SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, جیریمی بوون
- عہدہ, بین الاقوامی ایڈیٹر، بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ میں جنگ کا آغاز کیا تھا اور اس جنگ میں اسرائیل کی جانب سے اُس اسلحے کا استعمال کیا گیا جو زیادہ تر یا تو امریکہ کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا یا امریکہ کی مالی اعانت سے خریدا گیا تھا۔
اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک نے بھی اسے (اسرائیل) ایک اور طاقتور ہتھیار فراہم کیا۔۔۔ اور یہ ہتھیار تھا اسرائیل کی اس جنگ میں مکمل اخلاقی حمایت اور یکجہتی کا۔
مغربی اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل کو یہ حمایت اُن 1200 افراد کی ہلاکتوں پر غم و غصے کے اظہار کے طور پر دی گئی جن میں اکثریت اسرائیلی شہریوں کی تھی جو حماس کے حملے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو مغربی اتحادیوں کی طرف سے میسر یہ اخلاقی حمایت ختم ہو چکی ہے، کم از کم فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے حوالے سے تو یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ اِن تینوں ممالک نے اسرائیل کے اُس طریقہِ کار کی سب سے سخت مذمت کی ہے جس کے تحت وہ غزہ میں جنگ لڑ رہا ہے۔
ان تینوں ممالک نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی نئی فوجی کارروائی کو فوراً روکے، یعنی وہ نیا فوجی آپریشن جس کا آغاز حال ہی میں ہوا ہے اور جس کے بارے میں وزیرِاعظم نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کی مدد سے حماس کا خاتمہ ہو گا، حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرایا جائے گا اور پورے غزہ کو براہِ راست اسرائیلی فوجی کنٹرول میں لایا جائے گا۔
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے نتن یاہو کی نئی حکمتِ عملی کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا واضح مطالبہ کر دیا ہے۔ اس تینوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنز کے پھیلاؤ کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ وہاں انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters
ان ممالک نے حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے یاد دلایا کہ سات اکتوبر کے ’سفاکانہ حملے‘ کے بعد انھوں نے اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا تھا، ’لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر غیر متناسب ہے۔‘
نتن یاہو کی جانب سے غزہ میں ’انتہائی محدود‘ مقدار میں خوراک کی فراہمی کی اجازت کو بھی ان تینوں ممالک نے ’انتہائی ناکافی‘ قرار دیا ہے۔
جواباً نتن یاہو نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ ’لندن، اوٹاوا اور پیرس کے رہنما سات اکتوبر کو اسرائیل میں نسل کشی پر مبنی حملہ کرنے والوں کو انعام دے رہے ہیں اور مزید ایسے مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔‘
نتن یاہو نے زور دیا کہ اگر حماس یرغمالیوں کو واپس کرے، ہتھیار ڈال دے، اُس کی قیادت جلاوطنی قبول کرے اور غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنا دیا جائے تو جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ نتن یاہو نے کہا کہ ’کسی بھی ملک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے کم پر راضی ہو اور اسرائیل تو ہرگز نہیں ہو گا۔‘
خیال رہے نتن یاہو پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت نے وارنٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔ تاہم وہ اِن الزامات کو یہود مخالف قرار دیتے ہیں۔
نتن یاہو پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کریں، خاص طور پر ایک معتبر عالمی ادارے کے اس سروے کے بعد جس میں غزہ میں قحط کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
لندن میں ہونے والے یورپی یونین اور برطانیہ کے مشترکہ اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے غزہ کی صورتحال کو ’ایک ایسا سانحہ قرار دیا جہاں بین الاقوامی قوانین کی کُھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور پوری آبادی غیر متناسب فوجی طاقت کا نشانہ بن رہی ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ ’انسانی امداد کی فراہمی کے لیے فوری، محفوظ اور بغیر رکاوٹ رسائی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔‘
نتن یاہو کی جانب سے ہچکچاہٹ کے ساتھ غزہ میں خوراک کی محدود سپلائی کی اجازت دینے کے فیصلے کی اسرائیل میں موجود اُن کے انتہائی قوم پرست اتحادی شراکت داروں نے مذمت کی ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سنہ 2007 میں نسل پرستی پر اُکسانے اور ایک انتہا پسند یہودی گروپ کی حمایت کرنے کے الزام میں مجرم قرار دیے گئے سکیورٹی وزیر اتمار بن گویر نے کہا ہے کہ نتن یاہو کے فیصلے سے ’حماس کو آکسیجن ملے گی جبکہ ہمارے یرغمال شہری سرنگوں میں پڑے رہیں گے۔‘
