SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, ازادہ موشیری، عثمان زاہدی اور کامل دایان خان
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
15 منٹ قبل
برفانی تیندوے غرّاتے نہیں ہیں۔ اس لیے جب ہم اس خطرناک شکاری میں سے ایک کی طرف بڑھے تو وہ بلی کی طرح آواز نکال رہی تھی۔
‘لَولی’ نامی اس تیندوے کے بچے کو 12 سال قبل پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں اس وقت بچایا گيا تھا جب وہ یتیم ہو گیا تھا۔
اسے جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے نے برسوں تک کھانا کھلایا۔ اب یہ مادہ تیندوا یہ نہیں جانتی کہ جنگل میں اسے کیسے شکار کرنا ہے، اس لیے اسے آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا۔
لَولی کی نگرانی کرنے والے تہذیب حسین ہمیں بتاتے ہیں کہ ’اگر ہم اسے آزاد کر دیتے ہیں تو وہ کسی کسان کی بھیڑوں پر حملہ کرے گی اور (نتیجتاً) ہلاک ہو جائے گی۔‘
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ حفاظت کے قوانین کے باوجود ہر سال 221 سے 450 کے درمیان برفانی تیندوے مارے جاتے ہیں اور اس وجہ سے گذشتہ دو دہائیوں میں ان کی عالمی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ان میں سے نصف سے زیادہ کی اموات مویشیوں کے نقصان کے بدلے میں ہوئی ہیں۔ یعنی اگر کوئی تیندوا کسی مویشی پر حملہ کرتا ہے تو انسان اس کے بدلے میں اس کا شکار کر لیتے ہیں۔
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اب جنگل میں صرف 4,000 سے 6,000 کے درمیان برفانی تیندوے باقی بچے ہیں اور ان میں سے تقریباً 300 پاکستان میں ہیں۔ اس طرح پاکستان ان برفانی تیندووں کے لیے دنیا کی تیسری بڑی آبادی ہے۔
برفانی تیندوں کو درپیش پریشان کن رجحانات کو تبدیل کرنے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پاکستان کی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی مدد سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے چلنے والے کیمرے تیار کیے ہیں۔
ان کا مقصد برفانی تیندووں کی موجودگی کا پتہ لگانا اور ٹیکسٹ میسج کے ذریعے گاؤں والوں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کو محفوظ مقام پر لے جائیں۔

ان کیمروں کو ایک پول پر نصب کیا گیا ہے جس کے اوپر سولر پینل لگا ہوا ہے۔ یہ کیمرے بنجر اور ناہموار پہاڑوں کے درمیان تقریباً 3,000 میٹر (9,843 فٹ) کی بلندی پر لگائے گئے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تحت جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے آصف اقبال کہتے ہیں کہ ’یہ برفانی تیندووں کا علاقہ‘ ہے۔ وہ ہمیں کچھ اور قدم آگے لے جاتے ہیں اور زمین پر موجود ان کے پنجوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل نئے ہیں۔‘
آصف کو امید ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیمرے نے برفانی تندوں کی موجودگی کے مزید شواہد ریکارڈ کیے ہیں اور یہ کہ مصنوعی ذہانت کا یہ سافٹ ویئر کام کر رہا ہے۔ یہ سافٹ ویئر انسانوں، دوسرے جانوروں اور برفانی تیندووں میں فرق کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
آزمائش اور غلطی

