SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, امیتابھ بھٹاچاریہ
- عہدہ, بی بی سی نیوز بنگلہ، کلکتہ
-
15 منٹ قبل
جب یہ خبر ملی کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر لال قلعہ چھوڑ کر محبوب الہیٰ (خواجہ نظام الدین) کے مزار پر پہنچ چکے ہیں تو ملاقات کی غرض سے خواجہ شاہ غلام حسین چشتی اُن کے پاس پہنچے۔
یہ وہ دن تھا جب ہندوستان پر راج کرنے والے مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ اور اکبر و بابر کے جانشین دلی کے لال قلعہ سے آخری بار نکلے تھے۔ اور یہ 19 ستمبر 1857 کی بات ہے۔
خواجہ حسن نظامی نے یہ کہانی اپنی والدہ سے کئی بار سُن رکھی تھی جس کے راوی اُن کے اپنے نانا خواجہ شاہ غلام حسین چشتی تھے۔ شاہ غلام حسین چشتی بہادر شاہ ظفر کے مرشد بھی تھے۔
خواجہ حسن نظامی نے لکھا کہ بہادر شاہ ظفر کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی عیاں تھی۔ اُن کے ساتھ مٹھی بھر ہی لوگ تھے جن میں خواجہ سرا بھی شامل تھے اور اُن کے کپڑے اور سفید داڑھی خاک آلود تھی۔
خواجہ حسن نظامی کی کتاب کا اب انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جا چکا ہے، جس کے مطابق وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میرے نانا (شاہ غلام حسین چشتی) نے بہادر شاہ ظفر کی خیریت دریافت کی تو ایک موقع پر انھوں نے بتایا کہ میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا، کیا آپ کے گھر کچھ ہے جو آپ مجھے کھلا سکیں؟‘
حسن نظامی لکھتے ہیں کہ ’نانا نے جواب دیا کہ موت کے دہانے پر کون کھانا پکا سکتا ہے، لیکن جو بھی ہو گا، میں لاتا ہوں۔ شاہ غلام حسین نے گھر میں جا کر دیکھا تو روٹی اور مولی کے اچار کے سوا کچھ نہ تھا، چنانچہ یہی معزول بادشاہ کو پیش کیا گیا جنھوں نے شکریہ ادا کیا، کھانا کھایا اور پھر ہمایوں کے مقبرے کی جانب روانہ ہو گئے۔‘
اُدھر یہ خبر ملتے ہی کہ بہادر شاہ ظفر اور اُن کے چند بیٹے ہمایوں کے مقبرے پر ہیں، میجر ولیم ہڈسن نے سپاہیوں کے ہمراہ مقبرے کا محاصرہ کر لیا۔
بہادر شاہ ظفر نے اس شرط پر گرفتاری دینے کی حامی بھری کہ اُن کو، اُن کی اہلیہ اور بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد بلآخر 20 ستمبر 1857 کو بہادر شاہ ظفر ہمایوں کے مقبرے سے نکلے اور گرفتار کر لیے گئے۔
کرنل میتھیسن کی اپنی کتاب ’انڈین بغاوت 1857‘ میں لکھا گیا ہے کہ میجر ہڈسن جب 100 سپاہیوں اور دو مخبروں (منشی رجب علی اور الہیٰ بخش مرزا) کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے پہنچے تو وہاں بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا مغل اور مرزا خضر سلطان کے علاوہ ان کے پوتے مرزا ابوبکر بھی موجود تھے۔
ان تینوں کو حراست میں لیا گیا لیکن دلی پہنچنے سے پہلے میجر ہڈسن نے ایک سپاہی کا پستول لیا اور ان تینوں کو قتل کر دیا۔
جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا اسے اب ’قاتل دروازہ‘ کہتے ہیں۔
حسن نظامی کی کتاب ’بیگمات کے آنسو‘ اور اس وقت کی برطانوی دستاویزات کے مطابق بہادر شاہ ظفر کے چند بیٹے اور بیٹیاں دلی سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد ایک منصوبہ بنایا گیا کہ انھیں لاہور منتقل کر دیا جائے۔ لیکن بعد میں ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا اور 27 جنوری 1858 کو اُسی لال قلعہ میں مقدمہ شروع ہوا جو مغل بادشاہوں کا ذاتی محل ہوا کرتا تھا۔
مقدمے میں انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے جلاوطن کرنے کا فیصلہ ہوا۔
تاہم 30 اپریل 1858 کو لکھے گئے ایک برطانوی خط سے پتا چلا کہ برطانوی حکومت مغل شاہی خاندان کے سب اراکین کو ہی جلاوطن کرنے کی خواہش مند تھی تاکہ مستقبل میں کوئی بھی برطانیہ کے خلاف بغاوت کی قیادت نہ کر سکے۔
