SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, میٹ وارن
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
-
ایک گھنٹہ قبل
ہم ایک مصروف اور ہلچل سے بھرپور دنیا میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر ہمارے اندر تنہائی عروج پر ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ خود کو تنہا کیوں محسوس کرتے ہیں اور اس تنہائی کا علاج کیا ہے؟
تنہائی کی بہت ساری اقسام ہیں اور ہر کوئی اسے مختلف طریقے سے محسوس کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ اسے کیسے محسوس کرتے ہیں؟
شاید تنہائی ایک شہر ہے اور اس شہر کے لوگوں کی چہل پہل اور قہقہوں کے بیچ بھی آپ اجنبی اور انجان ہی رہ جاتے ہے۔
یہ شاید ایسا رشتہ ہے جو کڑواہٹ کا شکار ہو گیا۔ یا یہ ایک ایسی شادی ہے جس میں لفظ ان سںے رہ جاتے ہیں اور ضروریات کبھی پوری نہیں ہو پاتیں۔ آپ اس رشتے کا حصہ ہیں بھی لیکن کبھی بالکل منظر سے غائب۔
یا پھر شاید آپ مصنفہ میری شیلی کی کہانی فرینکینسٹائن کے کردار رابرٹ والٹن جیسے احساسات رکھتے ہیں جو ہر وقت سمندری جہاز میں اپنے ساتھیوں سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں ایک اچھے دوست کی تلاش ہے ’ایک ایسے شخص کی رفات جو مجھ سے ہمدردی رکھتا ہو، جو میری آنکھوں کی زبان بھی سمجھ سکے۔‘
یہ عام سی بات ہے کہ جسمانی اکیلا پن تنہائی کا باعث بن سکتا ہے اور کچھ چیزیں اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی ہیں جیسے کہ جسم کے کسی حصے میں شدت سے اُٹھنے والا درد۔
اگر آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے تو آپ نے کبھی یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ لوگ آپ کی تنہائی کو دور نہیں کر سکتے بلکہ شاید وہی اکثر آپ کی تکلیف کی وجہ ہوتے ہیں۔ حقیقت میں آپ کسی بھیڑ، کسی محبت سے جُڑے رشتے یا دوستوں میں بھی تنہا ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس کی تصدیق حال ہی میں 2021 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ہوئی۔ اس تحقیق میں 756 افراد شامل تھے جنھوں نے سمارٹ فونز میں موجود ایک ایپ کے ذریعے اپنے احساسات کو ریکارڈ کیا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تنہائی کا احساس اکثر ایسے مقامات پر زیادہ ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہو یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ ایسا جدید شہروں میں ہوتا ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی سے بھرپور شہری زندگی ہی ہماری تنہائی کی وجہ ہو، ایسی زندگی جس میں ہم ایک دوسرے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہوں۔ کیا اس تحقیق میں کوئی حل بھی چھپا ہوا ہے؟
اس تضاد کو سمجھنا یقیناً ضروری ہے۔ ہم ظاہری طور پر ایک ’تنہائی کی وبا‘ میں زندگی گزار رہے، ایک عالمی وبا جس کی کوئی سرحد نہیں، جو جوانوں سے لے کر بزرگوں تک کو متاثر کرتی ہے اور یہاں تک کہ یہ ہمارے ذہنوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔
بی بی سی نے سنہ 2018 میں تنہائی کو ناپنے کے لیے ایک تجربہ کیا تھا جس میں 55 ہزار افراد شامل تھے اور اس کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ 16 سے 24 برس کی عمر کے 40 فیصد لوگ اکثر اور بیشتر خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ دیگر مطالعات سے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 10 فیصد بالغ افراد خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمارے پاس دنیا بھر میں لوگوں سے جُڑے ہونے کے زیادہ طریقے موجود ہیں۔ شہری آبادیاں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور متعدد اندازوں کے مطابق اس صدی کے وسط تک دنیا کی 68 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہو گی۔
مصروف اور ٹیکنالوجی سے جُڑی دنیا میں بھی آخر ہم خود کو دوسروں کے اطراف تنہا کیوں محسوس کرتے ہیں اور کیا یہ واقعی ایک وبا ہے؟
تنہائی ایک پیچیدہ تصور ہے جسے ہم اپنے اپنے طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔
کنگز کالج لندن میں تاریخ کے پروفیسر فے باؤنڈ البرٹی دلیل دیتے ہیں کہ تنہائی کو کسی ایک دماغی کیفیت کا نام دینا درست نہیں بلکہ دراصل یہ بہت سارے احساسات کا ’مجموعہ‘ ہے، اس میں غم، غصہ اور حسد جیسے احساسات شامل ہو سکتے ہیں۔
