SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, اسماعیل شیخ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
-
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان میں مختلف حکومتوں کی جانب سے ماضی میں قیمتی دھاتوں بشمول سونے کے بڑے پیمانے پر ذخائر کی دریافت کے دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔
2015 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر کی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ’خزانوں سے پاکستان میں خوشحالی کا انقلاب آئے گا۔‘
ایسا ایک دعویٰ حال ہی میں پنجاب حکومت کے وزیر معدنیات کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیرِ معدنیات شیر علی گورچانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع اٹک میں لگ بھگ 700 ارب روپے کے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق صوبائی وزیرِ کا دعوی ہے کہ اٹک میں 32 کلو میٹر کے علاقے میں 28 لاکھ تولے سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں جس کی مالیت 600 سے 700 ارب روپے بنتی ہے۔ اس سے قبل گذشتہ ہفتے پنجاب کے سابق نگران وزیر معدنیات ابراہیم حسن مراد نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اٹک میں دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم پر سونے کے ذخائر موجود ہیں۔
ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ وزیر تھے تو ایسی اطلاعات سامنے آئیں تھی کہ اٹک کے نزدیک بعض افراد دریا میں مشینوں کی مدد سے کھدائی کر رہے ہیں۔
حسن مراد کے مطابق جب تحقیقات کی گئیں تو پتا چلا کہ لوگ یہاں سونا تلاش کر رہے ہیں جس کے بعد علاقے میں دفعہ 144 نافذ کرکے سونے کی تلاش پر پابندی عائد کردی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 25 کلو میٹر کے علاقے سے 500 نمونے اکٹھے کیے تھے جس سے یہاں سونے کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان دعوؤں کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں واقعی سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور حقیقت میں ان سے کتنا سونا نکلتا ہے؟
پاکستان میں سونے کے ذخائر کہاں ہیں؟
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
وزارت پیٹرولیم کی معدنیات ونگ کی جانب سے سعودی عرب میں جاری فیوچر منرلز فورم پر پیش کرنے کے لیے تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سونے کے ذخائر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پائے جاتے ہیں جن کی تعداد اندازے کے مطابق 1.6 ارب ٹن ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ سے دو ٹن کے قریب خام سونا نکالا جاتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان میں خام سونے کی پیداوار اگلے دس برسوں میں سالانہ آٹھ سے دس ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان میں چاندی کی پیداوار کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے ذخائر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں چاندی کی کان کنی بنیادی طور پر دیگر دھاتوں، خاص طور پر تانبا اور سونا نکالنے سے وابستہ ہے۔ چاندی کی نمایاں پیداوار ان کان کنی کے نتیجے میں ضمنی پیداوار کے طور پر ہوتی ہے۔
وزارتِ توانائی کے تحت کام کرنے والے ادارے جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) کی سال 23-2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں مختلف مقامات میں معدنیات اور قیمتی دھاتوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق جی ایس پی پاکستان کے زیرِ انتظام گلگلت بلتستان میں باریت ہنکوئی کے مقام پر تانبے اور سونے کی معدنیات کا تحقیقی مطالعہ کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ جی ایس پی نے پنجاب کے ضلع اٹک کے مقام پر دریا سندھ میں اور خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں دربند کے علاقے میں جیو کیمیکل تکنیک کے ذریعے پلیسر گولڈ اور دیگر دھاتوں کی موجودگی کا پتا لگانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کے نزدیک سپیزنڈ میں خام لوہے کے ذخائر کی تلاش کے لیے جیو فزیکل اسٹڈیز کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق اٹک میں سونے کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے جیو فزیکل سروے اور نمونے جمع کیے گئے اور ان تمام کی رپورٹ حکومت کی جمع کروا دی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پلیسر گولڈ کے ممکنہ زونز کی نشاندہی کے لیے کام کیا جا رہا ہے جس کے لیے چترال، سوات اور بنیر میں چھ ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے کی جیولوجیکل میپنگ کی جائے گی۔
