SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, جیمز گیلاگر
- عہدہ, نامہ نگار برائے صحت اور سائنس
-
ایک گھنٹہ قبل
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک امریکی شخص، جو جان بوجھ کر دو دہائیوں تک خود کو سانپ کا زہر لگواتا رہا، کی اینٹی باڈیز سے سانپ کے زہر کا توڑ یعنی اینٹی وینم تیار کیا گیا ہے۔
ٹم فریڈی کے خون سے ملنے والی اینٹی باڈیز سے پتا چلتا ہے کہ یہ مختلف سانپوں کے زہر کے خلاف تحفظ فراہم کر سکتی ہیں جبکہ موجودہ علاج میں ڈاکٹروں کو اس مخصوص قسم کے سانپ کی ہی ضرورت ہوتی ہے، جس نے کسی شخص کو کاٹا ہو۔
ٹم فریڈی کا 18 سالہ مشن مختلف اقسام کے سانپ کے کاٹنے کے خلاف صرف ایک ’اینٹی وینم‘ تلاش کرنے میں اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال سانپ کاٹنے سے ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں یا انھیں زندگی بھر معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مجموعی طور پر فریڈی کو 200 سے زیادہ بار سانپ نے کاٹا جبکہ انھوں نے سانپ کے زہر کے 700 سے زیادہ انجیکشن بھی لیے ہیں، جو مامبا، کوبرا اور تائپن جیسے مہلک ترین سانپوں سے تیار کیے گئے تھے۔
ابتدائی طور پر فریڈی یوٹیوب پر اپنے کارناموں کو دستاویزی شکل دیتے ہوئے سانپوں سے حفاظت کے لیے اپنی قوت مدافعت بڑھانا چاہتے تھے لیکن سابق ٹرک مکینک فریڈی نے بتایا کہ جب یکے بعد دیگرے دو کوبرا نے انھیں کاٹا تو وہ کوما میں چلے گئے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں مرنا نہیں چاہتا تھا، میں اپنی ایک انگلی بھی نہیں کھونا چاہتا تھا۔‘
فریڈی کہتے ہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ باقی دنیا کے لیے بہتر علاج تلاش کریں۔ ’بس پھر یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا، میں خود کو اس کے لیے تیار کرتا رہا، مزید تیار کرتا رہا، ان لوگوں کے لیے جو مجھ سے آٹھ ہزار میل دور سانپ کے کاٹنے سے مر جاتے ہیں۔‘
‘میں آپ کے خون پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں’
اس وقت اینٹی وینم یا زہر کے خلاف لڑنے والی دوا کی تیاری کا طریقہ یہ ہے کہ سانپ کے زہر کو جانوروں کے جسم میں ٹیکے کی مدد سے داخل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد جانوروں کا قوتِ مدافعت کا نظام اس زہر سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز یعنی ایسا مادہ پیدا کرتا ہے کہ جو اس زہر کے اثر کو ختم کرنے میں اہم کرداد ادا کرتا ہے، پھر ماہرین اسے جانور کے جسم سے حاصل کرنے کے بعد اینٹی وینم یا زہر کُش دوا بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔
لیکن زہر اور اینٹی وینم کو قریب سے پرکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہر جانور یا کیڑے کا زہر دوسرے زہریلے جانور سے مختلف ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ ایک ہی نسل کے اندر بھی وسیع اقسام ہیں – انڈیا میں سانپوں سے تیار کردہ اینٹی وینم سری لنکا میں اسی نسل کے خلاف کم موثر ہے۔
محققین کی ٹیم نے مدافعتی دفاع کی ایک قسم کی تلاش شروع کی جسے وسیع پیمانے پر اینٹی باڈیز کو بے اثر کرنا کہا جاتا ہے۔ زہر کے اس حصے کو نشانہ بنانے کے بجائے جو اسے منفرد بناتا ہے، سائنسدانوں نے زہر کے ان حصوں کو نشانہ بنایا جو تمام زہروں میں مشترک ہیں۔
