پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘ (پی ٹی ایس ڈی) اور ایک اعصابی عارضے کی تشخیص ہوئی جس کی وجہ وہ صدمہ تھا کہ جس میں سے وہ گزری ہیں۔

کیٹ کو اپنے کیس اور فرانسیسی خاتون جزیل پیلیکوٹ کے کیس میں مماثلت نظر آتی ہے جن کے سابق شوہر نے انھیں نشہ آور دوا دی اور ریپ کیا اور اُن کے ساتھ ایسا کرنے کے لیے درجنوں مردوں کو بھی اس فعل کا حصہ بنایا۔

کیٹ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں صرف یہ امید کر رہی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ اسے وہ حمایت ملے جس کی اسے ضرورت ہے۔‘

’کیمیکل کنٹرول‘ اب ایک اصطلاح ہے جو ادویات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں ہے۔ یونیورسٹی آف برسٹل کے سینٹر فار جینڈر اینڈ وائلنس ریسرچ کی پروفیسر مارین ہیسٹر کا کہنا ہے کہ ’یہ ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ اس کے بارے میں سوچتی ہوں کہ اگر گھروں میں ایسی نشہ آور ادویات موجود ہیں تو کیا مجرم واقعی انھیں کسی بھی کام کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا کر رہا ہے؟‘

PA Media

،تصویر کا ذریعہPA Media

انگلینڈ اور ویلز کے لیے گھریلو تشدد کی کمشنر ڈیم نکول جیکبز کہتی ہیں کہ ’پولیس کی جانب سے جرائم کو ریکارڈ کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کی وجہ سے سپائکنگ جیسے جرائم کو کم ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وزرا اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آئندہ دہائی میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو نصف کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے نقصانات میں کمی آ رہی ہے، تو ہمیں پولیس کو رپورٹ کیے گئے تمام گھریلو تشدد سے متعلق جرائم کی درست انداز میں پیمائش کرنی ہوگی۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ نہ صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے کہ مجرموں کا احتساب کیا جائے، بلکہ متاثرین کو وہ ضروری مدد ملے جس کی انھیں دوبارہ زندگی جینے کے لیے ضرورت ہے۔‘

ہوم آفس نے ہمیں بتایا کہ وہ پولیس سافٹ ویئر تیار کر رہا ہے جو کسی دوسرے جرم کے حصے کے طور پر پیش آنے والے واقعات کی نشاندہی کرسکے گا۔

سپائکنگ پہلے ہی پورے برطانیہ میں ایک جرم ہے، جس کا احاطہ دیگر قانون سازی کے حصوں کے طور پر کیا گیا ہے۔

انگلینڈ اور ویلز میں لاگو ہونے والے نئے قانون کے تحت مجرموں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کی وزیر جیس فلپس نے فائل آن فور انویسٹی گیشنز کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’سپائکنگ ایک گھناؤنا جرم ہے جو متاثرین کے اعتماد اور تحفظ کے احساس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘

اس قانون کو شمالی آئرلینڈ تک توسیع دینے پر بات چیت جاری ہے۔

سکاٹ لینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا کسی مخصوص جُرم کے لیے قانون بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے لیکن وہ صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے۔

کیٹ کو بالآخر انصاف مل گیا۔ لیکن ان کے سابق شوہر جیل میں نہیں ہوتے اگر انھوں نے سی پی ایس کا مقابلہ نہ کیا ہوتا جبکہ انھیں یقین نہیں تھا کہ اس کیس میں سزا کا حقیقت پسندانہ امکان ہے۔

کیٹ کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ دوسرے لوگ یہ سمجھیں کہ بدسلوکی آپ کے خیال سے کہیں زیادہ خاموشی سے ہوتی ہے۔ میں اب بھی یہی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں کے میرے ساتھ کیا ہوا اور اس نے مجھے کس طرح متاثر کیا ہے۔‘

SOURCE : BBC