جی پی ایس کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان مقامات کے علاوہ سندھ کی تحصیل نگر پارکر میں بھی سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جس کے متعلق رپورٹ مکمل کرکے حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔
سیندک منصوبہ
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع سیندک کا منصوبہ 1990 میں شروع ہوا جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی۔
1995 میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی تاہم اگلے ہی سال تکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کردیا گیا۔ تاہم 2003 میں یہ منصوبہ دوبارہ فعال ہو گیا۔
2003 میں چین کی میٹالرجیکل کنسٹرکشن کارپوریشن کو یہ پروجیکٹ سونپا گیا اور جس نے اگست 2003 سے کان کی کمرشل بنیادوں پر کھدائی شروع کی ۔تب سے یہی کمپنی اس پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔
سیندک کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق منصوبے کی جنوبی کان میں سات کروڑ 58 لاکھ ٹن معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جس میں سونے کا تناسب 0.47 گرام/ٹن ہے۔
سیندک منصوبے کے اس حصے سے سالانہ 15 ہزار ٹن بلسٹر تانبے کے ساتھ ساتھ ساڑھے گیارہ سو کلوگرام سونا اور ایک ہزار کلو گرام کے قریب چاندی بھی نکالی جا سکتی ہے۔
منصوبے کی شمالی کان میں ابتدائی تخمینے کے مطابق معدنیات کے کُل چار کروڑ 64 لاکھ ٹن ذخائر موجود تھے جس میں تانبے کا اوسط 0.37 فیصد جبکہ سونے کی مقدار 0.14 گرام فی ٹن کے حساب سے 6,346 کلوگرام تھی۔ تاہم ارضیاتی ماڈلنگ کے بعد تخمینہ شدہ معدنیان کی مقدار ایک کروڑ 3 لاکھ ٹن ہو گئی۔ اس ذخیرے میں سونے کا تناسب 0.22 گرام فی ٹن ہے۔
کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں کمپنی نے تقریباً 16 ہزار میٹرک ٹن تانبہ برآمد کیا۔ تاہم اس میں سونے کی مقدار کا ذکر نہیں۔
ریکوڈک
بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں۔
تقریباً تین دہائی قبل پاکستان کی حکومت نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا تاہم جب سنہ 2013 میں ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی کو مائننگ کا لائسنس نہیں دیا گیا تو کمپنی نے اس کے خلاف سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے والے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا۔
ان میں سے ایک انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپویٹس (ایکسڈ) نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا اور پاکستان پر جرمانہ عائد کردیا۔
بعد ازاں حکومت نے ٹھیتیان کاپر کمپنی میں دونوں شیئر ہولڈرز سے مذاکرات کیے جن میں سے کینیڈا کے ’بیرک گولڈ‘ نامی کمپنی نے منصوبے پر دوبارہ کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔
مارچ 2022 میں بلوچستان کی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان ریکوڈک پر معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اگست 2023 میں اسلام میں منعقدہ منرلز سمٹ سے خطاب کرنے ہوئے بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو کا کہنا تھا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبے پر کام تیزی سے چل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کا ہدف ہے کہ 2028 تک منصوبے سے پروڈکشن کا آغاز کر دیا جائے۔
چنیوٹ کے ذخائر
سنہ 2015 میں جب حکومت کی جانب سے چنیوٹ میں لوہے کے ہزاروں ٹن ذخائر کی موجودگی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تو ماہرین کی جانب سے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بتایا گیا کہ یہ ذخائر دو ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا گیا کہ خام لوہے کے ذخائر سے زیادہ وہاں موجود تانبے کے ذخائر نکالنے پر توجہ دی جائی۔