تاہم سائنس میں تنہائی کی تعرف کچھ اس طرح سے بیان کی گئی ہے: حقیقی اور خواہشات پر مبنی رشتوں میں فرق۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف آپ کا تنہا ہونا ہی تنہائی کا باعث نہیں ہوتا۔
انسانی رشتوں پر تحقیق کرنے والے باتھ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات سیم کار کا خیال ہے کہ ’سب سے بڑی غلط فہمی‘ یہی ہے کہ آپ کی تنہائی کا علاج آپ کے اطرف میں موجود لوگ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگ بھی اکثر اس تنہائی کا سبب ہو سکتے ہیں۔
’ہر کوئی کسی ایک پہیلی کا حصہ ہے اور ہم ایسا محسوس کرنا چاہتے ہیں جیسے ہم اس میں بالکل فِٹ ہوں اور ایسا اکثر دوسرے لوگوں کے سبب ہی ہوتا ہے کہ ہم اس پہیلی میں فِٹ نہیں ہو پاتے۔ اکثر یہ لوگ آپ کے دوست یا ہمسفر بھی ہو سکتے ہیں جو شاید آپ کی شخصت کو نہ پہچان پائے ہوں۔‘
’میں نے خود کو سب سے زیادہ تنہا اس وقت ہی محسوس کیا، جس وقت میں بہت سارے لوگوں کے درمیان ہوتی ہوں۔‘
فے باؤنڈ کو حال ہی میں امریکہ سے ایک خط موصول ہوا تھا اور اس کی مصنفہ نے انکشاف کیا کہ وہ تقریباً نصف صدی سے اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہیں اور وہ ہی ہمیشہ سے ان کی تنہائی کی وجہ رہے ہیں۔ ان کو لگتا تھا کہ ان کی شادی ان کی تنہائی کا علاج ہو گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
اگر ایک پارٹنر جسمانی قربت چاہتا ہے جبکہ دوسرے کے مزاج میں تجسس زیادہ ہے اور وہ فکری بندھن کا خواہشمند ہے تو اکثر وہ دونوں ہی تنہا رہ جاتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی میں دماغی صحت پر تحقیق کرنے والی مصنفہ اولیویا ریمز کہتی ہیں کہ ’اس میں تاثر کا بھی عمل دخل ہے۔‘
’کچھ لوگ جن کا کسی ایک شخص سے گہرا تعلق ہوتا ہے وہ اکثر خود کو تنہا نہیں سمجھتے، ان کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کی قربت رکھنے والے خود کو تنہا تصور کر رہے ہوتے ہیں اور مزید گہرے روابط کے خواہشمند ہوتے ہیں۔‘
ریمز کہتی ہیں کہ ہمارے سماجی ماحول میں کچھ خرابیاں ہیں اور ہمیں اس کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے مقابلے میں ہمارے آباؤ اجداد کے لیے تنہائی زیادہ خطرناک تھی۔ اس تنہائی میں انھیں جانوروں سے زیادہ خطرہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خطرات کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔
فے باؤنڈ کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ 19ویں صدی سے پہلے تنہائی کی وضاحت کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں تھے اور اس وقت تنہا ہونے کا مطلب صرف جسمانی طور پر اکیلا ہونا ہوتا تھا۔
فے باؤنڈ کہتی ہیں کہ ’یہ اکیلے پن کی زبان تھی اور مجھے یہ بہت پسند ہے۔‘
’جب شاعر ولیم ورڈز ورتھ نے ’لونلی ایز آ کلاؤڈ‘ کے بارے میں لکھا تو وہ وہ صرف تنہائی کی بات کر رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ جذباتی اکیلے پن کا شکار تھے، جسے ہم آج عام طور پر تنہائی کے لفظ کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔‘
لیکن دو صدیوں میں دنیا بھر کے معاشرے یکسر بدل گئے ہیں۔ فے باؤنڈ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے مذہبی اور دیگر روایتی عقائد کے نظام کمزور ہوتے گئے، شہر بڑھتے گئے، برادریاں اور خاندان منتشر ہوتے گئے ویسے ہی لوگ زیادہ ’گمنام‘ اور اکیلے ہوتے گئے۔
ان کے مطابق ’جب میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں تو مجھے سماجی نگہداشت کی کمی اور رابطوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ واقعی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم تنہا محسوس کرتے ہیں۔‘
تو پھر بے تحاشہ لوگوں کے درمیان بھی تنہائی کے احساس کو مٹانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے عارضی اور دائمی تنہائی کے درمیان فرق کریں۔ ریمز کہتی ہیں کہ ’اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو جن علامات کا سامنا ہے وہ آپ کو اپنی زندگی گزارنے، کام کرنے، تعلقات استوار کرنے سے روک رہی ہیں۔ اگر یہ علامات پریشان کن ہیں تو آپ کسی پیشہ ور طبی ماہر کی خدمات لے سکتے ہیں۔‘
