SOURCE :- BBC NEWS

یوٹیوبرز کا گاؤں

  • مصنف, شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، رحیم یار خان
  • 22 منٹ قبل

’جتنی میری ایک سال کی تنخواہ تھی، اتنے پیسے میں اب ایک دن میں کما لیتا ہوں۔‘

یہ الفاظ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر رحیم یار خان کے ایک ایسے گاؤں کے رہائشی کے ہیں جو ڈیڑھ برس قبل تک ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کر رہے تھے۔

رحیم یار خان شہر سے قریب 20 کلومیٹر کی مسافت پر موجود بستی قاضی عبدالرحمن کوریجہ کے 23 سالہ حیدر علی کو سرکاری ملازمت کے دوران جو خیال آیا اس نے اُن کی ہی نہیں بلکہ ان کے پورے گاؤں کی قسمت ہی بدل دی۔

یہ خیال تھا نوکری کرنے کے بجائے یوٹیوب چینل سے کمائی کا۔ مگر یہ فیصلہ کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔

اُن کے مطابق یوٹیوب چینل بنانے کے ان کے منصوبے کی مخالفت مذہبی بنیادوں پر ان کے گھر والوں نے کی جس کے بعد انھوں نے مقامی علما سے فتوے بھی لیے۔

اور اب اُن کے گاؤں کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں تین سال کی عمر کے بچے سے لے کر 80 سال کے بزرگ تک بہت سے لوگ یوٹیوب کے لیے مواد بنا کر پیسہ بھی کما رہے ہیں اور شہرت بھی حاصل کر رہے ہیں۔

اس گاؤں میں ایک ایسا یوٹیوبر بھی ہے جو دبئی سے نوکری چھوڑ کر واپس آیا اور ایسے بھی جنھوں نے اس کام کے لیے سرکاری ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

جب مجھے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اس چھوٹے سے گاؤں کی شہرت کا علم ہوا تو اشتیاق پیدا ہوا کہ خود جا کر اس گاؤں کی حقیقت معلوم کی جائے جہاں زراعت سے جڑے مقامی لوگوں نے دور جدید میں کمائی کا نیا ہنر دریافت کر لیا ہے۔

اسلام آباد سے تقریباً 800 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد رحیم یار خان پہنچا تو حیدر علی نے میرے ساتھ اپنی لوکیشن شیئر کی جس کی مدد سے میں 80 گھروں پر مشتمل بستی قاضی عبدالرحمن کوریجہ جا پہنچا۔

پنجاب کا یہ جنوبی علاقہ صوبے کی دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں اور یہاں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔

گاؤں کے زیادہ تر نوجوان اور بچے گلیوں میں خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔ قریب جا کر علم ہوا کہ یہ یوٹیوب کے لیے فلمنگ میں مصروف تھے۔ ان میں تین سال کے ایک کمسن بچے سے لے کر 80 سال کے بزرگ بھی شامل تھے۔ تین سالہ بچہ کمیرے کے سامنے ایسے موجود تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

یہیں حیدر علی سے پہلی ملاقات ہوئی جو اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف موضوعات پر سوچ بچار کر رہے تھے اور یوٹیوب کے لیے سکرپٹ لکھنے میں مصروف تھے۔

یوٹیوب

یو ٹیوب چینل کا خیال، بدنامی کا خوف اور فتوے

حیدر علی سے جب میں نے پوچھا کہ انھیں یوٹیوب چینل بنانے کا خیال کیسے آیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ رحیم یار خان کے ایک سرکاری ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں ایک ٹیکنیشن کا کام کرتے تھے اور ان کی تنخواہ بہت کم تھی۔

پھر انھوں نے چھ سال کی ملازمت کو خیرباد کہا اور کافی سوچنے کے بعد اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کا خاندان پس منظر مذہبی ہے چنانچہ ان کی اس سوچ کی سخت مخالفت ہوئی اور کہا گیا کہ اس طرح کا عمل ان کے خاندان کے لیے بدنامی کا باعث ہو گا۔

بات یہاں تک محدود نہیں رہی۔ حیدر علی نے بتایا کہ گھر والوں کو راضی کرنے کے لیے انھوں نے علاقے کے علما سے فتوے بھی لیے کہ اگر کوئی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہے یا معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں بنتی تو وہ یہ چینل کھول سکتے ہیں۔

حیدر علی کے مطابق چھ ماہ تک انھوں نے اپنے چینل کے لیے بہت کوشش کی اور پھر ان کا چینل مونیٹائز ہوا اور اب ان کے چینل سے جو کمائی آتی ہے اس کے مطابق جتنا وہ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے ایک سال میں کماتے تھے اتنا وہ بعض اوقات ایک دن میں کما لیتے ہیں۔

تاہم حیدر کے مطابق یہ سب ایک دن میں نہیں ہو گیا بلکہ اس کے لیے انھیں سرکاری نوکری سے کہیں زیادہ اور دن رات سخت محنت کرنا پڑی ہے۔

حیدر علی کے چینل پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسی ویڈیوز نظر آئیں گی جن میں انسانی ہمدردی کا پیغام دیا گیا ہے، ان میں مزاح کا بھی عنصر بھی نظر آتا ہے اور ایسی ویڈیوز بھی ہیں جو گاؤں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔

یوٹیوب

گولڈ اور سلور بٹن

حیدر علی کو یوٹیوب سے گولڈ کے دو اور سلور کے چھ بٹن مل چکے ہیں اور ان کے چینل کے سبسکرائبر یعنی دیکھنے والوں کی تعداد دس لاکھ یعنی ایک ملین تک ہے۔

