SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, آندرے بیرناتھ
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
-
56 منٹ قبل
ہمارا معدہ کروڑوں اعصابی خلیوں کا گھر ہے اور یہی سے 95 فیصد سیروٹونن پیدا ہوتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ کسی نیورو یا اعصابی ٹرانسمیٹر کی طرح کام کرتے ہیں۔
حال ہی میں سامنے آنے والے نئے شواہد نے آنتوں میں موجود مائیکرو بائیوٹا کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مائیکرو بائیوٹا در اصل کھربوں بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور دیگر خوردبینی اجسام کا ایک گروپ ہے جو جسم اور دماغ کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معدہ اور دماغ کس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تعلق کیسے قائم ہوتا ہے؟ اور کیا صحت مند اور خوشگوار زندگی کے لیے اس رابطے کو بہتر بنانا ممکن ہے؟
معدے اور دماغ کا جوڑ
معدے کی ماہر ڈاکٹر صالحہ محمود احمد بتاتی ہیں کہ یہ دونوں اعضا، معدہ اور دماغ، تین مختلف طریقوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
پہلا ’ویگس نرو‘ یعنی عصب تائیہ ہے۔ یہ اعصابی نظام کا ایک بہت اہم ڈھانچہ ہے جو دماغ کو دل اور آنتوں جیسے کئی اعضا سے براہ راست جوڑتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دماغ اور معدہ ہارمونز کی مدد سے بات کرتے ہیں۔ گھریلن اور جی ایل پی-1 جیسے ہارمونل مادے گلینڈز یا غدود کے ذریعے تیار ہوتے ہیں اور پورے جسم میں سگنل بھیجتے ہیں۔
تیسرا حصہ مدافعتی نظام ہے۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈاکٹر صالحہ کہتی ہیں’بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مدافعتی خلیے صرف خون یا لمف نوڈس میں رہتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا ایک بڑا حصہ آنتوں میں سرگرم رہتا ہے اور دماغ اور پورے آرگینزم کے درمیان ثالث کا کام کرتا ہے۔‘
امریکہ کے میو کلینک میں معدے کے ماہر ڈاکٹر پنکج جے پسریچا نے اس خاص تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دماغ کو کام کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور معدہ ہمارا اپنا پاور ہاؤس ہے۔
وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دماغ ہمارے جسمانی وزن کا صرف دو فیصد ہے لیکن وہ جسم کی توانائی کا 20 فیصد استعمال کرتا ہے۔ اور آنتوں کا کام خوراک کو سادہ مالیکیولز میں توڑنا اور انھیں جذب کرنا ہے تاکہ پورے آرگینزم کو ‘ایندھن’ فراہم کیا جا سکے۔
لیکن یہ دو طرفہ رشتہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو جہاں دماغ معدہ کو متاثر کرتا ہے وہیں معدہ بھی دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
اور ہمیں غور کرنے پر اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
جب ہمیں کسی خطرناک یا سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ دفتر میں ہونے والی اہم میٹنگ سے قبل ہمارے پہلے جسمانی ردعمل میں سے ایک آنتوں میں کچھ ہونا ہے۔ ایسے میں ہمیں متلی محسوس ہو سکتی ہے، پیٹ میں درد ہو سکتا ہے یہاں تک کے بدہضمی یا ڈائریا بھی ہو سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
آپ کے پیٹ میں کھربوں مائیکروبیل سیلز
ہماری آنتوں میں 10 کھرب سے 100 کھرب مائیکروبیل سیلز یا خلیات پائے جاتے ہیں۔ ان میں بیکٹیریا، وائرس، فنگس، پروٹوزوا اور دیگر ایسے جاندار پائے جاتے ہیں جو کو مائیکروسکوپ کے بغیر دیکھنا ممکن نہیں۔
مائیکروبیل سیلز کی یہ تعداد انسانی خلیات سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مائیکروبیل کمیونٹی ہمارے ساتھ ایک باہمی تعلق رکھتی ہے۔ یہ ہماری خوراک سے غذائیت حاصل کرتے ہیں اور ہمیں ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ کچھ اجزا کو تو یہ توڑتے ہیں جنھیں ہمارا جسم خود نہیں توڑ سکتا۔
گذشتہ دو دہائیوں میں آنتوں میں موجود مائیکروبیوٹا اور اس کے ہماری صحت پر اثرات سے متعلق معلومات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق سائنسدانوں نے ایسی نئی ٹیکنالوجی اور ٹیسٹ پر کام کیا ہے جو آنتوں میں پائے جانے والے جرثوموں کو جانچنے اور اُن کے باعث مختلف بیماریوں پر اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
ڈاکٹر پسریچہ مزید بتاتے ہیں کہ مائیکروبیوٹا کے توازن میں تبدیلی کا عمل (ڈس بایوسس) اب تقریباً ہر انسانی بیماری کے ساتھ منسلک پایا گیا ہے۔
سنہ 2011 میں ڈاکٹر پسریچا نے اس حوالے سے چوہوں پر ایک ابتدائی تحقیق کی اور اس دوران انکشاف ہوا کہ زندگی کے ابتدائی دنوں میں جو لوگ معدے کی جلن کا سامنا کرتے ہیں ان میں طویل مدتی ڈپریشن اور اضطرابی کیفیت کا خطرہ پایا جاتا ہے۔
دیگر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ڈس بایوسس موٹاپے، دل کی بیماریوں اور یہاں تک کہ کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر پسریچا کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ابھی اتنے شواہد نہیں کہ ہم آنتوں کی خرابی کو کئی بیماریوں کی بنیادی وجہ یا اثر کا تعلق قائم کر سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ ایسے شواہد موجود ہیں جن میں جانوروں اور انسانوں پر کی گئی تحقیق میں سامنے آنے والے مسائل آنتوں سے شروع ہو کر ڈپریشن یا بے چینی کا باعث بننے والی ذہنی بیماریوں کا سبب بنے۔