پیر کے روز خوراک سے لدے صرف پانچ ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے نئے آپریشن کے تحت کی گئی پیش قدمی اور غزہ پر فضائی اور توپخانے کے حملوں میں بہت سے چھوٹے بچوں سمیت مزید فلسطینی شہری مارے گئے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کو تباہ کرنے اور ہزاروں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کرنے جیسے اقدامات کی مخالفت کرنے والے افراد اور گروہ کہیں گے فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کی حکومتوں نے اسرائیل کے خلاف بولنے میں بہت دیر کر دی ہے۔
اس جنگ کے مخالفین غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کے خلاف بہت عرصے سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ آئے روز فلسطینی شہریوں کی مزید ہلاکتوں، مغربی کنارے پر قبضے اور مسلح یہودی آباد کاروں اور مسلح أفواج کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائیوں اور چھاپوں کے دوران اراضی کی ضبطی کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے۔
لیکن کبھی کبھی جنگ کی سیاست میں، ایک واقعہ علامتی قوت کا حامل ہوتا ہے جو حکومتوں کو کارروائی یا ردعمل دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اور اس بار یہ واقعہ 23 مارچ کو غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 15 پیرا میڈیکس اور امدادی کارکنوں کا قتل تھا۔
یہ اس وقت ہوا جب اسرائیل نے 18 مارچ کو بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے ساتھ دو ماہ سے جاری جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔
جنگ بندی کے خاتمے کہ پانچویں روز ایک اسرائیلی فوجی یونٹ نے طبی عملے اور امدادی کارکنوں کے قافلے پر حملہ کیا، اور اس حملے میں جو افراد مارے گئے ان کی گاڑیوں کو ریت تلے دبا دیا۔ اسرائیل نے اس واقعے پر سرکاری بیان دیا مگر وہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب ریت تلے دفن ان افراد کی اجتماعی قبر میں موجود ایک لاش سے موبائل فون برآمد ہوا۔

اس موبائل کے مالک نے اپنے قتل سے پہلے اس پورے واقعے کو فلمایا تھا۔ اور اسرائیلی دعوؤں اور بیانات کے برعکس قبر سے ملنے والے موبائل کی فلم سے یہ ثابت ہوا تھا کہ اس قافلے میں شامل گاڑیوں اور ایمبولینسوں پر ناصرف روشن لائٹس چل رہی تھیں بلکہ ان پر ہنگامی حالات میں مدد کرنے والی گاڑیوں کے تمام نشانات موجود تھے۔ اسرائیلی یونٹ نے اس قافلے پر منظم انداز میں حملہ کیا اور یہاں تک کے قافلے میں شامل تمام گاڑیوں میں موجود لگ بھگ ہر شخص کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سے خطرے کی گھنٹی تیزی سے بج رہی ہے۔ ناصرف اسرائیل کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے یورپی اتحادی بھی اب اپنی زبان کو سخت کر رہے ہیں۔ تین ممالک کی جانب سے اسرائیل کی جانب سے جارحیت کے خاتمے کے مطالبے کا سامنے آنے والا بیان اسرائیل پر غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کی سب سے سخت تنقید ہے۔
اس معاملے سے باخبر ایک سیینئر یورپی سفارتی اہلکار نے مجھے بتایا کہ تینوں ممالک کی جانب سے سخت زبان کا استعمال غزہ میں ’انسانی المیے کی صورتحال پر بڑھتے ہوئے عالمی غصے کے حقیقی احساس کی عکاسی کرتا ہے، اور اس بات کی بھی عکاسی ہے کہ اسرائیلی حکومت بلاروک ٹوک کارروائیاں کر رہی ہے۔‘
اس مشترکہ بیان میں اسرائیل کے لیے زیادہ افسوسناک بات وہ ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم (اسرائیل کے ساتھ) کھڑے نہیں رہیں گے جب تک کہ نتن یاہو کی حکومت اِن گھناؤنی کارروائیوں کو جاری رکھے گی۔ اگر اسرائیل نے مزید فوجی کارروائی بند نہیں کی اور انسانی امداد تک رساؤ پر عائد پابندیاں ختم نہیں کیں تو ہم جواب میں مزید ٹھوس اقدامات کریں گے۔‘
اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ٹھوس اقدامات کیا ہوں گے۔ اسرائیل پر پابندیوں کا نفاد ایک اقدام ہو سکتا ہے، اور اس سے بڑا قدم فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ہو سکتا ہے۔
فرانس ان 148 دیگر ممالک کے بلاک میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے جنھوں نے جون کے شروع میں نیویارک میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایسا کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی فرانس کے ساتھ فلسطینیوں کو تسلیم کیے جانے سے متعلق بات چیت کی ہے۔
اسرائیل نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ان ممالک کو کہا ہے کہ ان کا بیان حماس کی فتح کا اظہار ہے۔ لیکن فرانس، کینیڈا اور برطانیہ کی جانب سے دیے گئے مشترکہ بیان میں جو لہجہ اختیار کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ان ممالک پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت کھو رہا ہے۔
SOURCE : BBC