واضح رہے کہ اگر کسی چینل کے سبسکرائبر دس لاکھ تک پہنچ جائیں تو اس چینل کے مالک کو یوٹیوب کی جانب سے گولڈ بٹن دیا جاتا ہے جبکہ کسی چینل کے ایک لاکھ سبسکرائبر ہوں تو اسے سلور بٹن دیا جاتا ہے۔

حیدر علی کے مطابق جب انتہائی محنت کے بعد ان کے یوٹیوب چینل سے آمدنی شروع ہوئی تو اُن کی دیکھا دیکھی اُن کے گاؤں کے دیگر افراد نے بھی اس کام میں دلچسپی ظاہر کی۔

یوں حیدر علی نے دیگر لوگوں کو بنیادی تربیت دینا شروع کی اور اُن کے مطابق اب اُن کے گاؤں میں شاید کوئی بھی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی بھی رکن یوٹیوب پر مواد تخلیق نہ کر رہا ہو۔ اس گاؤں کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں بسنے والے 90 فیصد لوگ آپس میں رشتہ دار ہیں اور ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

حیدر علی کا کہنا تھا کہ سب افراد کے اپنے یوٹیوب چینل نہیں ہیں لیکن وہ اُن کی ٹیم میں شامل ہیں جنھیں وہ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہر فلم کے لیے کچھ پیسے بھی دیتے ہیں۔

یوٹیوب

بیرون ملک سے ملازمت چھوڑ کر آنے والے رومان

رومان احمد پیشے کے اعتبار سے ڈینٹر ہیں اور تین سال قبل معاشی تنگی کی وجہ سے بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ دبئی چلے گئے تھے۔

تاہم وہ بتاتے ہیں کہ دبئی میں بھی مشکل سے گزارہ ہو رہا تھا کیونکہ گھر والوں کو بھی خرچہ بھجوانا ہوتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا جس نے انھیں واپس پاکستان آنے کا کہا۔

لیکن رومان احمد کے بقول گھر والوں کو ان کی واپسی کا فیصلہ پسند نہیں آیا اور والدین اور رشتہ داروں سے طعنے سننے کو ملتے تھے۔

پھر رومان نے بھی دوست کے مشورے پر اپنا یوٹیوب چینل شروع کر لیا۔ چند ماہ بعد ہی ان کا چینل مونیٹائز ہو گیا اور اب ان کو بھی گولڈ بٹن مل چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب ان کے پاس اپنی گاڑی کے علاوہ دیگر پراپرٹی بھی ہے۔

رومان احمد نے چینل کو چلانے کے لیے دس افراد پر مشتمل ایک ٹیم رکھی ہوئی ہے جو مختلف موضوعات پر کام کرتی ہے اور ان تمام افراد کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔

چھ سال کی تنخواہ سے زیادہ ایک ماہ میں کمائی

یوٹیوب

ظہیر الحق پیشے کے اعتبار سے سکول ٹیچر ہیں اور ایک سرکاری سکول میں مڈل کلاس کے بچوں کو سائنس پڑھاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں شوق تو تھا لیکن سرکاری ملازمت کی وجہ سے وہ یو ٹیوب کا کام نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن پھر مالی حالات کی ہی وجہ سے انھوں نے بھی پارٹ ٹائم کام شروع کیا اور اپنا یوٹیوب چینل بنایا۔

کچھ عرصے میں ان کا چینل بھی مونیٹائز ہو گیا اور ظہیر الحق کے بقول ان کو اس چینل سے ایک ماہ میں اتنے پیسے مل جاتے ہیں جتنے وہ اپنی چھ سال کی سروس کے دوران بھی نہیں کما سکے تھے۔

ظہیر الحق بھی یوٹیوب سے گولڈ بٹن حاصل کر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مالی حالات بہتر ہونے کے بعد وہ اپنے بچوں کو شہر کے بڑے پرائیویٹ سکولز میں پڑھا رہے ہیں جبکہ مکان کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔

ظہیر الحق کا کہنا تھا کہ اب وہ سرکاری نوکری سے گولڈن ہینڈ شیک لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تاکہ انھیں سرکار کی طرف سے بھی مزید پیسے مل جائیں۔

80 سالہ بزرگ یوٹیوبر

یوٹیوبر

عمومی طور پر پاکستان میں اگر کوئی شخص 80 سال کا ہو جائے تو اس کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزرتا ہے لیکن حیدر علی کی ٹیم میں ایک 80 سالہ بزرگ نذیر احمد بھی ہیں جو کہ نہ صرف فلمنگ میں حصہ لیتے ہیں بلکہ یوٹیوب مواد تخلیق کرنے میں بھی اُن کی مدد کرتے ہیں۔

نذیر احمد نے بتایا کہ پہلے وہ گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ان کا روزمرہ کا معمول گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر تک ختم ہو جایا کرتا تھا۔

لیکن گذشتہ ایک سال سے وہ بھی حیدر علی کے ساتھ مل چکے ہیں اور نہ صرف انھیں معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے بلکہ ان کا وقت بھی گزر جاتا ہے۔

گاؤں کے لوگوں کو روز گار ملنے یا ان کی مثبت کاموں میں مصروفیت پر گاؤں کے بزرگ بھی بہت خوش ہیں اور اب وہ اپنے بچوں کو جھڑکنے کی بجائے ان کو اپنے کام میں مزید نکھار لانے کے لیے مشورے بھی دیتے ہیں۔

SOURCE : BBC