’لیکن کیا یہ بیماریاں واقعی آنتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں؟ اس کا ہمیں ابھی یقین نہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پودوں پر مبنی خوراک کے فوائد
آنتوں کی مائیکرو بایوٹا اور دماغ سے اس کے تعلق کے بارے میں حالیہ تحقیق کے پیش نظر کیا واقعی ممکن ہے کہ ہمارے پیٹ میں موجود خوردبینی جانداروں کے درمیان ایک مکمل توازن برقرار رکھا جا سکے۔
ڈاکٹر صالحہ احمد کےمطابق یہ کام مشکل ہے کیونکہ ہر شخص کے مائیکرو بایوم یعنی بیکٹیریا، وائرس اور دیگر خوردبینی جاندار مختلف ترتیب سے موجود ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر انسان کا مائیکرو بایوم الگ ہوتا ہے۔ آپ کسی اور انسان کے ساتھ اپنے نظام کا موازنہ نہیں کر سکتے۔‘
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ عمومی تدابیر ایسی ہیں جو آنتوں کی صحت کے لیے فائدہ مند سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً متنوع اور متوازن غذا کا استعمال ایک اچھا آغاز ہے۔
نظامِ ہضم کے لیے فائدے مند بیکٹیریا پر مبنی غذائیں جیسے کہ دہی، کفیر اور کومبوجا پروبائوٹکس جبکہ ریشے دار اجزا پر مبنی خوراک جیسا کہ پھل اور سبزیاں پری بائیوٹک کہلاتی ہیں اور ان کا استعمال بھی قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صالحہ احمد کہتی ہیں کہ ’میں یہ کہوں گی کہ غذا میں تنوع بہت اہم ہے، خاص طور پر پودوں پر مبنی غذاؤں کی مقدارہمارے نظام کے لیے بہت مفید ہے۔‘
ماہر نظام انہضام کی حیثیت سے وہ تجویز دیتی ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی روز مرہ کی خوراک میں پھل، سبزیاں، اناج، دالیں، گریاں، بیج اور مسالحے شامل رکھے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں خود مکمل سبزی خور نہیں ہوں لیکن میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ ہمیں اپنی غذا میں پودوں پر مبنی خوراک کی مقدار بڑھانی چاہیے۔‘
ڈاکٹر صالحہ ان مطالعات کی طرف اشارہ کرتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن افراد کی غذا میں اوسطاً 30 فیصد مختلف قسم کے پودوں پر مبنی خوراک شامل ہو ان کا مائیکرو بایوم زیادہ صحت مند ہوتا ہے۔
لیکن کیا صرف خوراک میں تبدیلی سے انسان کے جذبات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، حتیٰ کہ کیا یہ ڈپریشن جیسی بیماریوں سے نمٹنے میں بھی مدد کر سکتی ہے؟
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک تحقیق اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کی گئی۔
ماہرین نے تحقیق میں 71 ایسے رضاکاروں کو شامل کیا جو ڈپریشن کا شکار تھے اور انھیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ پہلے گروپ کو چار ہفتوں تک پروبائیوٹکس دی گئیں، جبکہ دوسرے گروپ کو ایک دوا دی گئی۔
اس آزمائش میں نہ سائنسدانوں کو معلوم تھا کہ کون کیا لے رہا ہے اور نہ ہی رضاکار واقف تھے کہ ان پر کس چیز کا تجربہ کیا جا رہا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
تجربے کے دوران ماہرین نے کئی ایسے ٹیسٹ کیے جن سے مزاج، اضطراب، نیند اور لعاب (تھوک) میں موجود کورٹیسول (دباؤ سے متعلق مادہ) کی پیمائش کی جا سکے۔
کلینیکل ماہرِ نفسیات اور اس تحقیق کی سربراہ پروفیسر ریتا بایاؤ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے شکار افراد مثبت یا غیر جانبدار محرکات کے بجائے منفی احساسات اور چہروں کے تاثرات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ہم یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ آیا پروبائیوٹکس کا استعمال دماغ میں جذبات سے متعلق معلومات کے تجزیے پر اثر انداز ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘
پروفیسر ریتا بایاؤ کا کہنا ہے کہ ’پروبائیوٹک گروپ میں ہم نے دیکھا کہ وہ چہروں کے تاثرات اور دیگر جذباتی معلومات جیسے منفی محرکات کو پہچاننے کی جانب کم جھکاؤ رکھتے تھے۔‘
پروفیسر ریتا بایاؤ کا دعویٰ ہے کہ پروبائیوٹکس ڈپریشن کی کچھ علامات کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے مزید تحقیق درکار ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ابھی مزید ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے تاہم کچھ ایسے اشارے موجود ہیں کہ پروبائیوٹکس کم ضمنی اثرات کے ساتھ مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر پسریچا کا کہنا ہے کہ مائیکرو بایوم کی ساخت کو تبدیل کرنے میں ابھی کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
’اور ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر افراد کے لیے کچھ رویوں کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، ورنہ ہمیں موٹاپے کی مسئلے کا سامنا نہ ہوتا لیکن ہم اس معمے کو حل کرنے کے لیے اہم معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔‘
SOURCE : BBC