SOURCE :- BBC NEWS

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک گھنٹہ قبل

سنہ 2024 میں روس میں مجموعی طور پر صرف 12 لاکھ بچے پیدا ہوئے ہیں اور یہ گذشتہ 25 برسوں میں ملک میں بچوں کی سالانہ شرح پیدائش کی کم ترین سطح ہے۔

بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے روسی حکام مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔ سنہ 2025 کے آغاز سے اب تک روس کے 27 خطوں (صوبوں) میں حکام نے ہائی سکول اور یونیورسٹی کی سطح پر زیر تعلیم حاملہ طالبات کے لیے معاوضوں کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو بچوں کی پیدائش کی جانب راغب کیا جا سکے۔

مقامی حکام کی جانب سے حاملہ لڑکیوں کو دیے جانے والے یہ معاوضے 230 ڈالر (تقریباً ساڑھے 64 ہزار پاکستانی روپے) سے لے کر 1760 ڈالرز (تقریباً پانچ لاکھ روپے) کے درمیان ہیں۔

ان معاوضوں کا مقصد ملک کی گرتی ہوئی شرحِ پیدائش کو بڑھانا ہے۔

اس منصوبے کے پیچھے کارفرما سوچ انتہائی سادہ ہے: ایک خاتون اپنی زندگی میں جتنی جلدی ماں بنے گی اُتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ وہ مزید بچے پیدا کرے۔

تاہم ماہرین اس رائے سے متفق نہیں اور اس اقدام کے نتیجے میں روس میں نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ روس میں پیدائش کی شرح میں کمی کی وجہ یوکرین کے ساتھ طویل جنگ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی آبادی کی ناختم ہونے والی جنگ کے باعث نقل مکانی ہے۔

لیکن روسی حکام کی جانب سے خواتین کو بچوں کی پیدائش پر معاوضے کے اعلان اور اس متعلق جارحانہ پراپیگنڈہ بیانات کے باوجود، روس اپنی آبادی میں اضافے کی شرح میں ہونے والی کمی کو روک نہیں پایا جس کے بعد حاملہ ہونے پر معاوضہ دیے جانے والے اس پروگرام میں کم عمر خواتین کو بھی شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

روس میں مقامی حکومتوں کی جانب سے ماں بننے والی خواتین کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رواں سال ماں بننے والی خواتین کے لیے شروع کی جانے والی ادائیگیوں کا ہدف بنیادی طور پر کالج کی طالبات اور ہائی سکول کی لڑکیاں ہیں۔

بیشتر علاقوں میں 25 سال سے کم عمر نوجوان خواتین اِن معاوضوں کے لیے اہل ہیں لیکن اس کے باوجود ایک قلیل تعداد نے ہی یہ معاوضے حاصل کیے ہیں۔

بی بی سی کی روسی سروس کی تحقیقات کے مطابق، سال کے آغاز سے اب تک 310 خواتین کو بچوں کی پیدائش کے عوض معاوضے ادا کیے گئے ہیں جن میں سے 66 طالبات ہیں۔

مارچ 2025 میں، روس کے کئی علاقوں میں سکول جانے والی حاملہ لڑکیوں کے لیے ادائیگیوں کے پروگرام میں توسیع کی گئی ہے۔

سنہ 2023 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روس میں 12 سے 17 سال کی عمر کی نو ہزار لڑکیوں نے بچوں کو جنم دیا۔ اس عمر کی حاملہ لڑکیوں میں سے 40 فیصد نے اسقاط حمل کروایا۔

روس کی وزارتِ تعلیم اور سائنس کے مطابق جولائی 2024 میں روس کی مختلف یونیورسٹیوں میں 18 ہزار ایسی لڑکیاں زیرِ تعلیم تھیں جن کے تین سال سے کم عمر کے بچے تھے۔

کم عمر ماؤں کو مراعات

یہ رقوم عام طور پر بچے کی پیدائش سے پہلے خواتین کو ادا کر دی جاتی ہیں اور اس کے لیے عورت کی آمدنی یا ازدواجی حیثیت کے حوالے سے کسی قسم کی شرط لاگو نہیں کی گئی ہے۔

جنوبی روس کے علاقے کیمیروو نے حال ہی میں ایسی ہی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقامی حکومت نے حاملہ یونیورسٹی اور ہائی سکول کی طالبات کے لیے ایک لاکھ روبل جو تقریباً 1200 ڈالرز بنتی ہے کی ادائیگی کی سکیم متعارف کروائی ہے۔

اپریل کے وسط میں کیمیروو کے حکام نے کہا تھا کہ سنہ 2024 میں 515 نوعمر لڑکیاں حاملہ ہوئیں، جو کہ 2023 کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی زیادہ تھیں۔ ان میں سے چار لڑکیوں کی عمر 15 سال سے بھی کم تھی۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کے اس اقدام سے ولادیمیر پوتن کے اپنے حامیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

ڈوما کی ریاست کی ممبر کیسنیا گوریاچووا نے اس اقدام کو ’نوعمری میں حمل کو عام کرنے‘ کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب ایک لڑکی بچے کو جنم دیتی ہے، تو یہ بہادری نہیں، بلکہ ایک المیہ ہے۔‘