فے باؤنڈ کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو تنہائی کی دونوں اقسام میں فرق کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بڑھتی ہوئی عمر اور صحت کے مسائل سے لے کر امیری اور غریبی کے درمیان امتیاز بھی آپ کو تنہائی کا شکار بنا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان ساختی عوامل کو کمیونٹی اور حکومتی سطح پر فوری ازالے کی ضرورت ہے۔
لیکن انفرادی سطح پر عام مسئلہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم ثابت شدہ فوائد کے باوجود اکثر اجنبیوں سے رابطے بڑھانے میں گریز کرتے ہیں۔
سنہ 2014 میں ایک تحقیق کے دوران یونیورسٹی آف شکاگو اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے محققین نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تھی۔
انھوں نے شکاگو میں مسافروں سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ کیا کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کرنے سے ان کے صبح کے سفر میں بہتری آئے گی۔ زیادہ تر افراد نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
اس تحقیق کے دوران محققین کو معلوم ہوا کہ جو لوگ دورانِ سفر اجنبیوں سے بات چیت کرتے ہیں ان کا وقت زیادہ اچھا گزرتا ہے۔
فے باؤنڈ کا کہنا ہے کہ ’ہم جتنے زیادہ تنہا ہوتے ہیں اُتنے ہی تنہائی کے عادی ہوتے ہیں اور مدد کے لیے لوگوں تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔‘
’لہذا اگر آپ اکیلے رہنے کے عادی ہیں اور آپ کو مسترد ہونے کا خدشہ رہتا ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ کسی کے چہرے کے تاثرات آپ کو مسترد کر رہے ہیں یا ان کی باڈی لینگویج آپ کو مسترد کر رہی ہے۔‘
اگلی بار جب آپ بھیڑ میں خود کو تنہا محسوس کر رہے ہوں تو تو کوشش کریں کہ احترام کے ساتھ قریب کھڑے کسی فرد کے ساتھ بات چیت شروع کریں۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آپ اس طریقے سے خود کو کم تنہا محسوس کریں گے، آپ کا اعتماد بڑھے گا اور آپ کے اندر مسترد ہونے کا ڈر بھی کم ہو جائے گا۔
لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ تنہائی ختم کرنے کے لیے صرف نئے رابطے قائم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ہمیں بامعنی رابطوں کو بھی پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہاں جمسانی لمس بھی ضروری ہے اور تنہائی اور لمس کی کمی کے درمیان ایک ربط ہے۔ یہاں تک کہ کندھے پر ایک معمولی لمس بھی سماجی تعلق کے جذبات کو بڑھا سکتا ہے۔
سنہ 2020 میں کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلا کہ مختصر جسمانی رابطہ استوار کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ سنگل ہوں۔
لیکن لوگوں کے ساتھ رہنا ہی جڑے ہوئے محسوس کرنے کا واحد طریقہ نہیں۔ پالتو جانوروں کے ساتھ وقت بھی تعلق کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔
اسی طرح سنہ 2021 میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بھیڑ بھرے شہری علاقوں میں رہتے تھے ان میں تنہائی محسوس کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت قدرت سے لطف اندوز ہونے والوں میں تنہائی کا سامنا کرنے کا امکان 28 فیصد کم ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ رشتے ہمیں تنہائی کا شکار کرتے ہیں، چاہے یہ رشتہ کسی دوست کے ساتھ ہو یا کسی رومینٹک پارٹنر کے ساتھ۔
ہمیں اکثر کسی رشتے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے اسے نبھانے کے لیے کوئی ماسک پہنا ہوا ہے یا ہم کسی کی خوشی کے لیے ایک ایسا فرد بن رہے ہیں جو درحقیقت ہم ہیں ہی نہیں۔
آپ اپنے دوست یا ساتھی کو بتائیں کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں اور اس کے بدلے میں آپ انھیں ان کی ترجیحات سمجھنے کا موقع دیں۔
اگر اس رشتے سے آپ خوش نہیں تو آپ اس سے الگ ہونے پر غور کریں۔
جب بھی ہم تنہائی محسوس کریں تو خود سے یہ ضرور پوچھیں کہ یہ احساسات ہمیں کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
ریمز کہتی ہیں کہ ہمیں اپنے جذبات سے اُٹھنے والے سوالات کے جوابات کو غور سے سُننا چاہیے۔
’جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ مثال کے طور پر اگر آپ کو لگے کہ آپ اس لیے تنہا ہیں کیونکہ آپ لوگوں تک رسائی نہیں رکھتے تو دیکھیں یہ کتنا حوصلہ افزا جواب ہے۔ یعنی اب آپ کو لوگوں سے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘
SOURCE : BBC