اس موقع پر تقریر سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نوز شریف کا کہنا تھا کہ معدنی اور کوئلے کے ذخائر پاکستان کو خود کفیل بنانے میں مدد کریں گے اور ’پاکستان کو درپیش تمام مسائل اگلے تین سالوں میں حل ہو جائیں گے۔‘
نومبر 2024 میں مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چنیوٹ منصوبے کی نگرانی کرنے والے ادارے پنجاب منرل کارپوریشن کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا تھا چھ سالہ ایکسپلوریشن پراجیکٹ میں چنیوٹ میں 261.5 ملین ٹن اعلیٰ معیار کے لوہے اور 36.5 ملین ٹن تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سٹیل مل اور کاپر ریفائنری سے چار کروڑ 50 لاکھ ٹن 99.6 فیصد خالص لوہا اور 15 لاکھ ٹن خالص تانبہ حاصل ہو سکے گا۔
تاہم یہاں سے کتنا سونا حاصل ہو سکے گا اس بارے میں ان کی جانب سے معلومات نہیں فراہم کی گئیں۔
’پلیسر گولڈ‘ اور شمالی علاقہ جات میں ممکنہ ذخائر
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عدنان خان کہتے ہیں سونا اصل میں اگنییس (Igneous) اور میٹا مورفک (Metamorphic) پتھروں میں پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ایسے پتھروں کے پہاڑ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پائے جاتے ہیں۔
اپر دیر کی شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احتشام اسلام کہتے ہیں کہ گلگت، ہنزہ اور غزر کے علاقوں میں سونے کے ذخائر پائے جانے کے کافی امکانات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپر دیر سے لے کر چترال تک کے علاقے میں تانبہ بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر احتشام کہتے ہیں کہ تانبے کے ساتھ اکثر ایسوسی ایٹ دھات کے طور پر سونا بھی نکلتا ہے لیکن اس کے مقدار بہت کم ہوتی ہے۔
’اگر آپ کو تانبے کے 100 ٹکرے ملیں گے تو اس کے ساتھ محض 0.1 یا 0.2 فیصد سونا ملنے کا امکان ہوتا ہے۔‘
دریاؤں سے ملنے والے سونے کے ذرات کے بارے میں پروفیسر عدنان کہتے ہیں کہ ’جب اُن پہاڑی علاقوں سے جہاں سونے کے ذخائر پائے جاتے دریا بہہ کر آتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ ان پتھروں میں موجود سونے کے ذرات بھی لے آتے ہیں۔
’جب یہ دریا میدانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے بہاؤ کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور اس پانی کے ساتھ آنے والے دھاتوں کے ذرات دریا کی تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں جہاں ان کے ذخائر بن جاتے ہیں۔ ایسے پائے جانے والے سونے کو پلیسر گولڈ کہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر اہتشام اسلام بتاتے ہیں کہ حال ہی میں ایک تحقیقاتی پروجیکٹ مکمل ہوا تھا جس کی سربراہی نیشنل سینٹر فار ایکسیلینس ان جیالوجی کے ڈاکٹر طاہر شاہ کر رہے تھے۔ اس پروجیکٹ میں پاکستان کے زیرِ انتظام گلگلت میں جہاں سے دریائے سندھ شروع ہوتا ہے، وہاں سے دریا کے ساتھ ساتھ سونے کی موجودگی کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے دوران دریا کے ساتھ ساتھ بشام کے علاقے تک مختلف مقامات پر سونے کے پلیسر گوللڈ کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں۔
پروفیسر عدنان کہتے ہیں کہ دریائے سندھ میں شمالی علاقہ جات سے لے کر اٹک تک کئی مقامات پر ایسے ذخائر پائے جاتے ہیں جنھیں نکالنے کے لیے لوگوں نے کاٹیج انڈسٹریز لگائی ہوئی ہیں۔
تاہم ان کے مطابق یہ ذخائر اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوتے کہ انھیں نکالنے کے لیے صنعتیں لگائی جا سکیں۔
ڈاکٹر اہتشام کہتے ہیں کہ سیندک میں تانبے کے ساتھ ملنے والے سونے کا تناسب اپر دیر اور دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت اچھا ہے۔
’بلوچستان میں چاغی اور آس پاس کے علاقے میں ملنے والے سونے کا تناسب شمالی علاقہ جات کے مقابلے میں بہت اچھا ہے۔‘
ڈاکٹر احتشام کے مطابق ’شمالی اور جنوبی وزیرستان کے کچھ زونز میں تانبہ موجود ہے۔ اس ساتھ ایسوسی ایٹ دھات کے طور پر سونا مل سکتا ہے۔ اس کی تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن سونا ہوگا۔‘
پروفیسر عدنان خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر سونے کی دریافت حادثاتی طور پر ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ ریسرچ اور انڈسٹریز کے درمیان تعاون کا فقدان ہے جس کی وجہ سے زیادہ چیزیں سامنے نہیں آتی ہیں۔
SOURCE : BBC