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈبلیو ڈبلیو ایف فی الحال اس نطام کے تحت نصب کیے گئے 10 کیمروں کی جانچ کر رہا ہے جو گلگت بلتستان کے تین گاؤں میں نصب کیے گئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے اس ماڈل کو ترتیب دینے میں تین سال لگے ہیں۔ یہ اگرچہ پوری درستگی سے شناخت نہیں کرتا لیکن اس کی کارکردگی متاثر کن ہے۔
اپنے دورے کے دوران جب ہم پہاڑ سے نیچے آئے تو آصف نے اپنا کمپیوٹر نکالتے ہوئے مجھے ایک ڈیش بورڈ دکھایا۔ ان کے لیپ ٹاپ پر اس مصنوعی ذہانت والے پروگرام کے ذریعے حاصل کردہ کچھ تصاویر تھیں ۔ ان میں میری بھی چند تصاویر تھی اوردرستگی کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ میں ایک انسان ہوں۔ لیکن جب ہم نے چند مزید تصاویر دیکھیں تو ایک تصویر میں مجھے ایک انسان اور جانور دونوں کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ میں نے ان تصاویر میں ایک سفید رنگ کی موٹی فلیس پہن رکھی تھی اس لیے میں نے پروگرام کی طرف سے مجھے بھی چیتا قرار دیتے کی غلطی کو معاف کر دیا۔
پھر آصف نے مجھے پیسہ وصول تصاویر دکھائی جن میں سے ایک میں ایک برفانی تیندوا جس کی چند راتوں پہلے تصویر حاصل کی گئی تھی۔ انھوں نے بعدازں ایک ہفتے قبل حاصل کردہ ایک اور تصویردکھائی جس میں ایک برفانی تیندوے نے اپنی قریبی چٹان کے ساتھ دم اٹھا رکھی ہے۔ آصف کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مادہ تیندوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی حد بندی کر رہی ہے۔‘
پتھریلے اور بلند پہاڑی علاقوں میں کیمرے لگانے میں بہت زیادہ مشکل پیش آئی اور اس کے لیے متعدد تجربات کیے گئے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کئی قسم کی بیٹریوں کے ساتھ تجربہ کیا یہاں تک کہ اسے ایک ایسی بیٹری مل گئی جو سخت سردیوں کا بھی مقابلہ کر سکتی تھی۔ جانوروں کے گزرتے وقت روشنی کی عکاسی کرنے سے بچنے کے لیے ایک مخصوص پینٹ کا انتخاب کیا گیا۔
اگر علاقے میں موبائل سروس کام نہ کرے تو بھی یہ ڈیوائس اپنے اندر موبجود سٹوریج میں ڈیٹا کی ریکارڈنگ اور تصاویر کھینچنا جاری رکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس پر کام کرنے والی ٹیم کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کچھ ایسے مسائل ہیں جن کو وہ آسانی سے حل نہیں کرسکتے ہیں۔
اگرچہ انھوں نے نصب کیے جانے والے کیمرے کے لینس کو دھاتی باکس کے ذریعے محفوظ بنا لیا تھا لیکن لینڈ سلائیڈنگ سے تباہ ہونے والے سولر پینلز کو انھیں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

معاشرے میں شکوک و شبہات
خیال رہے کہ صرف ٹیکنالوجی کی وجہ سے مسائل پیدا نہیں ہوئے۔ مقامی کمیونٹی کو بھی اس نظام کو قبول کروانا ایک چیلنج رہا ہے۔ شروع میں لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھے کہ آیا یہ منصوبہ ان کی یا برفانی تیندووں کی مدد کر بھی سکتا ہے۔
آصف کہتے ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ کچھ تاریں کٹی ہوئی تھیں۔ اور کچھ کیمروں پر لوگوں نے کمبل ڈال دیے تھے۔‘
تحقیقاتی ٹیم کو مقامی ثقافت اور خواتین کے پردے کا بھی خیال رکھنا تھا۔ اس لیے کیمروں کو ہٹانا پڑا کیونکہ اس جگہ سے خواتین اکثر گزرتی تھیں۔
کچھ دیہاتوں کو ابھی تک رضامندی اور رازداری کے فارم پر دستخط کرنا ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ابھی تک ان کے علاقے میں ٹیکنالوجی کو متعارف نہیں کیا جا سکا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف مقامی کسانوں سے ایک عہد چاہتا ہے کہ وہ شکاریوں کو فوٹیج تک رسائی نہیں دیں گے۔
ستارہ نے جنوری میں اپنی تمام چھ بھیڑیں کھو دیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ انھیں اپنے گھر کے اوپر والی زمین پر چرانے لے گئی تھیں لیکن ایک برفانی چیتے نے ان پر حملہ کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان جانوروں کو پالنے میں تین سے چار سال کی محنت لگی تھی، اور سب ایک ہی دن میں ختم ہو گئے۔‘