تاہم بعد میں فیصلہ ہوا کہ صرف بادشاہ اور اُن کے خاندان کے چند اراکین کو ہی رنگون جلاوطن کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے مطابق دلی سے کلکتہ اور پھر بحری جہاز سے بہادر شاہ ظفر کو اُن کی اہلیہ، بیٹے اور بہو کے ہمراہ روانہ کیا جانا تھا۔ دلی کے کمشنر کی جانب سے مرتب فہرست کے مطابق بہادر شاہ ظفر کے علاوہ حرم کی پانچ خواتین اور آٹھ اہلخانہ شامل تھے۔
مؤرخ مہدی حسن نے اپنی کتاب ’بہادر شاہ ظفر دوم اور 1857 کی جنگ‘ میں ایک برطانوی دستاویز کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق سات اکتوبر 1858 کی صبح 29 افراد دلی سے روانہ کیے گئے جو چار دسمبر کو کلکتہ سے رنگون کے لیے نکلے۔
بہادر شاہ ظفر کا ہندوستان میں یہ آخری دن تھا۔ 10 دسمبر کو بحری جہاز رنگون پہنچ گیا۔
چار کمرے اور 11 ٹکا خرچ
یہاں بہادر شاہ ظفر کے خاندان کو چار کمرے ملے اور اُن کی روزانہ کی خوراک کا خرچہ 11 ٹکا تھا۔
تین اگست 1859 کو لکھی گئی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مکان گارڈ پوسٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اور اس کے چاروں جانب دس فٹ کی حفاظتی باڑ تھی۔
کیپٹن ڈیوس کی تحریر کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مکان میں چار کمرے ہیں، ایک سابق بادشاہ کے پاس ہے جبکہ ایک جواں بخت اور ان کی اہلیہ کے زیر استعمال ہے۔ تیسرے کمرے میں زینت محل بیگم رہتی ہیں۔ ہر کمرے کے ساتھ غسل خانہ ہے۔ شاہ عباس اور ان کی والدہ چوتھے کمرے میں رہتے ہیں۔ بادشاہ اور شاہی قیدیوں کی خوراک کے لیے 11 ٹکا فی دن رقم مختص کی گئی۔
اتوار کے لیے ایک ٹکا فی فرد اضافی دیا جاتا اور ماہانہ سنگھار کے لیے دو ٹکا دیے جاتے۔
تاہم کاغذ، قلم اور دوات پر پابندی تھی۔ عام لوگوں سے رابطہ بھی منع تھا اور کسی کو بھی شاہی قیدیوں سے ملنے، حتیٰ کہ ان کے اپنے خادمین کو بھی اجازت کے لیے پاس لینا پڑتا تھا۔
واضح رہے کہ بہادر شاہ ظفر ایک شاعر اور خطاط بھی تھے۔ لیکن جلاوطنی کے بعد انھیں اپنی آخری شاعری اور احساسات کا اظہار، مکان کی دیوار پر کوئلے کی مدد سے کرنا پڑا۔
بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو ’انگریز‘ بنانے کا عجیب خیال
نیلسن ڈیوس نے کلکتہ میں برطانوی حکام کو ایک 11 صفحوں کی رپورٹ بھیجی جس میں بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کے لیے ایک عجیب سا منصوبہ پیش کیا۔
انھوں نے تجویز دی کہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کو برطانوی تعلیم دی جائے۔ انھوں نے لکھا کہ بڑا بیٹا، مرزا جواں بخت مغرور ہے لیکن دونوں بیٹے مکمل گنوار ہیں۔
ان کے مطابق وہ فارسی لکھ اور پڑھ سکتے تھے لیکن بنیادی معلومات کی کمی تھی اور وہ اپنے ملک کی سرحد تک سے لاعلم تھے تاہم اُن میں جاننے اور سیکھنے کی خواہش موجود تھی۔
اسی لیے نیلسن ڈیوس کی تجویز تھی کہ اگر انھیں برطانیہ بھجوایا جائے اور برطانوی تعلیم دی جائے تو وہ بالکل انگریز بن سکتے ہیں۔ تاہم اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔
آخری مغل بادشاہ کی موت
بہادر شاہ ظفر کو جب جلاوطن کیا گیا تو اُن کی عمر 83 سال تھی اور اُس وقت تک ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کافی خراب ہو چکی تھی۔
تاہم اس کے باوجود برطانوی حکومت نے دوران جلاوطنی اُن پر مکمل اور کڑی نظر رکھی۔ ان کے بارے میں ہر رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوائی جاتی تھی۔
نیلسن ڈیوس کے مطابق رنگون کے سول سرجن بہادر شاہ ظفر کا طبی معائنہ باقاعدگی سے کرتے تھے اور ان کے مطابق چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی بادشاہ اور اُن کی بہو شاہ زمانی بیگم ڈاکٹر کو دیکھنا چاہتے تھے۔