اپریل کے اوائل میں، روسی وزیر محنت انتون کوتیاکوف نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی کہ ان ادائیگیوں کا مقصد کم عمری میں بچوں کی پیدائش کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں بلکہ مشکل حالات میں نوجوان ماؤں کی مدد کرنا ہے۔

دوسری جانب مرکزی حکومت خود کو ان پالیسیوں سے دور کر چکی ہے۔ حکام نوعمری میں حمل کی حوصلہ افزائی کے لیے قومی سطح پر اقدامات متعارف کرانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور علاقائی حکومتوں کے ان اقدامات کو ان کی ’من مانی‘ گردانتے ہیں۔

نومبر 2024 میں صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے گورنرز کی کارکردگی جانچنے کے لیے نئے پیمانے متعارف کروائے گئے تھے۔

اور ’ٹوٹل فرٹیلٹی ریٹ‘ گورنروں کے کام کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیے جانے والے اشاریوں میں سے ایک ہے۔

آبادیاتی بحران

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

1990 کی دہائی میں روس میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ سنہ 1990 میں روس میں 20 لاکھ بچے پیدا ہوئے تھے اور سنہ 1999 تک یہ تعداد کم ہو کر 12 لاکھ رہ گئی۔ اس کی بڑی وجہ معاشی اور سماجی عدم استحکام تھا جس کے باعث بہت سے لوگوں نے یا تو بچے پیدا کرنا کا ارادہ ملتوی کر دیا یا بچے پیدا ہی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

2000 کی دہائی میں اس صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوئی جس کی جزوی وجہ سنہ 2007 میں زچگی کے دوران خواتین کو دی جانے والی مراعات تھیں۔ ابتدائی طور پر دوسرے بچے کی پیدائش پر خواتین کو بونس دیا جاتا تھا، بعد ازاں پہلے بچے پر بھی یہ بونس دیا جانے لگا۔

تاہم 2016 کے بعد سے حکام کی تمام تر کوششوں کے باوجود بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کا رجحان ایک بار پھر دیکھنے میں آ رہا ہے جو اب 1990 کی دہائی کی سطح سے بھی نیچے پہنچ گیا ہے۔

اس کمی کی ایک ممکنہ وضاحت روس سے تارکین وطن کا اخراج ہے جن کے نوزائیدہ بچے بھی اب روسی اعدادوشمار میں شامل نہیں۔

بچوں کے پیدائش میں کمی کے رجحان کی ایک اور وجہ یوکرین جنگ ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات کے بارے میں ابھی تک کوئی تحقیق دستیاب نہیں لیکن اس تنازعے کے نتیجے میں لوگوں کے ملک سے باہر جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

طویل مدتی پیش گوئیاں صورتحال میں مزید بگاڑ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

روس کے وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سنہ 2046 تک ملک کی آبادی کم ہو کر 13 کروڑ 87 تک پہنچ سکتی ہے۔ سنہ 2023 کے آغاز میں روس کی آبادی 14 کروڑ 64 لاکھ سے زائد تھی۔

حمل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نو عمری میں حمل سے پیدا ہونے والے خطرات

بی بی سی نے روسی اور برطانوی ماہرین سے بات کی جس میں یہ سامنے آیا کہ پہلے بچے کی پیدائش پر مالی مراعت فراہم کر کے طویل مدت میں شرح پیدائش میں اضافہ کرنا ناممکن ہے اور دنیا بھر میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

روسی ماہر الیکسی راکشا کہتے ہیں کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہوں کہ پہلے بچوں پر مراعات دے کر شرح پیدائش بڑھانے کی کوئی بھی کوشش حالیہ دہائیوں میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے، نہ ہی روس میں اور نہ ہی بیرون ملک کہیں اور۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان ارمش کے خیال میں بھی مالیاتی مراعات کے ذریعے شرح پیدائش کو بحال کرنے کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔

’دنیا کا کوئی بھی ملک اس کام میں کامیاب نہیں ہوا ہے کیونکہ یہ عارضی اقدامات ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں شرح پیدائش میں ابتدائی طور پر اضافہ ہوتا ہے لیکن پھر اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔‘

ارمش اس مفروضے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ 15 سے 19 سال کی خواتین میں شرح پیدائش میں اضافہ ممکن ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں نوعمر حمل کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں کیوںکہ اس سے اکثر سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ماں کی صحت کو بھِی نقصان پہنچاتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے نتیجے میں بڑے خاندان نہیں بنتے جیسا کہ روسی حکام کی خواہش ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق نوعمر حمل (10 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں حمل) ماؤں اور ان کے بچوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات سے منسلک ہے۔

نو عمری میں حمل کے نتیجے میں لڑکیوں میں ایکلیمپسیا (ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے دورے)، بعد از پیدائش سوزش، اور سنگین انفیکشن جیسی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ان ماؤں کے ہاں وقت سے پہلے پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے، پیدائش کے وقت بچوں کا کم وزن اور زندگی کے پہلے ہفتوں میں انھیں صحت کے مسائل لاحق ہو سکتے ہیں۔

SOURCE : BBC