SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, لوسی ولیمسن
- عہدہ, نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ، یروشلم
-
ایک گھنٹہ قبل
قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور فریقین کی جانب سے جنگ بندی کے کسی معاہدے پر پہنچنے کی تاحال تصدیق نہیں کی گئی تاہم غربِ اردن کی ایک سیاسی جماعت فلسطینی نیشنل انیشیٹو کے رہنما کو لگتا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کے موجودہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے۔
فلسطینی سیاسی جماعت کے رہنما مصطفیٰ برغوثی نے بی بی سی ریڈیو فور کو بتایا کہ ’معاہدہ اب تقریباً تیار ہو چکا ہے اور میرے خیال میں فلسطینی سائیڈ اس پر اتفاق بھی کر چکی ہے۔‘
جب ان سے واضح الفاظ میں پوچھا گیا کہ کیا حماس نے معاہدے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں کہ حماس نے تمام شرائط قبول کر لی ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ یہ معاہدہ اس معاہدے کی طرح ہے جو گذشتہ برس جولائی میں تجویز کیا گیا تھا اور اسے بنیامین نتن یاہو نے نقصان پہنچایا تھا۔‘
خیال رہے کچھ دیر پہلے حماس نے قطر میں جاری مذاکرات پر ’اطمینان‘ کا اظہار کیا تھا اور ایک اسرائیلی حکومتی عہدیدار نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ بات چیت کے دوران ’حقیقی پیشرفت‘ دیکھنے میں آئی ہے۔
مذاکرات میں کون کون شامل ہے؟
بی بی سی کو معلوم ہوا کہ پہلی مرتبہ حماس اور اسرائیل کے مذاکراتی وفود ایک ہی عمارت میں موجود ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس کا اختتام کسی ’واضح اور جامع‘ معاہدے پر ہوگا۔
فریقین کے درمیان مذاکرات میں قطری، مصری اور امریکی نمائندے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان مذاکرات کے میزبان قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی ہیں جبکہ اسرائیلی کی نمائندگی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا اور داخلی سکیورٹی کے ذمہ دارے ادارے شاباک کے سربراہ رونن بار کر رہے ہیں۔
ان مذاکرات میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف اور موجودہ صدر بائیڈن کے نمائندے بریٹ مکگرک بھی موجود ہیں۔
متوقع معاہدے میں کیا کیا نکات شامل ہیں؟
اسرائیل اور حماس کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے میں شامل تفصیلات تاحال جاری نہیں کی گئی ہیں۔
تاہم بی بی سی کو ایک اسرائیلی حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’نومبر 2023 کے بعد ہم پہلی مرتبہ حماس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وہ (حماس) مذاکرات کا کھیل نہیں کھیل رہے۔‘
ان کا کہنا ہے تھا وہ کسی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن ’یہ کوئی حتمی بات نہیں۔‘
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اسرائیلی حکومتی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 33 افراد کو رہا کیا جانا ہے اور اس حوالے سے ایک فہرست ان کو دی گئی ہے تاکہ تصدیق ہو سکے کہ ان میں سے کتنے افراد زندہ ہیں۔
اسرائیلی حکومتی اہلکار نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ یرغمالیوں کے بدلے میں متوقع طور پر رہا کیے جانے والے ’سینکڑوں‘ فلسطینی قیدیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے انتظامات پر بھی غور جاری ہے۔
اسرائیل چاہتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں کو غرب اردن میں نہ چھوڑا جائے۔
اس اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے مطابق اسرائیل متوقع جنگ بندی کے پیشِ نظر سکیورٹی انتظامات پر بھی غور کر رہا ہے جس میں غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر ایک بفر زون برقرار رکھنا شامل ہے تاکہ ملک کے شمالی علاقوں میں واپس آنے والے افراد کی نگرانی کی جا سکے اور حماس کی جانب سے اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش کو روکا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں حماس کے اتحادیوں کا کمزور ہونا، مسلح گروہ پر اندرونی دباؤ اور مذاکراتی عمل میں امریکی انتظامیہ کی دلچسپی کے سبب معاہدے کے ’نئے امکانات‘ پیدا ہوئے ہیں تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’جب تک ہمارے تمام یرغمالی گھر واپس نہیں لوٹ جاتے ہیں ہم غزہ کی پٹّی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘
کیا اب غزہ میں جنگ بندی یقینی ہے؟
ماضی کے مقابلے میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے حماس اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاہدہ اب زیادہ قریب نظر آ رہا ہے۔
کچھ دیر پہلے قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ ’سامنے موجود مسائل کو حل کر لیا گیا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔‘
لیکن ماجد الانصاری نے اپنی گفتگو میں ایک اور اہم بات یہ بھی کی کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معاہدہ ابھی حقیقت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔‘
بی بی سی کے نمائندہ برائے سفارتی امور پال ایڈمز کے مطابق مذاکرات میں شامل فریقین ماضی میں بھی کسی معاہدے پر پہنچنے کے قریب متعدد مرتبہ آئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دانشمندی یہی ہوگی کہ ہم آنے والے دنوں میں جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق زیادہ امیدیں نہیں رکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ جلد ہی معاہدے کی کچھ تفصیلات سامنے آنی شروع ہو جائیں لیکن یہاں بہت ساری وجوہات ہیں جن کے سبب یہ مذاکرات کا عمل خراب ہو سکتا ہے۔‘
یہاں ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کے سبب مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی میت کی واپسی بھی کسی معاہدے کا حصہ ہو گی۔ قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
گذشتہ برس اکتوبر میں یحییٰ سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کو ایک اسرائیلی ڈرون نے اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔
لیکن یہاں ایک ایسی قابلِ ذکر بات بھی ہے جسے سُن کر محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ شاید غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو ہی جائے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 15 مہینوں میں پہلی مرتبہ حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کار ایک ہی چھت تلے موجود ہیں تاہم یہ مذاکرات کار ایک دوسرے کے سامنے نہیں بیٹھے ہوئے اور ماضی میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان قطری اور امریکی حکام ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک سابق افسر نے پال ایڈمز کو بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات میں حصہ لینے والے حماس اور اسرائیلی وفود ماضی میں قاہرہ میں ایک ہی سڑک پر مختلف عمارتوں میں موجود ہوتے تھے۔
اگر اس بار فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تب بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کار آپس میں ہاتھ ملا کر اس کا اعلان کریں گے۔
لیکن فریقین اب ایک ہی چھت تلے موجود ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذاکرات کاروں کے درمیان اختلافات میں کچھ کمی آئی ہے۔
SOURCE : BBC