اپنے ذریعے معاش کو گنوا دینے کی وجہ سے وہ کئی دنوں تک بستر سے نہیں اٹھیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مصنوعی ذہانت پر مبنی کیمرے سے پر امید ہیں کہ یہ کیمرے مستقبل میں مدد کر سکتے ہیں تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ’میرے فون میں بمشکل دن بھر میں کوئی سروس یا سگنل آتے ہیں ایسے میں ٹیکسٹ پیغام کیسے مدد کر سکتا ہے؟‘
گاؤں کے عمائدین کے ایک اجتماع میں خیبر گاؤں کے رہنما بتاتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں رویوں میں تبدیلی آئی ہے اور یہ کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اب برفانی تیندووں کی اہمیت اور ماحولیاتی نظام پر ان کے اثرات کو سمجھنے لگے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق، برفانی تیندوے آئی بیکس ( پہاڑی بکریوں) اور بلیو شیپ کا شکار کرتے ہیں اور ان جانوروں کو چراگاہوں میں زیادہ چرنے کا موقع نہیں دیتے جو نہ صرف سبز چراگاہوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے بلکہ مقامی افراد کے مویشوں کے لیے بہتر چارہ بھی مہیا کرتا ہے۔
لیکن ہر کوئی اس بات سے قائل نہیں ہے۔ ایک مقامی کسان ان تیندوں کے فوائد کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے ہمارے پاس 40 – 50 بھیڑیں تھیں، اب ہمارے پاس صرف چار یا پانچ بچی ہیں، اور اس کی وجہ برفانی تیندوے ہیں (جو بھیڑوں کا شکار کرتے ہیں) اور پہاڑی بکریاں ہیں جو ساری گھاس چر جاتی ہیں۔‘

موسمیاتی تبدیلی کا بھی ایک کردار ہے کیوںکہ کچھ لوگ برفانی تیندووں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے مقامی آبادی کو مزید اونچے علاقوں میں اپنی فصلیں اور مویشیوں کو منتقل کرنے پر مجبور کیا ہے اور یہ علاقے برفانی تیندوے کا مسکن ہے اور اس کے مسکن میں در اندازی کے مترادف ہے جس کی وجہ سے مویشیوں کو زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔
چاہے گاؤں والے تحفظ کے پیغام سے قائل ہوں یا نہیں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ہمیں بتاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں قانونی سزائیں ان کے تحفظ کے سلسلے میں ایک مضبوط رکاوٹ کا کام کر رہی ہیں۔
خیبر سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر وادی ہوپر میں سنہ 2020 میں برفانی تیندوے کو مارنے کے جرم میں تین افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ ان میں سے ایک نے سوشل میڈیا پر مردہ جانور کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔
اگرچہ مصنوعی ذہانت کے اس منصوبے میں شامل افراد کو امید ہے کہ ان کے منصوبے سے تیندووں کے تحفظ میں مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ واحد حل نہیں ہیں۔
ستمبر میں وہ ان مصنوعی ذہانت سے لیس کیمروں میں بو، آواز اور روشنی کے ذریعے جانچنے کا تجربہ شروع کرنے جا رہے ہیں تاکہ برفانی تیندوے کو قریبی دیہاتوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کی جا سکے، جس سے وہ اپنے آپ کو اور مویشیوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
سائنس دانوں کا ابھی ان تیندوں کی تلاش اور سراغ لگانے کا کام ختم نہیں ہوا ہے۔
SOURCE : BBC