نیلسن کے مطابق بادشاہ کے دانت ٹوٹ چکے تھے اور اُن کی بات سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ تاہم 1862 کے وسط میں بہادر شاہ ظفر کی صحت تیزی سے بگڑنا شروع ہوئی اور سات نومبر کو اُن کی وفات ہو گئی۔ اب انھیں دفنایا جانا تھا۔
برطانوی حکام کو یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر یہ کام جلدی اور خفیہ طریقے سے نہ کیا گیا تو شاید مقامی مسلمان مشکل پیدا کر دیں۔ اس خدشے کا اظہار کلکتہ بھجوائے جانے والے ایک خط میں بھی کیا گیا۔
تاہم بہادر شاہ ظفر کی موت کی خبر دو ہفتے بعد، بیس نومبر کو، دلی پہنچی۔ اس وقت تک انھیں دفنایا جا چکا تھا۔ پہلے مدفن کر گرد بانس لگائے گئے جو چند ہی دن بعد ٹوٹ گئے۔ تب تک قبر پر گھاس کی تہہ اُگ چکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب اس قبر کو بھی بھلا دیا جائے گا لیکن ان کی موت کے چالیس سال بعد ایک بار پھر اس معاملے پر خط و کتابت ہوئی۔
1991 میں کھدائی کے دوران بہادر شاہ ظفر کا ڈھانچہ دریافت ہوا۔ اب اس مقام پر ایک بڑا مقبرہ تعمیر ہو چکا ہے۔
بہادر شاہ ظفر کے خاندان کی بے چینی
بہادر شاہ ظفر کی موت کے بعد یہ صورتحال تھی کہ اہلخانہ ایک دوسرے سے بات ہی نہیں کر رہے تھے۔ اُس وقت کی برطانوی دستاویزات، جو مصنف ولیئم ڈالرمپل نے میانمار کے نیشنل آرکایئو میں دیکھیں، سے علم ہوتا ہے کہ خاندان میں پھوٹ پڑ گئی اور ایک جانب بہادر شاہ ظفر کی اہلیہ تھیں اور دوسری جانب جواں بخت اور اُن کی اہلیہ، جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا شاہ عباس ایک تیسرے گروپ میں تھے۔
ولیم ڈالرمپل کے مطابق تینوں فریقین الگ الگ گھروں میں تھے، الگ کچن تھے اور آپس میں کوئی بات چیت نہیں تھی۔
اسی دوران بہادر شاہ ظفر کی بہو، شاہ زمانی بیگم کی آنکھیں متاثر ہونا شروع ہو گئیں۔ انھیں خوراک مہیا کرنے کے لیے کپڑے اور زیورات بیچنا پڑے۔
سنہ 1872 تک شاہ زمانی بیگم اپنی بینائی مکمل طور پر کھو چکی تھیں۔ دوسری جانب بہادر شاہ ظفر کی بیوہ زینت محل نے ایک مکان خرید لیا اور دو یا تین ملازمین کے ہمراہ نئے مکان میں منتقل ہو گئیں۔
زینت محل نے جواں بخت کی جانب سے پیٹے جانے کے بعد انڈیا لوٹنے کی درخواست بھی کی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
بہادر شاہ ظفر کی وفات کے 20 سال بعد زینت محل بھی وفات پا گئیں اور انھیں سابق بادشاہ کے ساتھ ہی دفن کیا گیا۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے، مرزا جواں بخت، جنھیں بہادر شاہ ظفر نے اپنا اور مغل تخت کا جانشین قرار دیا تھا، بھی صرف 42 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔
بہادر شاہ ظفر کا نواسہ جسے دلی میں بھیک مانگنا پڑی
برطانوی حکومت بہادر شاہ ظفر کے تقریبا پورے خاندان کو خرچہ فراہم کر رہی تھی۔ شاہی خاندان کے وہ اراکین بھی ماہانہ وظیفہ حاصل کر رہے تھے جو دلی یا بنارس میں مقیم تھے۔
جمشید بخت جواں بخت کے بیٹوں میں سب سے بڑے تھے۔ شادی سے قبل ان کو ماہانہ 150 ٹکا وظیفہ ملتا تھا۔ شاہ کے بعد ان کو ماہانہ 250 ٹکا وظیفہ ملنے لگا اور مکان کے کرائے کی مد میں 100 ٹکا ماہانہ ملتا۔
زیادہ تر لوگوں کو اتنا وظیفہ نہیں ملتا تھا اور ماہانہ پانچ سے دس ٹکے تک ملا کرتے تھے۔ 1899 میں حکومت انڈیا کے دفتر خارجہ کی ایک دستاویز کے مطابق شاہی خاندان کے 36 افراد کو ماہانہ پانچ روپے تک کی پنشن مل رہی تھی۔
تاہم حسن ںظامی نے اپنی کتاب میں ایک ایسے فقیر کے بارے میں لکھا ہے کہ جو شام کے اندھیرے کے بعد بھیک مانگنے نکلتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ ایک چھڑی کی مدد سے اپنی بے جان ٹانگیں گھسیٹتا ہوا جامع مسجد کے قریب نکلتا اور ہر چند منٹ بعد صدا بلند کرتا۔
