SOURCE :- BBC NEWS

24 منٹ قبل
ایپل نے اپنے ایپ سٹور سے کچھ ایسی ایپس کو ہٹا دیا ہے جو ٹک ٹاک پر رضامندی کے بغیر لوگوں کی ڈیپ فیکس یعنی جعلی تصاویر بنانے کے لیے اشتہار دے رہی تھیں۔
ایپل نے یہ اقدام بی بی سی کی جانب سے نشاندہی کیے جانے کے بعد اٹھایا۔
’ڈیکلوتھنگ‘ یا ’نیوڈیفائی‘ ایپس ڈیجیٹل طور پر برہنہ یا جزوی طور پر برہنہ تصاویر یا ویڈیوز بنانے کے لیے تصاویر میں موجود کپڑوں کو ہٹا دیتی ہیں۔
ایپس کے آفیشل ایپ سٹور پیجز اور ویب سائٹس نے انھیں ’سیلفیز کو دلچسپ بنانے کے اوزار‘ کے طور پر بیان کیا گیا لیکن ٹک ٹاک پر ان کمپنیوں نے تشہیری مہم چلائی تاکہ ایسی ایپس کو فروغ دیا جا سکے جو خواتین کی اجازت کے بغیر ان کی شہوت انگیز تصاویر بناتی ہیں۔
صارفین کو ’اپنی پسندیدہ شخصیت کی ایسی تصاویر حاصل کرنے‘ کے لیے ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
ایک اور صارف نے دعویٰ کیا کہ یہ ایپس ’کسی کے بھی کپڑے اتار سکتی ہیں۔‘ کچھ نے کہا کہ وہ ’کسی کو بھی بکنی میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
ہم ان ایپس کو عام کرنے سے بچنے کے لیے ان کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
برطانیہ سمیت کچھ ممالک کے قوانین کے تحت کسی کی جنسی طور پر فحش تصاویر بنانا غیر قانونی ہے۔ سپین، جنوبی کوریا اور امریکہ میں ’نیوڈیفائی‘ ایپس بڑھتا ہوا مسئلہ ہیں اور اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سکول جانے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ معاملات میں متاثرین کو ان جعلی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔


بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
پرنسٹن کے سینٹر فار انفارمیشن ٹیکنالوجی پالیسی کے پروفیسر اروند نارائنن کے مطابق ٹیک کمپنیوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیپ فیک نیوڈی فیکیشن ایپس کے پھیلاؤ کو محدود کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو ایپ سٹورز سے ان ایپس پر پابندی لگانی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ’ان کے اشتہارات سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔‘
ٹک ٹاک کے کچھ اشتہارات میں گیم آف تھرونز کی سٹارز لینا ہیڈی اور میسی ولیمز کی تصاویر کا استعمال کیا گیا تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ کس طرح خواتین کو غلط طریقے سے اس طرح دکھایا جا سکتا ہے جیسے وہ اپنے انڈرویئر اتار رہی ہیں۔
بی بی سی کو معلوم ہوا کہ چار ایسی ایپس ٹک ٹاک کے ذریعے اشتہارات دینے کے لیے پیسے دے رہی تھیں، جنھوں نے اب ان اشتہارات کو ہٹا دیا ہے لیکن ایپ بنانے والوں سے منسلک اکاؤنٹس پر اسی طرح کی ویڈیوز سائٹ پر موجود ہیں۔
ٹک ٹاک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اشتہارات ویڈیو شیئرنگ سائٹ کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس کے تحت ایسے مواد کی ادائیگی کے لیے اشتہارات کی اجازت نہیں دی جاتی جو جنسی مواد پر مبنی ہوں۔
کمپنی نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اشتہارات اعتدال پسندانہ جانچ پڑتال کے ذریعے کیسے حاصل ہوئے۔

ایپل نے بھی بی بی سی کی رپورٹنگ کا جواب دیتے ہوئے اپنے ایپ سٹور سے ان ایپس کو ہٹا دیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ تین ایپس کو ’اس وقت تک کے لیے ہٹا دیا گیا جب تک کہ ڈویلپرز اپنی ایپس کے ساتھ مسائل کو حل نہیں کرتے۔‘
خواتین کی تصاویر سے نیم برہنہ رقص کی ویڈیوز بنانے میں مہارت رکھنے والی ایک چوتھی ایپ کو بھی ہٹا دیا گیا اور اس کا ڈویلپر اکاؤنٹ بھی بند کر دیا گیا۔
گوگل پلے سٹور کا کہنا ہے کہ وہ ان ایپس کی تحقیقات کر رہا ہے۔
گوگل پلے ایپ سٹور کے مطابق بی بی سی نے جن ایپس کی تحقیقات کیں انھیں دس لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب ایپل ڈاؤن لوڈ کے اعداد و شمار جاری نہیں کرتا۔
یہ ایپ مکمل طور پر برہنہ تصاویر بنانے کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن کسی کی بھی شہوت انگیز تصاویر آسانی سے بنائی جا سکتی ہیں۔
ایپ ڈویلپر تیار کردہ ’پیک‘ پیش کرتا ہے جو مختلف پوز کا مجموعہ تیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔
ٹک ٹاک پر ایپ کی تشہیر ’اپنے کرش کی شہوت انگیز تصاویر حاصل کرنے‘ کے لیے کی گئی۔
ایپ کو بنانے والوں نے ای میل پر جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کا ارادہ بلا اجازت ڈیپ فیک ٹول کے طور پر اشتہار دینے کا نہیں تھا اور وہ اپنے طریقہِ کار کا جائزہ لیں گے۔
SOURCE : BBC