یہی وہ وقت تھا جب بائیوٹیک کمپنی سینٹی ویکس کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر جیکب گلانویل نے ٹم فریڈ سے ملاقات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فوری طور پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر دنیا میں کسی نے ایسی اینٹی باڈیز تیار کی ہیں جو بڑے پیمانے پر زہر کو بے اثر کر سکتی ہیں، تو وہ وہ (فریڈ) ہوں گے، چنانچہ میں نے اس سے رابطہ کیا۔‘
’میں نے کہا کہ یہ عجیب لگ سکتا ہے، لیکن اگر ہم آپ کے خون سے میچ کر لیں تو یہ بہتر ہوگا۔‘
فریڈ نے اس سے اتفاق کیا کیونکہ طریقہ کار میں صرف اس سے خون لینا شامل تھا اور اسے مزید زہر دینا شامل نہیں تھا۔

،تصویر کا ذریعہJacob Glanville
اس تحقیق میں زہریلے سانپوں کے دو خاندانوں میں سے ایک ایلاپڈز پر توجہ مرکوز کی گئی جیسے مرجان سانپ، ممبا، کوبرا، تائیپن اور کریٹس۔
ایلاپڈز اپنے زہر میں نیوروٹوکسن استعمال کرتے ہیں۔ ان کا زہر فالج کا سبب بن سکتا ہے یا جسم کے کچھ اہم پٹھے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
محققین نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے شناخت کیے گئے خطرناک ترین سانپوں میں سے 19 ایلیپڈز کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد فریڈ کے خون کا ٹیسٹ شروع کیا گیا۔
ان کے کام کی تفصیلات جرنل سیل میں شائع ہوئی تھیں۔ اس میں، اینٹی باڈیز کی نشاندہی کی گئی جو نیوروٹوکسن کی دو کلاسوں کو بے اثر کرتی ہیں۔
انھوں نے ایک ایسی دوا شامل کی جو کلاس تھری کو اپنا اینٹی وینم کاک ٹیل بنانے کے لیے نشانہ بناتی ہے۔
اس کاک ٹیل کو چوہوں پر کیے گئے تجربات میں استعمال کیا گیا۔ اس سے چوہوں کو 19 میں سے 13 زہریلے سانپوں کے زہر سے بچایا گیا۔ اسے باقی چھ سے کچھ تحفظ ملا۔
یہ ٹیم اینٹی باڈیز پر مزید کام کر رہی ہے۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ چوتھا جزو کیا ہو سکتا ہے جو تمام قسم کے ایلیپڈ سانپوں کے زہر کو بے اثر کر سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہJacob Glanville

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سانپوں کی دوسری قسم، وائپر، نیوروٹوکسن کی بجائے ہیموٹوکسن پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس کا اثر براہ راست خون پر پڑتا ہے۔
مجموعی طور پر، سانپ کے زہر میں تقریباً ایک درجن قسم کے زہریلے مادے ہوتے ہیں۔ ان میں سائٹوٹوکسین بھی شامل ہیں جو خلیات کو براہ راست مارتے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے محقق پروفیسر پیٹر کوونگ کا کہنا ہے کہ ‘میرا خیال ہے کہ اگلے 10 یا 15 سالوں میں ہمارے پاس ہر قسم کے زہر کے خلاف کوئی نہ کوئی موثر حل موجود ہوگا۔’
دریں اثنا، فریڈ کے خون کے نمونے کی تلاش جاری ہے۔
پروفیسر کوانگ کہتے ہیں کہ ‘ٹم کی اینٹی باڈیز واقعی غیر معمولی ہیں اس نے بڑے پیمانے پر اپنے مدافعتی نظام کو بڑھایا ہے۔’
آخری امید یہ ہے کہ یا تو ایک اینٹی وینم ہو جو ہر ایک پر کام کرتا ہے یا الپیڈز کے لیے ایک انجیکشن۔
لیورپول سکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر نیک کیسویل کا کہنا ہے کہ ‘یہ رپورٹ نئی ہے اور یقینی طور پر مضبوط شواہد فراہم کرتی ہے۔’
لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اینٹی وینم دوا کو لوگوں پر استعمال کرنے سے پہلے ابھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
فریڈ نے کہا کہ ’میں یہ سب کر کے اچھا محسوس کر رہا ہوں کہ میں انسانیت کے لئے کچھ اچھا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہوں۔ مُجھے اس پر فخر ہے۔‘
SOURCE : BBC