حسن نظامی کے بقول شاید بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کا سگا نواسہ تھا جس کا نام مرزا قمر سلطان تھا۔
بہادر شاہ ظفر کے خاندان کے دیگر لوگوں نے حکام سے اس کے علاوہ بھی مدد طلب کی۔ 1915 کی ایک دستاویز کے مطابق بادشاہ کے بڑے پوتے مرزا جمشید بخت نے اپنی صحت کی وجہ سے حکومت سے رابطہ کیا تاکہ وہ برما کے ایک شہر جا کر علاج کروا سکیں اور انھیں 500 ٹکا فراہم کیا گیا۔
شاہی خاندان کو پنشن کیوں دی جاتی تھی؟
برطانوی ریکارڈ سے علم ہوتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد سے یہ خدشہ موجود تھا کہ کوئی بھی 1857 جیسی بغاوت کی قیادت کر سکتا ہے۔
تو ایسے میں ایک ایسے خاندان کی کفالت کا ذمہ برطانوی حکام نے کیوں اٹھایا جن سے اُن کو بغاوت کا خوف تھا؟
انڈیا کے نیشنل آرکائیوز میں موجود متعدد فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے پر حکام کی مختلف آرا تھیں۔
علی ناظم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر سے معاہدہ ہوا تھا کہ اختیارات چھیننے کے بعد اُن کے خاندان کی کفالت برطانیہ کی ذمہ داری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خاندانی پنشن تھی یعنی بہادر شاہ ظفر کے بعد ان کے وارثوں کو بھی ملتی۔
اگر مختصر دیکھا جائے تو معاہدہ یہ تھا کہ آپ اور آپ کے وارث ہماری حکومت اور نظام میں مداخلت نہیں کریں گے، اس سے دور رہیں گے، اور بدلے میں ہم آپ کی اور آپ کے خاندان کی ضرروریات کا خیال رکھیں گے۔
مغل خاندان کے وارث اب کہاں ہیں؟
بہادر شاہ ظفر کے چند بیٹے تو مارے گئے تھے لیکن چند فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جبکہ اُن کے دو بیٹے اُن کے ساتھ ہی جلاوطن ہوئے۔
مؤرخ رعنا صفوی کہتی ہیں کہ مغل خاندان کی پوری نسل کو تلاش کرنا اب مشکل ہے۔ اگرچہ چند افراد کا سراغ برطانوی ریکارڈ اور انڈیا کے قومی آرکائیو کی مدد سے لگایا جا سکتا ہے تاہم وثوق سے یہ نہیں جانا جا سکتا کہ سب لوگ کہاں گئے۔
سنہ 1925 میں برطانوی حکومت کے مختلف محکموں کے درمیان شاہی خاندان کے اراکین کی تعلیم، طبی سہولیات، یا شادی اور تدفین جیسے اخراجات پر خط وکتابت ہوئی جس سے علم ہوتا ہے کہ اس وقت 126 افراد پنشن وصول کر رہے تھے۔
دستاویزات سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ مغل خاندان انڈیا کے علاوہ میانمار اور ممکنہ طور پر پاکستان میں بٹ چکا تھا۔ تاہم اس وقت کون کہاں ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔
مغل خاندان کے وارث ہونے کے دعویدار مختلف اوقات میں سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان کے دعوؤں کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ جعلی دعوے کرنے والے گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔
پروفیسر علی ندیم کا کہنا ہے کہ جب شاہی خاندان دلی سے فرار ہوا تو اس بات کی توقع تھی کہ وہ اپنی وراثت کا کوئی ثبوت ساتھ نہیں رکھیں گے کیوں کہ وہ تو اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔
اس لیے یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ اب کون شاہی خاندان کا وارث ہے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں، ممکن ہے وہ درست ہو لیکن جھوٹے دعوے بھی ہوتے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سنہ 1925 کی جن دستاویزات کا حوالہ اوپر دیا گیا، ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پنشن کے لیے دی جانے والی تقریباً 600 عرضیاں ابتدائی تفتیش کے بعد مسترد کر دی گئی تھیں۔
حسن نظامی نے اپنی کتاب میں ایک ایسے فرد کے بارے میں لکھا ہے جو ممبئی میں پولیس اور انتظامیہ میں مغل وارث کے طور پر مشہور تھا لیکن بعد میں یہ دعوی جھوٹا نکلا۔
SOURCE : BBC